بھیگی بلی

بھارت کے سابق ڈپٹی سیکرٹری وزارت داخلہ کا یہ اعتراف کہ’’ ممبئی اور بھارتی پارلیمنٹ پر حملے خود بھارتی حکومت نے کرائے تھے اور الزام پاکستان پر لگادیا تھا ‘‘پاکستان کی وزارت خارجہ اور مسلم لیگ ن کی اس پر خاموشی حیران کن ہے ۔ امریکہ کے دباؤ کی وجہ سے بھارت کے اتنے بڑے اعتراف کے باوجود حکومت کی طرف سے ردعمل کا ابھی تک کوئی اظہار نہیں کیاگیا ۔ وزارت خارجہ کاصرف اتنا بیان آیا ہے کہ ’’وہ اس بارے میں بھارت سے رابطہ کر رہے ہیں اس کی طرف سے جواب آنے پر کسی ردعمل کا اظہار کریں گے ‘‘ جوانتہائی قابل مذمت ہے ۔ اس سے تو یہ ظاہر ہوتاہے کہ پاکستانی حکمران امریکہ کے آگے تو بھیگی بلی بنے ہی ہوئے تھے ، اب وہ بھارت کے بھی نیچے لگ گئے ہیں اس صورتحال میں بھارت کے ساتھ بیک ڈور ڈپلو میسی کے ذریعے تعلقات بحال کرنے کے اعلانات نہ صرف شرمناک ہیں بلکہ قوم کو صدمے سے دوچار کرنے کے مترادف ہیں اس کے ساتھ ساتھ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بدترین مظالم پربھی پاکستانی حکومت خاموش ہے کہ کہیں بھارتی حکومت ناراض نہ ہو جائے ،گذشتہ روز کشمیر میں بھارتی فوج نے جو ظلم کیا ہے اس سے بھارتی فوج کا بھیانک چہرہ ایک بار پھر دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا ہے بھارت کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ طاقت و قوت کے بل بوتے پر کشمیریوں کی جدوجہدا ٓزادی کچلنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا حکمران یاد رکھیں کہ بانی پاکستان محمد علی جناح نے کشمیرکو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور شہ رگ کے بغیر جسم نا مکمل ہوتا ہے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دعوے دار بھارت کی افواج نے گذشتہ روز احتجاج کرنے والے معصوم کشمیریوں پر اندھا دھند فائرنگ کر کے نہتے مسلمانوں کو شہید کر دیااور جمعہ کو پورے کشمیر میں کرفیو لگا تے ہوئے مساجد کو تالے لگا کر جمعۃ المبارک کی نماز پر پابندی عائد کر کے حریت قائدین کوجیلوں میں بند کر دیا تھاجبکہ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کر نے میں بھی مصروف ہے اور پاکستانی حکمران بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کیلئے بیک چینل ڈپلومیسی کی باتیں کر رہے ہیں یہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے بنگلہ دیش کی حکومت کی ناانصافیوں پر بھی ہماری حکومت نہ جانے کیوں خاموش ہے پروفیسر غلام اعظم اور ان کے ساتھیوں کا پاکستان کو دو لخت ہونے سے بچانے کیلئے کوشش کرنا آئینی اور قانونی طور پر درست تھا جو لوگ پاکستان کوتوڑنے کی سازش کررہے تھے آئینی طور پر انہیں مجرم ٹھہرایا جانا اورسزا دی جانی چاہئے تھی اورجو لوگ پاکستان متحد رکھنے کیلئے قربانیاں دے رہے تھے انہیں تو سروں پر بٹھایا اور کندھوں پر اٹھایا جانا چاہئے تھا مگر حکومت پاکستان نے انہیں تنہا اور بے یار و مدد گار چھوڑ دیا ۔ مدعی سست اور گواہ چست والا معاملہ ہوا،ان کا کیس پاکستان کو لڑنا چاہئے تھاجبکہ بھٹو اور مجیب الرحمن کے درمیان ایک معاہدہ طے پاگیا تھا کہ کسی کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ نہیں چلایا جائے گا، جو کچھ ہوا اس کو بھول کر اب دونوں ممالک اپنے عوام کی خدمت کریں گے ،گڑے مردے اکھاڑنے کا کوئی فائدہ نہیں لیکن حسینہ واجد اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے اور آئندہ انتخابات میں نظر آنے والی بدترین شکست سے بچنے کیلئے نام نہاد عدالتی ٹربیونلز کے ذریعے پروفیسر غلام اعظم اور ان کے ساتھیوں کو سزائیں سنا رہی ہے اور بدقسمتی سے بھٹو کے بعد آنے والی حکومتوں نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے 43سال بعد بھی پاکستان کی حمایت کرنے والوں کو بدترین ریاستی جبر کا سامنا ہے اب ہماری حکومت کو بھی بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا چاہیے ہمیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور ہمیں اب کھل کر اپنے مقدمات دنیا کے سامنے رکھنے چاہیے ہر ایشو پر پاکستان کا موقف سامنے آنا چا ہیے ہم نہ تو اب غلامی کی زندگی گذار رہے ہیں اور نہ ہی کسی محکوم قوم کی طرح ہیں اگر اس وقت ضرورت ہے تو صرف اس امر کی کہ ہم اب اپنی غلامانہ ذہنی سوچوں کو تبدیل کرکے آزاد ،خود مختار اور ایک دلیر قوم کی حیثیت سے اپنی ایک الگ پہچان بنائیں۔ ۔
rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 613321 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.