پاکستان میں انتقام کی سیاست تو شروع دن سے
ہی پروان چڑھ رہی ہے جس کے زریعے اقتدار میں آنے والے اپنے مخالفین کو
مختلف سرکاری محکموں کے زریعے وقتا فوقتا سبق سکھاتے رہتے ہیں مگر اس بار
موجودہ پنجاب حکومت نے ایک سرکاری ادارے سے انتقام لینے کا انوکھا طریقہ
نکال لیا جس کے باعث افسران اور ماتحت عملہ کے درمیان ایک سرد جنگ کا آغاز
ہوچکا ہے اگر اس جنگ کو فوری طور پر نہ روکا گیا تو پھر یہ کسی دن بہت بڑی
خبر کی صورت میں دھماکہ بھی ہوسکتا ہے سابق وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز
الہی کے دور اقتدار میں بننے والے ٹریفک وارڈن اس وقت پنجاب حکومت کے نشانہ
پر ہیں اندر کی خبریں دینے والوں نے ایک دن بتایا کہ وزیر اعظم میاں نواز
شریف اور وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے اپنے دورہ چین سے قبل ایک
خصوصی میٹنگ میں آئی جی پولیس پنجاب کو صوبہ میں ٹریفک وارڈنز کے نظام کو
ختم کرنے کا حکم دیا تھا جس پر آئی جی پولیس نے ٹریفک وارڈنز کے محکمہ کو
ختم کرنے سے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ میں ٹریفک وارڈنز کا
نظام قاعدہ قانون کے مطابق کیاگیا تھا جس کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے جس پر
میاں برادران نے اس محکمہ کو کسی اور محکمہ میں ضم کرنے کی ہدایت کردی اب
بتانے والے یہ بھی بتاتے ہیں خادم اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کو ٹریفک
وارڈن سے نہیں بلکہ اس وردی سے شدید نفرت ہے کیونکہ یہ وردی سابق وزیر اعلی
پنجاب چوہدری پرویز الہی نے دی تھی اور جس وقت یہ محکمہ بنا تھا اس وقت ان
وارڈنز کی تنخواہیں ایک تولہ سونے سے زائدیعنی 16ہزار روپے تھی اور اس وقت
سونا تقریبا 14ہزار کے قریب تھااب موجودہ حکومت نے ٹریفک کے نظام کے لیے ہی
دو محکمے اور بنا دیے ایک LTCاور دوسرا رنگ روڈ پولیس اور حکومت نے ان
دونوں محکموں کی تنخواہیں وارڈن پولیس سے زیادہ رکھ دی اس وقت LTC میں
180وارڈن کام کررہے ہیں جن میں سے 120وارڈن پنجاب حکومت نے ٹریفک وارڈن سے
لیے اور انکی تنخواہ 48ہزار روپے مقرر کردی جبکہ رنگ روڈ پولیس میں زیادہ
تر ٹریفک وارڈن کے ہی لڑکے بھرتی کیے گئے جن کی تنخواہ 44ہزار روپے مقرر
کردی گئی اور ان دونوں نئے بننے والے محکموں میں ان وارڈنز کو لیا گیا ہے
جو یا تو کسی نہ کسی وجہ سے نوکری چھوڑ چکے تھے یا انکو نکال دیا گیا تھا
جبکہ اس وقت ایک عام ٹریفک وارڈن 32ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لے رہا ہے جبکہ
ٹریفک وارڈن اس وقت سب سے زیادہ کام کرنے والے ملازم ہونے کے باوجود سب سے
زیادہ زیر عتاب ہیں اور افسران وزیر اعلی کو خوش کرنے کے لیے لاہور میں
ڈیوٹی دینے والے اکثر ٹریفک وارڈنز کوبھاری جرمانے اور سزائیں بھی کرتے
رہتے ہیں ابھی کچھ عرصہ قبل ایک ٹریفک وارڈن کو اسکی تنخواہ سے زیادہ
40ہزار روپے جرمانہ کردیا اور اس وقت لاہور میں ڈیوٹی دینے والے ٹریفک
وارڈن میں سے شائد ہی کوئی ایسا وارڈن ہو جو افسران کے ظلم کا شکار نہ ہوا
ہو جبکہ اس وقت وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دو دن لاہور میں رہنے کے باعث
ٹریف وارڈن کی چھٹیاں اور ریسٹ بھی ختم ہو چکا ہے جبکہ اس وقت محکمہ کی طرف
سے وارڈنز کو دی جانے والی افطاری میں ایک پیکٹ نمکو 5روپے والا پیکٹ اور
5روپے والا ہی کیک ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ گذشتہ تین سال سے کسی بھی وارڈن
کو کوئی جوتی نہیں ملی جبکہ وارڈنز کو ملنے والی وردیاں بھی انہیں پوری
نہیں آتی اس لیے سب وارڈنز اپنی اپنی وردی خود سلواتے ہیں اسکے علاوہ پنجاب
پولیس اور ٹریفک وارڈنز سکیل 14کے افسران کے TADAمیں بھی زمین آسمان کا فرق
ہے ویسے حکومت کو چاہیے تو یہ تھا کہ بجائے اسکے کہ مزید نئے محکمے بنائے
جاتے انہی وارڈنز کی مراعات میں مزید اضافہ کرکے باقی کے دو محکموں کا بھی
کام لے لیا جاتا اور اس طرح جو ان کے درمیان تفریق پیدا ہوچکی ہے وہ نہ
پیدا ہوتااب اگر حکومت اور حکومتی محکمے ہی آپس میں دست وگریبان ہو جائیں
گے جس کا نزلہ لا محالہ غریب عوام پر ہی گرے گایہی وجہ ہے کہ اپنے افسران
اور حکومتی بے حسی کا غصہ کسی نہ کسی پر تو نکلے گا اور وارڈز ہر چوک میں
کسی نہ کسی غریب موٹر سائیکل والے یا رکشے والے کو روک کراسکا چالان کررہے
ہوتے ہیں بڑی گاڑیوں کو روکنے سے ان کے پر جلتے ہیں اور انکو روکنے کی نہ
ان میں ہمت ہے اور نہ ہی یہ جرئات کرتے ہیں اس ناانصافی کے بعد غریب یہ
سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا قانون صرف غریب موٹر سائیکل والوں پر ہی لاگو
ہوتا ہے اگر تو ہمیں پاکستان کو عزت دینا ہے تو اس ملک کے غریب شہریوں کو
عزت دیں- |