شامی بحران اور امریکی منافقت

مشرق وسطی میں جاری عرب بہار کی گنگا میں امریکہ نے ہاتھ دھونے کا پروگرام بنایا اور لگے ہاتھوں اسرائیل کے دیرینہ مخالف حریف شام سے دو دو ہاتھ کرنے کی ٹھانی۔ اس کام کے لیے اپنی یا اسرائیل کی فوجیں میدان میں اتارنے کے بجائے افغانستان سے حاصل ہونے والے تجربے کی روشنی میں دنیا بھر سے شدت پسندوں کو اکٹھا کرکے اردن اور ترکی کے راستے شام میں داخل کیا گیا لیکن یہ منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا کیونکہ باغیوں کی گوریلا کاروائیوں کا جواب دینے کے لیے لبنان کی حزب اللہ موجود تھی جسے گوریلا جنگوں کا وسیع تجربہ ہے۔ حزب اللہ کے میدان میں آنے کی وجہ سے باغیوں کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ پسپائی کے دوران باغی جنگجو معروف محاورے کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے کہ تحت بعض ایسے اقدامات اٹھا بیٹھے جس کی وجہ سے شامی عوام میں مقبولیت کھو بیٹھے۔

موجودہ صورتحال کو بھانپ کر گذشتہ کچھ عرصے سے پہلے مغربی ممالک نے قدم پیچھے ہٹائے اور شامی باغیوں کو یورپ تک کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیا اور پھر امریکہ نے بھی اپنی حمایت میں کچھ کمی کردی جس کے نتیجہ میں باغیوں اور مغربی ممالک کے درمیان بڑی دلچسپ صورتحال دیکھنے میں آئی کہ ایک طرف باغی اسلحہ اور دیگر سامان مانگ رہے تھے اور دوسری طرف مغربی ممالک اس کام کے لیے تیار نہیں ہورہے تھے۔

چند دن سے شامی فوج کی پیش روی مسلسل جاری ہے جس کا ثبوت باغیوں کی طرف سے اختیار کیا جانے والا پلان ٹو ہے جو افغانستان اور عراق میں آزمایا جاچکا ہے یعنی کاربم دھماکے، خودکش حملے وغیرہ ۔ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ نے شامی باغیوں کی شکست کو محسوس کرکے خود میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے چنانچہ مرییا چئرومن جوائنٹ چفسا آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈمپسی نے امریی سٹ ہ کی آرمڈ سروسز کمیھ کے اراکنٹ کے سوالات کے جواب مںر لکھے گئے خط مںا شام مںا مداخلت کے حوالے سے پانچ عسکری طریقہ کار پیش کیے ہیں جن میں وسیع پیمانے پر شامی باغیوں کی تربیت اور مدد،شام میں باغیوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنے کے لیے غیرجانبدار محفوظ مقامات کا قیام، باغیوں کو شامی فوج کے حملوں سے بچانے کے لیے نوفلائی زون کا قیام ، فوج کو مصروف کرنےکے لیے محدود پیمانے پر فوجی مراکز پر حملے اور کیمیائی ہتھیاروں کے بہانے شام پر قبضہ شامل ہے۔

اس منصوبے کو جامہ عمل پہنانے کے لیے پہلے مرحلے پر پچاس کروڑ ڈالر اور اس کے بعد ہر ماہ ایک ارب ڈالر لاگت آئے گی! سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ امریکہ جو ایک طرف دہشت گردوں کو مارنے کے لیے روزانہ لاکھوں ڈالر خرچ کررہا اور اپنے ڈرونز کے ذریعہ یا دیگر طریقوں سے پانی کی طرح پیسہ نہیں بلکہ ڈالر بہارہا ہے وہی امریکہ دوسری طرف انہی عناصر کی تربیت کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کرنے کے لیے کیوں تیار ہوگیا ہے؟ جہادی عناصر جب تک امریکہ کے مخالف ہوتے ہیں اس وقت تک قابل گردن زدنی ہوتے ہیں لیکن جب وہ کسی ایسی حکومت کے خلاف جنگ کرتے ہیں جو امریکہ کی دشمن ہوتی ہے تو امریکہ ان کو تربیت اور امداد دینے کے علاوہ ان کے لیے محفوظ پناگاہیں بناتا ہے، نوفلائی زون قائم کرتا ہے اور ان کے دشمن کو الجھانے کے لیے محدود حملے کرنے لیے تیار ہوجاتا ہے!

امریکہ کی یہ منافقانہ پالیسی شاید امت مسلمہ کی آنکھیں کھولنےکے لیے کافی ہوگی اور ہمارے ان مفتیان دین کو بھی بیدار کرنے کا سبب بنے گی جو ہر اس جھنڈے کے نیچے جمع ہو ہوجاتے ہیں جو اسلام کے نام پر بلند کیا جاتا ہے اور یہ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ پرچم اٹھانے والا کون ہے؟
 
Dr Azim Haroon
About the Author: Dr Azim Haroon Read More Articles by Dr Azim Haroon: 10 Articles with 7868 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.