اگر ہم صلطان صلاح الدین ایوبی
کی دور کو موجودہ دور ساے موازنہ کریں تو سبھی اہلِ ادب ہنس پڑیں گے۔ کمال
الدین اتاترک، محمد بن قاسم، دارا و سکندر، ابراہم لنکن، عبدالرحمٰن اول،
دوئم ، سوئم، قائد اعظم، ذولفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف
جیسے قائدانہ صلاحیتوں کے مالک لوگوں کے دور سے بھی ہم موجودہ دور کو
موازنہ نہیں کر سکتے۔ ایک دور تھا ملک کے سبھی ادارے کرپشن سے پاک تھے۔پھر
ابتدائی دور جب گزرا تو بانی ء پاکستان کے قائم کردہ سلطنت میں لا قانونیت
اور بدعنوانی جیسے مہلک بیماریاں پلنے لگی۔ آ ئے روز وزیر اعظم بدلتے گئے
مارشل لاء لگتے گئے۔ مگر پھر بھی عوام کو آخری مارشل لاء کے ختم ہونے تک
ملک کی سا لمیت میں کچھ نہ کچھ امید باقی تھی۔ سیاسی کھیل میں عوام ہمیشہ
پِسیتے ہیں۔ اور اب پیسناکسے کہتے ہیں یہ تو سبھی لوگ پی پی پی کے پانچ
سالہ جمہوری دور میں دیکھ اور سمجھ چکے ہیں۔ ان پانچ سالوں کی مختصر ترین
جائزوں میں ملک کی شرحِ سود جو بہت کم ہوا تھا ، اس حد تک بڑھ گیا کہ اب اس
قرض سے با ہر نکلنا ن لیگ کی حکومت کیلئے تقریباً ہمالیہ کے چوٹی سر کرنے
کے برابر لگنے لگے ہیں۔ متعدد اداروں کی نجکاری کرنے کے خبروں نے پاکستان
کی تاریخ کو مزید سیاہ کیا تھا اسکی بچی کچی کسر اب نواز شریف کی حکومت
پورا کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ پی پی پی حکومت ملک سے تقریباً تمام
ترقیاتی منصوبوں کے پیسے ہڑپ کر کے سوئس اکانٹس میں منتقل کرنے میں کامیاب
ہوئے۔ انتخابی جلسوں میں اپنی منشور میں شامل یہ اہم نکتہ اب نہ نواز شریف
کی زبان سے ادا ہو رہی ہے نہ کی عمران خان کے۔ کہ ہم حکومت میں آتے ہی
لٹیروں سے تمام لٹی ہوئی تمام دولت واپس لائیں گے۔ڈیمز کی تعمیر و ترقی اور
محکمہ برقیات کی تباہی میں جو کردار پی پی پی حکو مت نے ادا کی اس کی نظیر
شائد پاکستان کی تاریخ میں نہ ملے۔ ن لیگ کی سر فہرست انتخابی منشور ،
توانائی کے بحران کو پورا کرنے کی تھی۔ نواز شریف کی حالی دور ہِ چین سے
شائدمثبت پیش رفت ہو لیکن چین جانے والے وفد میں گلگت بلتستان کا کوئی
نمائندہ شامل تھا ہی نہیں۔ حالانکہ ملک میں سب سے زیادہ بجلی وہاں سے حاصل
کی جا سکتی ہے۔ اور تو اور انکے انتخابی منشور میں کوئی خاطر خواہ اصلاحات
کی بات موجود نہیں تھیں۔ قیامِ ِ پاکستان سے لیکر اب تک صرف دو بار گلگت
بلتستان پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کے زیر ِ نظر رہ چکی ہے۔ پہلی بار جب
ذولفقار علی بھٹو دورہ گلگت بلتستان کے لئے گئے اور شاہراہِ قراقرم ، گندم
کی ترسیل اور دیگر بنیادی اصلاحات کر کے ہمدردی کا منہ بولتا ثبوت پیش کیا
تھا۔ دوسری بار گلگت بلتستان کے عوام پر جنرل پرویز مشرف کا نظر پڑی۔ انہوں
نے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی قائم کر کے اک نئی تاریخ رقم کر دی۔ ترقیاتی
کاموں میں انقلاب لا یا تھا۔ ان کے دور حکومت کے بعد سے لیکر اب تک یہاں کے
عوام پر سیاسی ، ترقیاتی اور دیگرانتظامی امور پر سیاہ بادل چھائے ہوئے
ہیں۔سیاہ بادل کا ذکر اس لئے کرناپڑا کیونکہ وہاں کے عوام انتہائی سا دہ
ہوتے ہیں کہ کسی کے لئے انہیں کسی بھی جھانسے میں دھونسنا کوئی مشکل کام
نہیں۔وہاں کے سیاسی رہنماوٗں میں تعلیمی قابلیت نہ ہونے کے برابر ہے۔لہٰذہ
کاغذی کاروائیاں ، دفاتری کام اور آئینی اصلاحات اور و قانونی پیچدگیوں کو
سمجھنا انکے بس کی بات نہیں ہے۔ پی پی پی حکومت نے صوبائی سیٹ اپ دیکر وہاں
کے سیاست دانوں پر ایک اور احسان کر ڈالا ۔ آخر انکو بھی سیاسی انعام جو
مقصود تھا دے دیا۔ بجٹ انتہائی قلیل اوپر سے وزیروں اور مشیروں کے چائے
پانی کے اخراجات نے گلگت بلتستان کے عوام کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا ہے۔اسکی
زندہ مثال یوں ہے کہ گزشتہ دنوں دس مہنگی ترین اور جدید سہولتوں سے آراستہ
گاڑیوں کا قافلہ GB Houseسے گلگت کیلئے روانہ ہوے ہیں۔ اب یہ تو طے ہے کہ
نواز حکومت اتنا مہربان ہے نہیں کہ وہ اپنی پیٹ کاٹ کر ہم پر رحم کرے۔ ظاہر
ہے کہ ہماری بجٹ سے ہی کاٹے ہونگے۔ اتنی مہنگی گاڑیوں میں شائد سیاسی
نمائندے ہی سفر کریں گے۔ کیونکہ سرکاری آفیسروں اور سرکاری دفاتر کیلئے
اتنی پرکشش قیمت والی گاڑیاں دینے کی مثال ہماری تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔
ان سب باتوں کے اوپر نظر دوڑانے کا مقصد یہ تھا کہ ہماری سیاسی نمائندوں کو
زرا سی احساس ہو جائے کہ ہم کتنے محروم ہیں ۔ انکے علم میں ان باتوں کا
اضافہ کرنا تھا جنکی وہ لوگ اپنے پاس خبر یا علم رکھنا گوارہ نہیں سمجھتے
ہیں۔ نوجوان نسل سو رہی ہے۔ نہ جانے کب یہاں کے نوجوان نسل ان باتوں کا
احساس کر کے جاگ اُٹھے گی۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتا ئے گا۔ ہماری سیاسی
رہنماؤں کی لا پرواہی اور ظلم کی انتہا کو ذرا دیکھیں، شیگر سے تعلق رکھنے
والی ایک بیمار خاتون اور انکی اٹینڈنٹ جنکا پی آئی اے میں 29 جون کواسلام
آباد سے سکردو کیلئے ٹکٹ کنفرم تھا۔ وہ دونوں ابھی تک ایئر پورٹ پر در بدر
ہو رہے ہیں۔ انکا کوئی رشتہ دار بھی موجود نہیں تھیں اسلئیے گزشتہ دس دنوں
سے پیرودھائی کے ایک ہوٹل میں قیام پزیر ہے۔روزانہ ہوٹل سے ائیر پورٹ پر
آنے جانے، کھانے پینے اور ہوٹل کا کرایہ دینے میں اب تک دس دنوں میں سولہ
ہزارروپے سے زائد خرچ ہو چکے ہیں۔ ائیر پورٹ پر ان دونوں کی خستہ حالی دیکھ
کر سبھی مسافر اشک بار ہوئے۔مگر سیاسی کارندوں کی سفارش پر سے جانے والوں
میں بھی رحم کا کوئی مادہ جاگ نہیں اٹھا اور ان دونوں کو پسِ پشت ڈال کر
خود محوِ سفر ہوتے رہے ہیں۔ وہاں پر آجکل ایک خاص غیر قانونی سسٹم متعارف
کروا رکھا ہے۔ وہ یہ ہے کہ کچھ لوگ جنکو پسینجرز ٹکٹ ایجنٹ کا نام دے جانے
جاتے ہیں۔ وہ لوگ مسافروں سے ٹکٹ کنفرم کرنے کیلئے غیرقانونی طریقہ اپنا
رہے ہیں اور ایک ٹکٹ کنفرم کرنے کیلئے ایک ہزار سے دو ہزار تک پیسے بٹورنے
میں سرگرم ِ عمل ہے۔مگر ہمارے حکمران اب تک غافل ہیں یا ہوش و ہوس میں رہ
کر یہ سب تماشے کرو ا رہے ہیں۔ نوجوان نسل سے میری التجا ہے کہ اٹھو اورجاگ
کر ارضِ گلگت بلتستان کو کو بدعنوانی،لا قانونیت، ظلم و بربریت جیسی
برائیوں سے نجات دلانے کیلئے کوششیں تیز کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری
خلاف سازیشیں اور تیز ہوں ۔ دعا یہی ہے کہ جلد ہماری نوجوان جاگے اور ان
چیزوں کو ختم کرنے میں اپنا صلاحیتی کردار ادا کرے۔ ۔ |