عدلیہ بحالی تحریک کے دوران سول سو سائٹی
اور عام لوگ بہت پر امید تھے کہ اب سب کو سستا اور فوری انصاف میسر ہوگا جس
کے لئے عوام نے وکلا کے ساتھ بھرپور اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اپنا بھر
پورکردار ادا کیا تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا بلکہ غریب مظلوم اور
کمزور لوگ اب بھی انصاف کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں ۔پولیس کے تفتیشی
نظام میں بے شمار خرابیاں،سیاسی اثر و رسوخ ،سرکاری ہسپتالوں سے میڈیکل
لیگل سرٹیفکیٹ لینے میں شدید مشکلات اس کے بعد لوئر عدالتیں جو کہ اب بھی
اپنی پرانی ڈگر پر ہی چل رہی ہیں حالانکہ ان کی بہتری اور بنیادی سہولیات
فراہم کرنے میں گزشتہ کئی سالوں سے کافی کام ہوا ہے غرضیکہ انصاف کی راہ
میں جگہ جگہ رکاوٹیں موجود ہیں جنہیں دور کرنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں
ہے کئی غریب تو تھک ہار کر گھر بیٹھ جاتے ہیں اور بعض قانون کو اپنے ہاتھ
میں لے کر انصاف حاصل کرنے کی کوشش میں جرائم کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں جس
کی وجہ سے ان کی کئی نسلوں کوخمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔عام انتخابات کے نتیجے
میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل ہوچکی ہے عوام کی فلاح و بہبود اور
ان کے مسائل کے حل کے لئے بڑے اچھے منصوبے ان کے دانشور حضرات نے بنا رکھے
ہوں گے لیکن مصالحتی کمیٹیوں کا یقینا کسی دانشور کو خیال نہیں آیا ہوگا
کیونکہ ان کی تشکیل کے لئے کوئی بڑے بڑے کنسلٹنٹس کی خدمات کی ہرگز ضرورت
نہیں اور نہ ہی بڑے فنڈز مختص کرنے کی ضرورت ہے اس کے لئے تو صرف بلا
امتیاز اور بلا تفریق سیاست سے پاک ہر گاوں سے پانچ یاچھ اچھے کردار کے
مالک افراد چاہییں جن پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دی جائے جس میں ریٹائرڈ
سرکاری ملازمین بھی موجود ہوں جو اپنے ہی گاؤں کے چھوٹے موٹے تصفیہ طلب
جھگڑوں کو گاوں میں ہی حل کردیں اور ہر یونین کونسل کی سطح پربھی ایک
پانچ،چھ رکنی کمیٹی ہو جو گاوں والی کمیٹی سے نہ حل ہونے والے مسائل کو حل
کرے اسی طرح ہر تھانے کی سطح پر بھی پانچ ،چھ افراد پر مشتمل کمیٹی موجود
ہو جو یونین کونسل کی سطح پر حل نہ ہونے والے مسئلے کو حل کرے۔اس عمل سے
پولیس پر پڑنے والا چھوٹے موٹے کیسوں اور جرائم کا بے جا بوجھ کم ہوجائے
گااور ان کی کارکردگی میں بھی بہتری آئے گی جس سے وہ سنگین جرائم میں ملوث
ملزمان کوپکڑنے پراپنی پوری توجہ دے سکے گی۔ مختلف اضلاع میں کئی تھانوں کی
سطح پر مصالحتی کمیٹیاں تشکیل بھی دی گئیں تھیں لیکن وہ یا تو مقامی سیاسی
قیادتوں کی سفارش پر بنائی گئیں یا ایس ایچ او کی اپنی صوابدید پر جن کے
رزلٹ بالکل صفر رہے وہ کمیٹیاں صرف اخباری خبروں تک ہی محدود تھیں میں پورے
وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کے پاس ایک بھی کیس نہیں آیا ہوگا یا وہ اس
قابل ہی نہ تھے کہ کوئی ان پر یقین کرتا یا وہ کوئی مسئلہ حل کرنے کی
صلاحیت ہی نہیں رکھتے تھے ہر گاوں ، یونین کونسل اور تھانہ کی سطح پر پانچ
،چھ باکردار اور اچھے لوگوں کو ڈھونڈنکالنا کوئی مشکل کام نہیں ہے کیونکہ
اس ملک میں اب بھی اچھے اور ایماندار لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔موجودہ
وفاقی و صوبائی حکومتیں اگر واقعی اس ملک اور عوام کے لیے کچھ کرنا چاہتی
ہیں تو انہیں مصالحتی کمیٹیوں کے قیام کے لئے باقاعدہ اسمبلیوں سے قانون
پاس کروانا چاہیے تاکہ ان کے کئے گئے فیصلوں کو قانونی تحفظ حاصل ہو۔ہمارے
ہمسائے بھارت میں قیام پاکستان سے قبل بھی پنچائتی سسٹم موجود تھا جو آج
بھی بڑی کامیابی سے چل رہا ہے بلکہ اس کے لئے وہاں انتخابات بھی ہوتے
ہیں۔میں وزیر اعظم پاکستان اورتمام وزرائے اعلیٰ سے درمندانہ اپیل کرتا ہوں
کہ مصالحتی کمیٹیوں کے قیام کا بل اسمبلیوں سے منظورپاس کروا ئیں تاکہ عوام
کو فوری اور مفت انصاف مل سکے۔ |