کالی بھیڑوں کی مفاہمت

صبر و تحمل اور برادشت کا ماحول پیدا کرنے کی اجتماعی ذمے داری ان جماعتوں پر عائد ہوتی ہے جنھیں اپنی تربیت اور فکر وفلسفے پر کامل یقین ہو ۔ جبر اور تشدد جن کا آئین نہ ہو ، میانہ روی اور انسانیت کااحترام مقدس ہو ۔ لیکن جب چند مفاد پرست عناصر لاقانونیت کے پیروکار بن کر سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو روح کانپ جاتی ہے ۔ جلادوں کو اس کی خدا ترسی نہ ہونے پر سخت الفاظوں میں یاد کیا جاتا ہے لیکن ان سفاک لوگوں کیلئے کیا نام منتخب کریں جن کے دلوں میں رحم و ترس اور انسانیت نام کی معمولی بھی رمق نہیں ہے ۔ جہاں استبدادی قوتیں اپنے ظلم ،کفر و فجور سے انسانیت کا نام شرما رہی ہوتی ہیں تو دوسری جانب بے بس عوام کا عزم و صبر ایک نئی سی نئی تاریخ رقم کر رہا ہوتا ہے جیسے الفاظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔انسانیت کے قاتلوں کو اس بات سے سروکار نہیں ہے کہ ان کی لالچ کے عوض کس کا خاندان کمپریسی اور لاچاری کی تصویر بن کر عبرت بن جائے گا بلکہ چند مفادات کے خاطر اپنی لاقانو نیت کو عروج پر پہنچانے کیلئے ہر وہ اقدام کرے گا جس کا انسانیت سے کوئی واسطہ نہ ہو۔ ۔ لاقانونیت کس لیڈر کا فلسفہ ہے یہ کسی فلسفے کی پیداوار نہیں بلکہ جرم کا ایسا درخت ہے جو خود اپنی قوم کی جڑوں کو نادانستگی میں کاٹ رہے ہیں ۔بازاروں ، محلوں ہوٹلوں ، گاڑیوں ، بسوں اور موٹر سائیکلوں پر فائرنگ اور انھیں بے گناہ معصوم انسانوں کو موت دینا کسی جماعت کا فلسفہ ہو سکتا ہے ۔ یقینی طور پر ایسے احکامات دینا والا انسان کہلانے کے قابل بھی نہیں اور ایسی ظلم کی تاریخ رقم کرنے والا اپنے انجام سے اگر بے خبر ہے تو ایسے شداد ، فرعون ، ہٹلر جیسے حکمرانوں کا حشر یاد کر لینا چاہیے جن کے صرف ظلم اور فسطائیت کے کارنامے ہی باعث عبرت کا نشان بن گئے ہیں۔یہ کون ہیں جنھوں نے انسان کے لبادے میں اپنا اندر کا بھیڑیا چھپا لیا ہے ہمیں وہ نظر آتے ہوئے بھی نظر کیوں نہیں آتے کہ ہم درگذر سے کام لیتے ہیں۔ جدوجہد قربانیوں سے ہی پروان چڑھتی ہیں لیکن ایک تحریک کیلئے جان دینا ہوتا اور ایک ان دیکھی گولی کا نشانہ بن جانا۔ ملک میں رہنے والے تمام مختلف النسل قومتیں اپنے اندر اتحاد اور اتفاق کے جذبے کو پروان چڑھاتی ہیں اور اس پر کامل یقین رکھتی ہیں لیکن عصبیت اور لسانیت کی رنگدار عینک پہنا کر فریب نظر دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔کسی ایک انسان کی جان ناحق لینا گویا پوری انسانیت کی جان لینے کے برابر قرار دئیے جانے کا حکم الہی ہم سب کے سامنے ہے ۔ہمیں ان طاقتوں کے سامنے صف آرا ہونا ہے جو عوام کے حقوق غضب کر رہے ہیں ۔ ایسی قوتوں کے خلاف اپنی توانائی صرف کرنی ہے جو محکوم طبقے پر مسلط ہیں۔ حق پرستی کے سمندر میں اس عوام کو اپنی لہریں بنانا ہونگی جو سمندر میں گم ہونے کے بجائے کنارے پہنچ جاتی ہے۔ طاقت کا اصل محور اپنے جذبات اور قوت کا درست استعمال ہے ۔مملکت اس وقت ہولناک گروپوں کے نرغے میں ہے ، خاص طور پر بھتے سازی کی صنعت نے اس قدر ترقی کر لی ہے کہ اس کے حصول کیلئے جدید ترین طریقے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ٹارگٹ کلنگ کی وبا کسی کے کنڑول میں نہیں آرہی ، کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جب کسی نہ کسی جماعت کا ذمے دار یا کارکن ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ نہ بنتا ہو۔ہلکے پھلکے ہتھیاروں کے ساتھ اب دستی بموں کے استعمال نے ایک نیا خوف سب پر مسلط کردیا ہے ۔ ہر جگہ مختلف گینگ وار مصروف ہیں ، جس میں اجرتی قاتل ، بھتہ گروپ ، لینڈ مافیا ،ڈرگ مافیا اور وائٹ گولڈ واٹر مافیا سہرفرست ہیں۔پہلے چھوٹی چھوٹی دوکانوں سے بھتہ وصول کیا جاتا تو اب بڑے کاروبار ، تو اب کاروباری ادارے ان کی دست برد سے محفوظ نہیں ہیں۔بلدیہ ٹاٗون میں لگنے والی آگ کو بھی بھتہ خوری کے پس منظر میں دیکھا گیا۔ لیکن ان تمام حالات وواقعات کا سدباب کیسے ممکن ہوگا ؟ شیر شاہ جیسے سانحے میں جس طرح حکومتی کردار رہا اس نے توعوام میں اعتماد کی دھجیاں اڑا دیں ہیں ۔ عدالتوں کا نظام شواہد اور گوائیوں پر چلتا ہے وہ اس قدر اندھا ہوتا ہے کہ اپنے سامنے ہونے والے کسی جرم کے خلاف بھی شواہد کا تقاضٓا کیا جاتا ہے ۔ قانون کے رکھوالے جس شعبے میں بھی ہوں۔ اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے باعث شرمندگی بنے ہوئے ہیں۔ یا پھر ان کے نزدیک پاکستان کا انسانیت کا معیار یہ ہے کہ یہاں تو انسانی جان کی کوئی اہمیت تو ہے نہیں ، ہزاروں لوگ بے گناہ بھوکے پیاسے مارے جا رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ، ٹارگٹ کلنگ میں کون کیوں مار دیا جاتا اس کا کوئی معیار نہیں ہے ۔ رشوت خوری کی وجہ سے ملک کی جڑیں کمزور ہو رہی ہیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہی پاکستانی معیار ہے ، رشتہ جان کا ہو کہ انسان کامعیار دولت کی طبقاتی تفریق کا ہے جس میں انسانیت کی قیمت کم اور حیوانیت کی قدر زیادہ ہے ۔ جنگل میں تو پھر ہر عمل قانون فطرت کے مطابق ہوتا ہے ، شیر ، گوشت کھاتا ہے گھاس نہیں ، بکری گھاس کھاتی ہے گوشت نہیں ، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بکری نے شیر سے مفاہمت کی ہو کہ میں تو گوشت نہیں کھاتی اور آپ گھاس نہیں کھاتے ، پھر جھگڑا کس بات پر ہے تو شیر کہتا ہے کہ تم گھاس کھاتی ہو ، گوشت نہیں لیکن تجھ میں میرا رزق میرے خدا نے رکھا ہے یہ میری جبلت ہے ۔ لیکن انسان کی فطرت کیا ہے کہ وہ خود اشرف المخلوقات کہنے کیلئے انسانیت سے گر جاتا ہے ، سب خاموش ہیں کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور کیوں اور کب تک ہوتا رہے گا۔ ہر جرم کے عقب میں کسی نہ کسی با اثر کا ہاتھ ملتا ہے، لیکن ان چھپے چہروں کو بے نقاب کرنے والا کوئی نہیں ۔ کیونکہ حمام میں سب ننگے ہیں ۔ اب بھی ہمارے معاشرے میں باضمیر انسانوں کی کمی ہے ۔ نے گناہ انسانوں کی جانوں پر آج تک کسی نے ذمے داری کا احساس نہیں کیا ، سینکڑوں بے گناہ ہلاک ہوئے لیکن ایک اہلکار بھی ٹھس سے مَس نہیں ہوا۔پاکستان کی تاریخ میں انسانی جانوں سے کھیلنے کی سب سے ہولناک سازش کا پردہ چاک ہوا لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی سیکورٹی ادارے ،کیا کر رہا تھے ،اور اب کیا کررہا ہے ، کون احتساب کرے گا۔اسی لئے تو آج تک ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری ،اغوا برائے تاوان پر قابو نہیں پایا جاسکا اور لگتا یہی ہے کہ گینگ وار اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں مفاہمت ہوچکی ہے۔ لہذا عوام برداشت کرے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 743896 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.