پاکستانی قیادت افغانستان میں قیام امن کے لیے کوشاں

افغانستان کئی دہائیوں سے بدامنی و بے سکونی کی کیفیت کا شکار ہے۔افغان نسلیں انہی شورشوں میں پل کر بڑی ہورہی ہیں۔ پہلے روس نے افغانستان پر یلغار کر کے لاکھوں افغانوں کو موت کی وادی میں دھکیلا۔ اس کے بعد امریکا نے افغانستان پر دھاوا بولا اور جارحیت کے تمام ریکارڈ توڑدیے۔یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔افغانستان میں امن کا قیام ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔پاکستان افغانستان کا پڑوسی اور اسلامی ملک ہونے کے ناطے مشکل حالات میں بھی ہمیشہ افغانستان میں قیام امن کا خواہاں رہا ہے۔ایک پر امن افغانستان ہی پورے خطے کے لیے بہتر ہے۔جس کے لیے سب سے پہلے تو افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجوں کا نکلنا ضروری ہے،افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے نکلنے کی مستقبل قریب میں امید ظاہر کی جارہی ہے۔ ان حالات میں افغانستان میں قیام امن کی کیا صورت ہوگی؟اسی حوالے سے اتوار کے روز پاکستان کے خارجہ امور اور قومی سلامتی کے لیے وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے افغانستان کا دورہ کر کے کابل میں افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات کی اور اہم امور پر تبادلہ خیال کیا، انھوں نے وزیراعظم میاںنواز شریف کا پیغام بھی افغان صدر کو پہنچایا اور ان کو دورہ پاکستان کی دعوت دی جس کو حامد کرزئی نے قبول کرلیا ہے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے افغان وزیر خارجہ زلمے خلیل سے بھی ملاقات کی اور مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ نیک خواہشات اور دوستی کا پیغام لے کر کابل آیا ہوں،مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے۔ پاکستان امن مذاکرات کی بحالی کے لیے کوششیں کررہا ہے ،طالبان سے امن مذاکرات افغانستان کرے گا،امن مذاکرات کی بحالی میں رکاوٹ ہوئی تو پاکستان مدد کرے گا، پاکستان کی نئی حکومت افغانستان کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینا چاہتی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم نے افغان قیادت کے نام اپنے پیغام میں افغان عوام کی خواہش کے مطابق مفاہمتی عمل اور تمام افغان دھڑوں کو قومی دھارے میں لانے کی حمایت کی ہے۔افغان وزیرخارجہ زلمے رسول نے پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ امید ہے پاکستان میں نئی حکومت کے قیام اورسرتاج عزیز کے دورے سے دونوںملکوںکے تعلقات میں نیا باب کھلے گا، ماضی میں دونوں ملکوںکے درمیان بہتر تعلقات کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ افغان وزیرخارجہ نے افغانستان میں امن عمل کے لیے پاکستان کی کوششوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ دیانتدارانہ بنیادوں پر تعلقات کے نئے باب کے آغاز کی امید کرتے ہیں۔ دونوںممالک کے درمیان تعاون افغانستان میں امن کی بحالی میں مددگار ثابت ہوگا۔ انہوں نے امیدظاہرکی کہ پاکستان کی امن عمل کیلئے کوششیں افغانستان میں پائیدار امن کی راہ ہموار کریں گی۔انہوں نے افغان سرزمین پر دیرپا قیام امن کے لیے پاکستانی کوششوں کو سراہا اور افغان عوام کی امنگوں کے مطابق مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے پرزور دیا،اور یقین دلایا کہ پاکستان کے ساتھ تما م شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا جائے گا۔

پاکستانی قیادت کی جانب سے واضح کیا گیا ہے پاکستان کسی ایک افغان گروپ کی حمایت نہیں کرتا، امن و سلامتی ، تعمیر نو، امن عمل کے علاوہ پاکستان کے افغانستان کے حوالے سے کوئی عزائم نہیں ہیں۔ اس موقع پر افغانستان کے مستقبل، 2014ءمیں امریکی و نیٹو افواج کے انخلاءکے بعد کی ممکنہ صورتحال، پاک افغان سرحدی امور، باہمی تعاون کے فروغ اوردوطرفہ تجارتی معاہدے پر بھی گفتگو کی گئی۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات شروع ہوں اور اگر اس حوالے سے پاکستان سے مدد مانگی گئی تو ہم تیا ر ہیں، امن مذاکرات افغانستان کی زیرقیادت ہونے چاہئیں۔ افغان صدر کا دورہ پاکستان انتہائی اہم ہے ، اس کے علاوہ افغان صدر حامد کرزئی کے دورہ پاکستان کے لیے ایجنڈا بھی تیار کیا جائے گا، ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ طالبان پر پاکستان کاکوئی کنٹرول نہیں ہے، ہم افغانستان میں امن واستحکام کے لیے مخلصانہ کوششیں کررہے ہیں اورافغان حکومت کی درخواست پر 26 طالبان قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے، آئندہ بھی پاکستان کی طرف سے کوئی مدد درکارہوئی تو فراہم کی جائے گی۔ ہم دوستی کی پالیسی آگے بڑھائیں گے، افغانستان میں امن عمل سے متعلق افغان حکومت اپنے عوام کی خواہشات کے مطابق جوپالیسی اختیارکرے گا، پاکستان اسی کے مطابق اپنا کردارادا کرے گا ،ہم پرامن اور مستحکم افغانستان چاہتے ہیں ، مستقبل میں بھی ہمارا فوکس امن واستحکام کی بنیاد پر رہے گا،پاکستان سے افغانستان سے تجارت کوبھی فروغ دینا چاہتا ہے۔ باہمی تجارت میں اضافے سے نہ صرف دونوں ملکوں کی معیشت مضبوط ہو گی بلکہ دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کا خاتمہ اور عوام خوشحال ہوں گے ، پاکستان کی جانب سے افغان حکومت کو تعمیر نو کے عمل میں بھرپور حمایت کی بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے اور وزیراعظم نوازشریف نے اس امید کا اظہارکیا کہ افغان حکومت خطے میں امن و استحکام اور دوطرفہ تعلقات میں اضافے کے لیے مثبت کردارادا کرے گی اور الزام تراشی کا سلسلہ بند کیا جائے گا ، بلیم گیم کسی کے مفاد میں نہیں۔سرتاج عزیز نے افغانستان کے ”بریک اپ“ یا طالبان سے پاور شیئرنگ کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے کسی منصوبہ سے انکار کیا۔ انہوں نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قطر کے مذاکرات میں بگاڑ پیدا ہونے کے حوالے سے اس امر کا اظہار کیا کہ پاکستان انہیں دوبارہ شروع کرانے کے لیے ڈپلومیسی کا دوبارہ آغاز کرنا چاہتا ہے۔

دوسری جانب افغان سینیٹروں نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن کی بحالی میں مخلص نہیں۔ سرتاج عزیز کے حالیہ دورہ افغانستان سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں، ایسے دورے کئی بار ہوچکے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ صدر کرزئی نے بھی پاکستان کے 19 دورے کیے جوبے سود رہے۔ افغان سینٹ کے اجلاس میں خارجہ امور اور قومی سلامتی کے بارے میں وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز کے دورہ افغانستان پربحث کرتے ہوئے سینیٹر ہدایت اللہ ریہائی نے کہا کہ اگرچہ سرتاج عزیز کا دورہ پائیدارامن کے لیے اچھا شگون ہے تاہم انہوں نے کہا کہ وہ امن عمل کی کامیابی میں شکوک وشبہات رکھتے ہیں کیونکہ پاکستان نے افغان امن عمل کے حوالے سے اپنے کسی وعدے کوپورا نہیں کیا۔ صدر حامد کرزئی نے پاکستان کے 19دورے کیے تاکہ پڑوسی ملک کے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے حمایت حاصل کریں مگر ان کے یہ دورے بے سود رہے۔ سینیٹر عبدالوہاب عرفانی نے کہا کہ پاکستانی وزیراعظم کے مشیر کا امن کا سفر افغانستان میں امن کی بحالی کے سلسلے میں ایک قدم ہوسکتا ہے لیکن وہ اس کو کوئی بڑی کامیابی نہیں کہہ سکتے، امن عمل کی کامیابی دونوںممالک کے درمیان حقیقی اورمخلصانہ تعاون کا تقاضا کرتی ہے۔جبکہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے انکشاف کیا ہے کہ تحریک طالبان سے مذاکرات پر پاک فوج کو تحفظات ہیں، امریکا افغانستان میں دوبارہ خانہ جنگی کروانے کی سازش کر رہا ہے، طالبان نے شمالی اتحاد سے بھی تعلقات بہتر کر لیے تو قابض فوج کے نکلتے ہی پورے افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیں گے۔ پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات پر پاک فوج کو تحفظات ہیں کیونکہ فوج نے بڑی قربانیاں دی ہیں ہزاروں جوان اور آفیسرز شہید ہو چکے ہیں، باوجود اس کے حکومت، اپوزیشن اور دینی جماعتیں سب ہی مذاکرات چاہتی ہیں لیکن اس کے لیے فوج کو رضا مند کرنا ہو گا کہ اس مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701402 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.