صدارتی انتخاب کے لیے سرگرمیاں تیز ہوگئیں

صدر پاکستان آصف زرداری کا دور صدارت آٹھ ستمبر کو ختم ہورہا ہے۔ اگلے صدر کے انتخاب کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں گرم ہوچکی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے صدارتی الیکشن کا شیڈول جاری ہونے کے بعد تمام ارکان پارلیمنٹ کے بیرون ملک جانے پر پابندی عاید کرتے ہوئے بیرون ملک موجود تمام ارکان پارلیمنٹ کو فوری وطن پہنچنے کی ہدایات بھی جاری کردی ہیں۔ حکمران اور اپوزیشن جماعتوں نے اپنے اپنے صدارتی امیدوار میدان میں اتار دیے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اپنے صدارتی امیدوار کے لیے ابتداً سرتاج عزیز، سعید الزمان صدیقی، ممنون حسین، اقبال ظفر جھگڑا، سردار مہتاب عباسی اور غوث علی شاہ کے نام شارٹ لسٹ کیے گئے تھے بعد ازاں تین ناموں پر غور کیا جارہا ہے جن میں سرتاج عزیز کو صدارتی امیدوار بنانے کے امکانات زیاہ ہیں، اکثر لیگی رہنماﺅں کا بھی فیصلہ یہی ہے کہ وہ سینئر بھی ہیں اور انہوں نے پرویز مشرف دور میں ن لیگ سے وفاداری بھی نبھائی ہے اور اس کے ساتھ ن لیگ کا انتخابی منشور تیار کرنے میں بھی ان کا اہم کردار تھا۔ جبکہ سندھ سے ممنون حسین اور جسٹس سعید الزماں صدیقی کا نام بھی زیر غور ہے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکمران جماعت کی جانب سے تین نام پیش کیے گئے ہیں لیکن قوی امکان یہ ہے کہ ن لیگ کی جانب سے ممنون حسین صدارتی امیدوار ہوں گے۔ سندھ سے صدارتی امیداوار لانے کی صورت میں سندھ کی سیاست میں طویل عرصے سے پائے جانے والے عدم استحکام کا خاتمہ کرنے میں مدد ملے گی۔

پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے فون پر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے رابطہ کر کے انہیں مسلم لیگ (ن) کے صدارتی امیدوار کی حمایت کرنے کی استدعا کی، جس پر خورشید شاہ نے جواباً کہا کہ وہ پارٹی سے مشاورت کے بعد جواب دیں گے۔ پیپلز پارٹی نے سینیٹر رضا ربانی کو اپنا صدارتی امیدوار بنانے کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔ خورشید شاہ نے تحریک انصاف کے نائب صدر شاہ محمود قریشی سے رابطہ کر کے انہیں رضا ربانی کی حمایت کرنے کے لیے کہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی کوشش ہے کہ رضا ربانی کو اپوزیشن جماعتوں کی حمایت مل جائے۔ خورشید شاہ نے صدارتی امیدوار کے حوالے سے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن سے بھی رابطہ کیا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن سمیت دیگر تمام جماعتوں سے رابطہ کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع کے مطابق اپوزیشن صدارتی انتخاب لڑے گی اور حکومت کے امیدوار پر اتفاق رائے مشکل نظر آ رہا ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے مقابلے پر جسٹس (ر) وجیہہ کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے اس کے امیدواروں کی حمایت کی درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ وہ پارٹی سے مشاورت کے بعد جواب دیں گے جبکہ انہوں نے وفاقی وزیر پانی و بجلی سے کہا کہ حکومت اپوزیشن کے امیدوار سینیٹر میاں رضا ربانی کی حمایت کرے۔ مسلم لیگ(ق) کی جانب سے بھی اپنے الگ امیدوار سعید مندو خیل کو میدان میں اتار دیا گیا ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ صدارت کے لیے اپوزیشن متفقہ امیدوار لانے میں ناکام رہے گی، اپوزیشن کے ایک سے زیادہ امیدوارمیدان میں ہوں گے۔ یہ صورتحال پیپلزپارٹی کے امیدوارکو مزید نقصان پہنچائے گی۔

ایم کیو ایم کے سینئر رہنما و ایم این اے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے ابھی تک صدر کے ووٹ کے لیے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے، تاہم ایم کیو ایم صدر کا ووٹ پیپلزپارٹی کے امیدوار کو دے گی۔ انہوں نے کہا کہ صدر کا عہدہ وفاق کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے تاہم جو بھی صدر منتخب ہو وہ پاکستان کی بقاء کے لیے ہو، ملک میں دہشت گردی جیسے بڑے مسائل کے خاتمے کے لیے چاروں صوبوں میں ہم آہنگی ضروری ہے، مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو چاہیے کہ تمام صوبوں کے ساتھ مشاورت جاری رکھیں۔ وزیراعظم اور قومی اسمبلی کے سپیکر کا انتخاب بھی بڑے صوبے سے کیا گیا ہے، تاہم صدر چھوٹے صوبے سے ہونا چاہیے، مسلم لیگ(ن) نے اکثریت وزراء بڑے صوبے سے بنائے ہیں اور صرف پنجاب کی حد تک وفاقی حکومت محدود ہو گئی ہے جو اچھا شگون نہیں ہے۔ لہٰذا وزیراعظم تمام صوبوں کے ساتھ مشاورت جاری رکھیں اور تمام سیاسی جماعتیں مل کر ملکی مسائل کا خاتمہ کر سکتی ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے صدارتی انتخاب کی یہ ایسی جنگ ہے جس میں ان کی جیت کاامکان نہیں۔ مرکز اورپنجاب میں واضح اکثریت اوربلوچستان میں بھی اطمینان بخش صورتحال کی حامل مسلم لیگ(ن) سے شکست کھانے کے لیے رضاربانی کی بطورصدارتی امیدوار نامزدگی یقیناً ان کی پارٹی کے لیے خدمات کااعتراف نہیں ہے۔ مسلم لیگ(ن) سمیت تمام جماعتوں میں اچھی ساکھ رکھنے والے رضاربانی اس وقت سخت مایوس ہوئے تھے جب چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے وقت فاروق نائیک کوان پرترجیح دی گئی۔ اس کے ردعمل میں انہوں نے صدرزرداری کی طرف سے دیگر تمام پیشکشیں ٹھکرادی تھیں۔ اس وقت وہ پارٹی چھوڑنے والے تھے اورہر جماعت انہیں قبول کرنے کو تیارتھی۔ پی پی امیدوارکو زیادہ حمایت صرف سینیٹ اورسندھ اسمبلی سے مل سکتی ہے جوکہ رضاربانی جیسے شخص کے لیے مایوس کن صورتحال ہے۔ نوازشریف اورمسلم لیگ(ن) کے اہم رہنما رضاربانی کے اہم ایشوزپر غیر جانبدارانہ کردارکی وجہ سے ان کابہت احترام کرتے ہیں تاہم اب انھوں نے انھیں صدارتی الیکشن میںبڑے مارجن سے شکست دینے کے لیے پلان بنالیا ہے۔ رضاربانی اور اعتزازاحسن جیسی شخصیات 2008ءکے الیکشن کے بعدصدارت اور چیئرمین سینٹ کے لیے پیپلزپارٹی کابہترین انتخاب ہوسکتی تھیں تاہم دونوں بھٹوکی پارٹی کے ساتھ ضائع ہوگئے۔ اب وہ صدارتی اورضمنی الیکشن میں ایک اورشکست دیکھنے کو تیارہیں۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ، وزیر اعظم ، اسپیکر اور چئیر مین سینیٹ کا تعلق پنجاب سے ہے، پیپلز پارٹی نے صدر کے عہدے کے لیے رضا ربانی کا نام چھوٹے صوبے سے دیا ہے۔ اگر حکومت کو امیدوار کے انتخاب میں دشواری کا سامنا ہے توان سے بہتر نام کسی کا نہیں ہے۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن نے صدارتی امیدوار کے لیے آرٹیکل 63/62 پر پورا اترنا لازمی قرار دے دیا ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کا بنایا ہوا آئین سے متصادم قانون مسترد کر دیا ہے۔ نامزدگی فارم میں بیان حلفی شامل کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق قرض نادہندہ دوہری شہریت کا حامل اور غیر صادق و امین صدارتی امیدوار نہیں ہو سکتا۔ غیر مسلم اور قادیانی بھی صدارتی امیدوار نہیں بن سکتا۔ صدارتی امیدواروں کو اس بارے میں حلف نامے ساتھ دینا ہوں گے ورنہ ان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کا خدشہ ہے۔ اسی طرح صدارتی امیدوار کے لیے آئین کی دفعہ 62/63 کے مطابق صادق وامین ہونا بھی لازمی ہو گا۔ امیدواروں کو بیان حلفی دینا ہوگا کہ وہ غیر مسلم، قادیانی یا احمدی نہیں، اسی طرح صدارتی امیدوار کے لیے کم از کم عمر 48 سال ہونا آئینی تقاضا ہے اس بارے بھی بیان حلفی دیا جائے گا۔

الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کی تاریخ آٹھ اگست دی تھی دو رواز قبل حکومت نے اس تاریخ کو بدلنے کی درخواست دائر کی تھی کہ چونکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ تاریخ پر لوگ حج عمرہ اور دوسری عبادات میں مصروف ہوں گے اس لیے تاریخ کو تبدیل کیا جانا چاہیے۔ حکومت کے اس موقف پر جمعیت علماءاسلام(س)، جمعیت علماءاسلام(ف)، جماعت اسلامی، جمعیت علماءاسلام پاکستان اور مجلس وحدت المسلمین سمیت کئی جماعتوں کا کہنا تھا کہ صدارتی انتخاب مقررہ وقت پر ہی ہونے چاہیے۔ جبکہ چیف الیکشن کمیشن ر فخر الدین جی ابراہیم نے کہا ہے کہ حکومتی درخواست کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے فیصلہ کر لیا ہے تاہم صدارتی الیکشن سے متعلق حکومتی درخواست واپس کرنے سے قبل کچھ رسمی کارروائی باقی ہے۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ صدارتی انتخاب کی تاریخ تبدیل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس وجہ ہونی چاہیے لیکن موجودہ حکومتی درخواست میں ایسی کوئی بات نہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ ا لیکشن کمیشن کے باقی ارکان بھی صدارتی الیکشن کی تاریخ بدلنے کے مخالف ہیں۔ آرٹیکل 254 کے تحت الیکشن کمیشن کے باب اختیار ہے کہ وہ کسی بھی الیکشن کی تاریخ تبدیل کر دے جیسے بے نظیر کی شہادت کے بعد 2008ءکے انتخابات کے حوالے سے کیا گیا تھا اور جس طرح 2010ءاور 2011ءمیں ضمنی انتخابات موخر کیے گئے تھے تاہم چیف الیکشن کمیشن ر کا کہنا ہے کہ آئین ہمیں صدارتی الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ بغیر کسی ٹھوس وجہ کے ہم ایسا کیوں کریں؟ اسی لیے ہم انہیں (حکومت) کو کہیں گے کہ صدارتی الیکشن کے لیے تاریخ کو حتمی شکل دی جا چکی ہے اور انہیں ہمارے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے اس پر عمل کرنا چاہیے۔ آئین کے تحت صدر کا انتخاب 8 اگست تک کرانا ضروری ہے کیونکہ 8 ستمبر کو زرداری کی مدت پوری ہورہی ہے اور اس سے ایک ماہ قبل انتخابات کرانا ضروری ہے۔ آئین کے مطابق صدر کے عہدے کے لیے انتخاب عہدے پر فائز صدر کی مدت ختم ہونے سے زیادہ سے زیادہ ساٹھ دن اور کم سے کم تیس دن قبل کرانا ہوگا۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700561 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.