نئے صدر مملکت کا چناؤمنگل کو ہونا ہے۔ مسلم لیگ ن کے
ممنون حسین اور تحریک انصاف کے جسٹس (ر) وجیہ الدین مدمقابل ہیں۔ پہلے اس
مقابلے میں پیپلزپارٹی کے رضاربانی بھی شریک تھے لیکن وہ جمعہ کوناراض بچے
کی مانند ’’میں نہیں کھیلتا‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے میدان چھوڑ کر چلے گئے۔
شکست تو ان کی پیشانی پر جلی حروف سے لکھی ہوئی تھی مگر وہ مقابلے سے فرار
کو شکست کے خوف کی بجائے سپریم کورٹ کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے
پریس کانفرنس کے دوران عدالت عظمیٰ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہاں تک
کہ جج صاحبان پر سازش کرنے جیسا سنگین الزام بھی دھر ڈالا۔
معاملہ کچھ یوں ہے، الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کے لیے 6اگست کی تاریخ
مقرر کی تھی۔ ن لیگ کو اس تاریخ پر اعتراض تھا، اس کا کہنا تھا رمضان کے
آخری عشرے میں ارکان پارلیمان کی اچھی خاصی تعداد عمرہ کی ادائی کے لیے چلی
جاتی ہے جبکہ کئی ارکان اعتکاف بھی بیٹھتے ہیں، اگر 6 اگست کو پولنگ ہوئی
تو ایسے ارکان اپنا ووٹ نہیں ڈال پائیں گے۔ انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو
اس موقف میں خاصا وزن محسوس ہوتا ہے۔ ن لیگ نے انتخاب کی تاریخ میں تبدیلی
کے لیے الیکشن کمیشن کو درخواست دی تو وہ مسترد کردی گئی۔ وہاں سے مایوسی
کے بعد ن لیگ کے راجا ظفرالحق سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ عدالت عظمیٰ نے درخواست
کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن سے پوچھا کہ کیاوہ تمام ارکان کے ووٹوں کی
کاسٹنگ کو یقینی بنانے کے لیے پولنگ کے تاریخ کو پیچھے لاسکتا ہے؟ الیکشن
کمیشن نے ہاں میں جواب دیا تو عدالت نے پولنگ کی تاریخ بدلنے کے حق میں
فیصلہ سنا دیا، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب 6 اگست کی بجائے
30 جولائی کو کرانے کا شیڈول جاری کردیا۔ پیپلزپارٹی موقع کی تلاش میں تھی،
تاریخ کے ردوبدل کو اپنے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے انتخاب کا بائیکاٹ کردیا۔
پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ انتخاب کی تاریخ پیچھے کرنے کی وجہ سے اس کے پاس
مہم چلانے کا وقت نہیں رہا ہے۔ کتنی بچکانہ سی بات ہے۔ یہ کوئی قومی یا
صوبائی اسمبلی کے کسی حلقے کا انتخاب تو ہے نہیں جس کے لیے امیدوار کو
گھرگھر جانا پڑتا ہے۔ جلسے جلوس کرنے پڑتے ہیں۔ محلوں، شہروں اور برادریوں
کی سطح پر جوڑتوڑ کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح کی انتخابی مہم کے لیے امیدوار کو
مہینہ، ڈیڑھ مہینہ درکار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس صدارتی انتخاب میں ایسا کچھ
نہیں ہے۔ اس میں صرف ارکان پارلیمان ووٹ ڈالتے ہیں، جن کی تعداد ایک ہزار
کے لگ بھگ ہے۔ پھر یہ بھی کہ امیدوار کو ہر ہررکن سے رابطہ کرنے کی ضرورت
نہیں ہوتی، صرف پارٹی سطح پر مذاکرات میں ہی حمایت یا مخالفت کا فیصلہ
ہوجاتا ہے۔ اس کام کے لیے پی پی کے پاس بہت وقت تھا، اس کے کئی دنوں سے
مختلف جماعتوں سے خفیہ اور علانیہ مذاکرات بھی ہورہے تھے۔ اصل معاملہ وقت
کا نہیں ہے۔ بات یہ ہے پیپلزپارٹی کا خیال تھا رضاربانی اپوزیشن کے متفقہ
امیدوار ہوں گے، جس کے بعد وہ ن لیگ سے سودے بازی کی پوزیشن میں آجائے گی
مگر حزب اختلاف کی دیگر جماعتیں پی پی کے جھانسے میں نہیں آئیں، تحریک
انصاف نے تو الگ سے اپنا امیدوار میدان میں اتاردیا جبکہ دیگر اپوزیشن
جماعتیں بھی پی پی کو گرین سگنل نہیں دے رہی تھیں، چنانچہ رضاربانی کسی
اصولی بات پر نہیں بلکہ ووٹوں کی وصولی میں ناکامی پر مقابلے سے دست بردار
ہوئے ہیں۔
رضاربانی نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ سپریم کورٹ نے ان کا موقف سنے بغیر
ہی انتخاب کی تاریخ 7روز پیچھے کردی۔ آپ پڑھ چکے ہیں کہ تاریخ میں ردوبدل
کافیصلہ عدالت نہیں بلکہ الیکشن کمیشن نے کیا ہے۔ عدالت کا ’’قصور‘‘ صرف
اتنا ہے کہ اس نے کمیشن کی رائے پوچھی، کمیشن نے ہاں میں گردن ہلائی اور جج
صاحبان نے تاریخ بدلنے کا حکم دے دیا۔ مخالفین کی جانب سے عدالت عظمیٰ کے
اس فیصلے پر قانونی نہیں بلکہ سیاسی تنقید کی جارہی ہے۔ تاریخ دینا عدالت
نہیں کمیشن کا کام ہے اور کمیشن ہی نے تاریخ بدلی ہے۔ اس میں عدالت پر
الزام کیوں لگایا جارہا ہے؟ دوسری بات، الیکشن کمیشن اس بات کا پابند نہیں
ہے کہ وہ ہر ہر امیدوار کی خواہش کے مطابق الیکشن کی تاریخ کا تعین کرے۔
اگرہر امیدوار کی مرضی کے مطابق پولنگ شیڈول جاری کرنا کوئی قانونی معاملہ
ہے تو پھر صدارتی انتخاب کو تو چھوڑیے ملک میں کونسلری کا انتخاب بھی نہیں
ہوسکے گا۔
پیپلزپارٹی عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے جیسے انتخاب کی تاریخ
بدل کر اس کے ساتھ کوئی ’’ہاتھ‘‘ کردیا گیا ہے۔ رضاربانی نے تو بین السطور
جج صاحبان کو سازش میں ملوث تک قرار دے دیا ہے۔ کیسی سازش؟ پی پی رہنما
کہتے ہیں تاریخ بدل کر ن لیگ کے امیدوار کو ریلیف اور ہمارے امیدوار کا
راستہ روکا گیا ہے۔ آپ بتائیں کیا 7دن انتخاب پہلے ہونے سے ممنون حسین کے
ووٹ زیادہ ہوگئے؟ کیا پہلے لیگی امیدوار ہار رہا تھا اور رضاربانی مقابلے
میں سب سے آگے تھے؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، ممنون پہلے بھی آگے تھے اب بھی
آگے ہیں۔ ہاں عدالتی فیصلے سے تو نہیں البتہ رضاربانی کے بائیکاٹ سے لیگی
امیدوار کو ضرور فائدہ ہوگا۔ ایم کیو ایم جیسی دو چار پارٹیاں جو کوئی واضح
فیصلہ نہیں کرپارہی تھیں ان کے لیے اب آسانی ہوگئی ہے۔
اعتزازاحسن بھی پریس کانفرنس کے دوران بہت بولے، بلکہ بڑھ چڑھ کر بولے ہیں،
ان کی توپوں کا رخ بھی ججوں کی طرف رہا۔ ایک بار پھر انہوں نے راز سے پردے
اٹھانے کی دھمکی دی ہے۔ قوم کو ان صاحب کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لینا
چاہیے۔ یہ اور ان کے کچھ اور ساتھی سمجھتے تھے کہ عدلیہ بحالی کے بعد ان کی
مرضی پر چلے گی مگر ایسا نہ ہونے پر وہ بہت ’’دکھی‘‘ ہیں۔ آپ کو تو معلوم
ہے دکھی آدمی بہت کچھ بول جاتا ہے، اس کی ہر بات پر کان نہیں دھرتے۔ اصل
میں سپریم کورٹ جیالوں کے اعصاب پر سوار ہوچکی ہے، انہیں خواب میں بھی کالے
کوٹ نظر آتے ہیں۔ بے چارے بڑے ارمان لے کر حکومت میں آئے تھے، یہ سمجھتے
تھے کہ قومی خزانہ تو ان کے ناناجی کی دکان ہے، اس پر جیسے چاہیں ہاتھ صاف
کریں، مگر سپریم کورٹ نے ان کے ارمانوں پر اوس ڈال دی۔ یہ جہاں بھی ہاتھ
ڈالتے اوپر سے عدالت کا ہتھوڑا آپڑتا۔ پھر بھی کچھ ماہر لوگ بچ بچاکر فی کس
’’صرف‘‘ 70، 80 ارب روپے کھا ہی گئے۔ عدلیہ نے واقعتا جیالوں پر بڑا
’’ظلم‘‘ کیا ہے۔ دوبارہ حکومت ملنے تک اس پر تنقید جاری رکھنی چاہیے، تاکہ
عدلیہ آیندہ جیالوں کو کھلا کھانے اور ننگا نہانے سے نہ روک سکے۔ کیا عجیب
سیاست ہے!! |