کیا بھاجپا کے مسلم چہروں کو مذہب تبدیل کرنا ہوگا؟

جنگ کے دوران مذہب میں متبادل کی تلاش ہونے لگی/
شاعر اور سیاستداں/خدا کو فیشنبل رومالوں کی طرح گلے میں باندھنے لگے/
—(کفکا سے مکالمہ، گستا وجینک)

ابھی اس مکالمہ کی چنداں ضرورت نہیں کہ جنگ، بربریت اور خوف کے سایہ میں اپنی زندگی کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا مذہب تک کی قربانی دینی پڑتی ہے— تاریخ گواہ ہے کہ خوف و دہشت نے انسانی زندگی کی حفاظت کے لیے یہ قدم بھی اٹھائے اور زیادہ دن نہیں گزرے، تقسیم کے المیہ سے گزرتی کہانیوں میں بھی ایسے دل شکن واقعات آسانی سے مل جاتے ہیں۔ اس حقیقت سے پردہ پوشی کی ضرورت نہیں کہ مودی کی آمد کے بعد کٹر پنتھی ہندوؤں میں شدت سے یہ احساس جاگ گیا ہے کہ مودی ہندستان میں ہندوؤں کی اپنی حکومت کا راستہ صاف کرسکتے ہیں۔ مودی کی آمد کے بعد سنگین ہوتی صورتحال کا جائزہ لیں تو احساس ہوتا ہے، وہ کٹر پنتھی ہندو جاگ گیا ہے جس کے سامنے ایوان سیاست میں مودی کا ابھرنا کسی طلسم سے زیادہ کسی بھگوان کے اوتار لینے جیسا ہے۔ ۱۹۹۲ اور ۲۰۰۲ تک ہندستانی سماج اس مقام تک نہیں پہنچا تھا، جہاں وہ مودی کی آمد کے بعد پہنچتا نظر آرہا ہے۔ اس کا جائزہ یوں لیا جاسکتا ہے کہ اڈوانی کی رتھ یاتراؤں کے بعد ہندستان میں نفرت کے تخم تو بوئے گئے لیکن پھر بھی خطرہ بہت زیادہ نہیں تھا۔ بابری مسجد شہید ہوگئی تو ایک طبقہ خوش ہوگیا کہ چلو، ہماری جیت ہوگئی— اور وہ بس اتنے میں خوش ہوکر بیٹھ گیا— ۱۹۹۲ء کے بعد کم وبیش ۲۰۰۰ تک صورتحال نارمل رہی۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان سے عراق اور افغانستان تک یہ مسلمان ہی تھا، جسے دہشت گرد کے طورپر نئی شناخت مل چکی تھی۔اور ہندستانی حکومتیں بھی مسلمانوں کی شناخت اسی دہشت پسند چہرے سے کررہی تھیں۔ مدرسوں کو دہشت کی فیکٹری اور معصوم مسلمان بچوں کو شک کی نگاہوں سے دیکھا گیا۔ یہ کارنامہ بھاجپا نے بھی انجام دیا۔ اور کانگریس نے بھی۔ ۲۰۰۳ کے گجرات فسادات کے بعد مودی ہندوؤں کے نئے رہنما بن کر ابھرے۔ اور تو گڑیا جیسے بڑبڑانے والے ہندو نیتاؤں سے الگ مودی کے وزن کو کٹر پنتھی ہندوؤں کے درمیان اس لیے بھی تسلیم کیا گیا کہ مودی بولتے نہیں، کرکے دکھاتے ہیں۔

گجرات فساد کے بعد مودی کی جان آفت میں تھی۔ ایک طرف قانون کا شکنجہ ، عشرت جہاں کا فرضی معاملہ، گجرات بیکری حادثہ، اور اس کے طرح کے کئی معاملات میں جب بھی حکومت کی طرف سے مودی کی طرف شکنجہ کستا، وہ آر ایس ایس اور کٹر پنتھی جماعتوں کے درمیان پہلے سے کہیں زیادہ مقبول جاتے۔ رہی سہی کسر کانگریس کی بیان بازیوں نے پوری کی۔ اور ان بیان بازیوں سے عام ہندوؤں تک جو پیغام گیا، اس میں مودی کا چہرہ ایک ایسے سخت گیر ہندو کا چہرہ تھا جو جادو کی چھڑی گھماتے ہوئے کچھ بھی کر سکتا تھا۔ اڈوانی جیسے ہندو لیڈران نے وقت وقت پر سیکولرزم کا لبادہ بھی پہنا اور یہی بات آر ایس ایس اور کٹرپنتھی ہندوؤں کو قبول نہیں ہوئی۔ اڈوانی کے جناح والے بیان کے بعد ان کی بھاجپا میں اتنی مذمت ہوئی کہ اڈوانی جیسے سرگرم لیڈر حاشیے پر ڈال دیئے گئے۔ لیکن مودی ہندوؤں پر حکومت کرنے کی یہ کلید جانتے تھے کہ ہندوؤں کا بھروسہ جیتنا ہے تو مسلمانوں کو برا بھلا کہہ کر انہیں حاشیے پر ہی رکھنا ہوگا۔ اور یہ سیاسی پینترا کام کرگیا۔ مودی نے نہ کبھی مسلمانوں کے ہاتھ سے ٹوپی قبول کیا نہ کبھی ایک لفظ ان کی حمایت میں کہا۔ اور اس لیے جب سیاسی حکمت عملی اپناتے ہوئے ایک وقت میں مودی کو ناپسند کرنے والے راج ناتھ نے جب ان کے نام کا اعلان کیا تو کٹر پنتھی ہندو’ مسلمان مکت ہندستان‘ کے خواب کو قریب سے دیکھتے نظر آئے۔ کیونکہ ۶۷ برسوں کی سیاست میں یہ پہلا سیاسی ہندو لیڈر تھا جس کی زبان پر کبھی بھی مسلمانوں کے لیے ہمدردی یا محبت کا لفظ نہیں آیا۔ بھاجپا اس حقیقت کو تسلیم کررہی ہے کہ مودی جس قدر مسلمانوں کے خلاف جائیں گے، اکثریتی طبقے کا ووٹ ایک جٹ ہونے میں مدد ملے گی۔ یعنی بھاجپا صاف طور پر عام ہندو سماج سے یہ مکالمہ کررہی ہے کہ اگر ہندستانی مسلمانوں کا ووٹ ایک جٹ ہوسکتا ہے تو بھاجپا کے لیے عام ہندو متحد کیوں نہیں ہوسکتا—؟ قاعدے سے اگر اس وقت کی مجموعی فضا کا جائزہ لیجئے تو ۱۹۹۲ سے آج کی سیاسی فضا پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک، زہریلی اور مسلم مخالف ہوچکی ہے۔ راج ناتھ اور مودی کو آرا یس ایس اور دیگر ہندو سنگٹھن کا ساتھ مل چکا ہے۔ اور ایسے وقت میں مودی کا خود کو ہندو راشٹروادی کہنا بھی ان کی حکمت عملی کا ہی ایک حصہ ہے کہ مسلم راشٹروادی نہیں ہوتے۔ راشٹروادی صرف ہندو ہوتا ہے۔ اور اسی جواب کو آگے بڑھاتے ہوئے بال ٹھاکرے کے بیٹے ادھوٹھاکرے نے پریس سے کہا کہ کیا مودی خودکو مسلم راشٹروادی کہیں گے؟ راشٹر وادی تو ہندو ہی ہوتا ہے۔

مودی کی سیاسی حکمت عملی پر غور کریں تو وہ یکے بعد دیگرے بہت سوچ سمجھ کر مسلمانوں کے خلاف کمان سے نکال کر ایک ایک تیر کا استعمال کررہے ہیں۔ اور دلچسپ یہ کہ ہر تیر نہ صرف نشانے پر لگ رہا ہے بلکہ ہندوؤں میں مودی کا نام ایسے بھگوان کانام ہوگیا ہے، وہ جس کی برائی سن ہی نہیں سکتے— وقت کے صحیح استعمال کا ہنر مودی کو آتا ہے اور مودی نے وہ کرشن بان، بھی چھوڑ دیا، جس کے لیے عام کٹر پنتھی ہندو ان سے امید کررہا تھا۔ یعنی ایک انٹرویو میں علامتی طور پر گجرات حادثہ کا خود کو ہیرو ٹھہرانے، راشٹروادی بننے اور مظلوم مسلمانوں کو کتے کا بچہ کہنے کی گونج اس قدر شدید ہے کہ شاید آپ اندازہ نہ کرسکیں۔ میں اس کی ایک چھوٹی سی مثال فیس بک کے ذریعہ دینا پسند کروں گا جہاں عام ہندو نوجوانوں کی اکثریت مودی کو ہندوؤں کا اکیلا لیڈر تصور کرتی ہوئی اشتعال انگیز مکالموں پر اتر آئی ہے۔ یہاں تک کہ میں نے ایسے بھی مکالمے پڑھے جہاں ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی نشانے پر لیاگیا تھا۔

اس حقیقت سے چشم پوشی خطرناک ہوسکتی ہے کہ اب جوہندو لہر سامنے آرہی ہے وہ ۱۹۸۸ کے بعد کے ماحول سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ بھاجپا کے دلی پردیش اکائی کے نائب صدر عامر رضا کو پارٹی سے نکالا جانا بھی اس یقین کو پختہ کرتا ہے کہ مودی کی بھاجپا کو نہ سیکولرزم قبول ہے اور نہ مسلمان— دراصل مسلمانوں کی مخالفت ہی وہ واحد ہتھیار ہے جس کے سہارے بھاجپا ہندو اکثریتی ووٹ پر ڈورے ڈال رہا ہے۔ تو کیا آنے والے وقت میں مختار عباس نقوی اور سید شاہنواز حسین جیسے چہروں کو بھی پارٹی سے باہر کا راستہ دکھا دیا جائے گا؟ اسے مودی کی اگلی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ جیسے جیسے انتخاب نزدیک آئیں گے، بھاجپا صرف ہندوؤں کے سہارے کھڑی ہوگی۔ اس لیے مودی اپنے مسلم مخالف چہرے کو اور خطرناک بلکہ خوفناک طریقے سے پیش کریں گے۔ یعنی ایک ایسا چہرہ جو ہندو راشٹریہ کے خواب کو تعبیر میں تبدیل کرسکتا ہے۔ اور ایسے وقت میں ممکن ہے مودی یہ اعلان بھی کریں کہ انہیں مسلم ووٹ کی قطعی ضرورت نہیں۔ ان کے لیے بھارت کے ہندو کافی ہیں۔ یہ صورتحال بھاجپا کے مسلم چہروں کے لیے پریشانی کا باعث تو ہوسکتا ہے لیکن یہ نہ بھولیے کہ بھاجپا کے مسلم چہرے اسی ماحول میں آگے بڑھے ہیں جہاں مسلمانوں کو کینسر، دیش دروہ، غدار تک کہنے والوں کی کمی نہیں رہی ہے۔ اور ان مسلم چہروں نے ان الزامات کو پھولوں کی طرح قبول کیا ہے۔ بھاجپا کے مسلم چہروں کے سامنے ایک ہی متبادل ہوگا کہ اگر بھاجپا میں رہنا ہے تو مذہب تبدیل کرکے آجائیں۔ تبھی ان کا استقبال ممکن ہے۔ آر ایس ایس شروع سے ایک ہی نعرے کو فروغ دیتی آئی ہے۔ ہندستان میں رہنا ہے تو ہندو بن کر رہنا ہوگا۔ اس طرح مودی اسی حکمت عملی سے آرایس ایس کے خیالات کو نہ صرف تقویت دیں گے بلکہ مضبوط بھی کریں گے۔

رام مندر مہم کو لے کر آنے والے وقت میں مودی ہندستان کا دورہ کرنے والے ہیں۔ اکثریتی ووٹ پر مزید قبضے کے لیے ابھی مسلمانوں کو ہلال کرنا باقی ہے۔ چوتھی دنیا (ہفتہ وار) کی اطلاع کے مطابق مودی ہندستان میں دوبارہ فسادات کرانا چاہتے ہیں۔ اور یہ واحد طریقہ ہوگا جب وہ مکمل طور پر ہندو اور مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کردیں گے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ آئندہ انتخابات میں کیا ہوگا۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مودی نے بہت حد تک عام ہندوؤں تک یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ مسلم مکت ہندو سماج کا قیام کیوں نہیں ممکن ہے؟۔ بدلی بدلی فضا میں اگر عام ہندو اس سطح پر سوچنے لگا ہے تو مسلمانوں کے لیے مشکلیں اور بڑھ جائیں گی۔

Musharaf Alam Zauqi
About the Author: Musharaf Alam Zauqi Read More Articles by Musharaf Alam Zauqi: 20 Articles with 22525 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.