کوئی بدقسمتی سی بد قسمتی اوربد نصیبی سی بدنصیبی ہے ،دودھ
کی رکھوالی پہ بلے براجمان ہو جاتے ہیں ہر دفعہ،باڑھیں کھیتوں کو کھانے
لگتی ہیں،کھائے جا رہی ہیں بلکہ نوچ رہی ہیں،سیر جاتا ہے تو سو اسیر آجاتا
ہے،نیا آنے والا یوں آتا ہے کہ اس کے کرتوت دیکھ کر پہلے والا فرشتہ لگنے
لگتا ہے ،مگر قصور ان کا بھی نہیں ہم خود ان کو اپنے سروں پر مسلط کرتے
ہیں،یہ ہمارا خون چوستے ہیں جونکوں کی طرح ہمیں چمٹے ہوئے ہیں ،نہ ہمارے
بدن سے خون ختم ہوتا ہے نہ ہمیں ان آدم خوروں سے نجات ملتی ہے،یہ ہمارے
ووٹوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں اور پھر ہمارے ہی راستے روٹ لگا کر بند بھی
کر دیتے ہیں ،کل تک ہماری منتیں اور ترلے کر رہے ہو تے ہیں اور پھر ایوانوں
میں پہنچ کر ہم پر نگاہ غلط و حقارت بھی ڈالنا گوارا نہیں کرتے ،منتخب ہوتے
ہیں اور پھر دوبارہ منتخب و انتخاب کی رت آنے تک کہیں نظر نہیں آتے،ا نکی
ترجیھات میں سب کچھ شامل ہوتا ہے سوائے عوام کی فلاح و بہبود و بہتری و
ترقی کے،جی بھر کے ہمارا استحصال کرتے ہیں اور ہم پھر موسم آنے پہ ان کے
آگے ناچنا شروع کر دیتے ہیں ،بھنگڑے اور لڈیاں ڈ الی جاتی ہیں اس دور میں
بھی ہم سبز اورنیلے پیلے باغوں اور وعدوں سے بہل جاتے ہیں یہ باہر آکر
جلسوں میں ایک دوسرے کے خلاف جنگ و جدل کامیدان یوں گرم کرتے ہیں کہ لگتا
ہے کہ پانی پت کی لڑائی اب کی باردوبارہ انہی کے گھر سے شروع ہوگی اور ان
کے مخالفین کوکہیں جائے پناہ نہیں ملے گی،مگر جب اکٹھے ہو تے ہیں تو ایک
دوسرے کی بہو بیٹیوں اور فیمیلیز کے ساتھ فوٹو سیشن کرواتے ہیں دعوتیں
اڑاتے اور مرغوب کھانے کھاتے ہیں،زیادہ دور مت جائیں نناوے کے بارہ اکتوبر
سے شروع کریں جب ایک کمانڈو صاحب نے بھاری مینڈیٹ کو اپنے بھاری بوٹوں تلے
کچل ڈالا تو پخ لگائی کہ عوام کے وسیع تر مفاد میں ہم نے عوام کی منتخب
گورنمنٹ کو گھر بھیج کر عوام کے سر پر مسلط ہونے کا فیصلہ کیا ،سبحان اﷲ
کیسا عوام کا درد ہے کہ ان کی حکومت کو ختم کر دیا ان کے ہی مفاد میں اور
جناب کو یہ اختیار کس نے دیا اس کا جواب نہ تب ان کے پا س تھا نہ اب ہے نہ
آئندہ کبھی ہو گاآتے ہی سات نکاتی ایجنڈا بظاہر گڑ میں لپیٹ کر عوام کے منہ
پہ دے مارا،عوام نے بھی شرلیاں اور پٹاخے چھوڑے مٹھائیاں الگ تقسیم کیں آپ
ہماری ذہنی وسعت کا اندازہ لگائیں کہ ایک ایسے شخص سے امیدیں باندھ لی گئیں
جس کی آمد اور آنے کا طریقہ کار ہی غلط اور غیر آئینی و غیر قانونی تھا اور
اس نے پھر صرف اپنی کرسی بچانے اور اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے ہمیں ایک
ایسی جنگ میں جھونک دیا جس سے اب نہ نکلنے کی کوئی سبیل نظر آ رہی ہے نہ ہی
مزید اسے جاری رکھنے کی سکت ہی ہم میں اب باقی ہے ان صاحب نے ایک نیا طریقہ
یہ نکالا کہ اپنے ملک سے پکڑ پکڑ کر اپنے ہی بندے امریکہ کو ڈالروں کے عوض
بیچنا شروع کر دئیے جس پہ ایک امریکی وکیل کا کہا گیا یہ فقرہ سچ ثابت ہو
گیا کہ یہ ایک ایسی قوم ہے جو ڈالروں کے عوض ماں بھی بیچ دے،سی آئی اے کے
ایجنٹوں کو دھڑا دھڑ ویزے جاری کیئے گئے اسلام آباد میں بلیک واٹر کی
کالونیاں بن گئیں،امریکی گماشتوں نے دن دیہاڑے عین بیچ چوراہوں کے
پاکستانیوں کا شکار کرنا شروع کردیا،اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے کمانڈو
صاحب بہادر نے لال مسجد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی سینکڑوں کی تعداد میں بچے
بچیوں کو تہ تیغ کیا پاکستاں کی بیٹی اٹھا کے افغانستان کے راستے امریکہ
پہنچا نے کے مکروہ کام میں امریکہ کی معاونت کی اور آج شاید مکافات عمل کا
شکار ہے اس کے بعد سب سے بھاری والا ٹولہ آ گیا ہے جن کی ترجیحات اور شوق
نہ کسی سے پہلے ڈھکے چھپے تھے نہ اب ہیں یہ لوگ پاکستان کا مطلب کیا ،جی کج
لبھنا ای جیب وچ پا،، کی عملی تصویر تھے اس کی واضح مثال آ نے وا ے صدارتی
الیکشن ہیں جن کا ان لو گوں نے بائیکاٹ کر رکھا ہے آپ اندازہ لگائیں ان کی
سوچ اور اپروچ کا کہ بے نظیر پاکستان آئیں کراچی میں ان پر حملہ ہوا کسی نے
الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان نہ کیا پھر لیاقت باغ میں حملہ ہو ا اور ایشیا
کی عظیم خاتون دن دیہاڑے قتل کر دی گئی کسی نے الیکشن کے بائیکاٹ کا نام نہ
لیا اور اب بیٹھے بٹھائے فقط بہتر آفر کے لیے الیکشن کا بائیکا ٹ کر دیا ان
کے کارناموں کی شاید پوری تفصیل منظر عام پہ آئی تو اس قوم کو پتہ چلے گے
گا انہوں نے کیسے کیسے گل کھلائے، یوسف رضا گیلانی اینڈ سنز کے سر پہ وزارت
عظمیٰ سجائی گئی تو رحمٰن ملک جیسے نابغوں کو وزارت داخلہ کا قلمدان تھما
دیا گیا گویا بندر کے ہاتھ میں استرا دے دیا گیا،نواب رئیسانی جیسے سائیکو
اور نیم پاگل کو بلوچستان جیسے حساس ترین صوبے کا وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا
جو کبھی کبھی بلو چستان کے دورے پر تشریف لے جاتے سال چھ مہینے بعد، ایک
طرف54 قتل کے مقدموں میں مطلوب شخص کو گورنر کا عہدہ دیا گیا تو دوسری طرف
سلمان تاثیر جیسے اور ایکٹنگ کے شکار ایکسٹرا ٹائپ کیریکٹر کو پنجاب کا
گورنر نامزد کر کے ساتھ ہی پیٹھ بھی ٹھونک دی گئی کہ جو منہ میں آئے بولے
چلے جاؤ سوچے سمجھے بغیر کہ معاشرہ کیسا ہے اور واسطہ کیسے لو گوں سے ہے
اور نتیجہ سب کے سامنے ہے خو صاحب بہادر بڑے گھر میں براجمان ہو گئے اور
ساتھ ہی پارٹی کے کو چئیرمین کا حادثاتی عہدہ بھی اپنے پاس رکھا ،آس پاس ان
لو گوں کی فوج ظفر موج اکٹھی کی کہ ایک ایک بندہ ایک ہی ہلے میں 80,80 ارب
ڈکار گیا اور کسی کو پتہ ہی نہ چلا،لوگ بھوک مہنگائی غربت اور لوڈشیڈنگ کی
وجہ سے مرتے رہے اور وزیراعظم گیلانی صاحب جون جولائی میں بھی تھری پیس سوٹ
زیب تن کر کے کس کے نکٹائی لگا کے کیڑے مکوڑوں کا مذاق اڑاتے رہے اپنے
بیرونی دوروں میں پوے خاندان کو ساتھ لیکر انگلینڈ اور نیویارک میں لاکھوں
کروڑوں ڈالر کی شاپنگ کراتے رہے اور ایک وقت آیا کہ لوگوں کے منہ سے نکلا
کہ ان سے تو مشرف بہتر تھا جی ہاں وہ مشرف جس نے دو بار اس ملک کا نہ صرف
آئین توڑا بلکہ اس ملک کی تباہی و بربادی اور موجودہ صورتحال کا اگر کوئی
ذمہ دار ہے تو وہ صرف اورصرف پر ویز مشرف اور اس کا ٹولہ ہے،مگر لوگ اس کے
بارے میں یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ زرداری اینڈ کمپنی سے تو وہ کئی درجے
بہتر تھا،پھر خدا خدا کر کے ان سے جان چھوٹی تو شیر آگئے اور آتے ہی بیس
کروڑ انسانوں کے ملک کو افریقہ کا جنگل سمجھ لیا بارہ سو سے زائد پولیس
اہلکار فقط دو بھائیوں اور ان کے اہلخانہ کی سیکورٹی پر معمور کر دئیے گئے
اگر اتنا ہی خطرہ ہے تو کہیں ایسی جگہ جاؤ جہاں امان ہواور موت نہ آئے ،اگر
جان اتنی ہی پیاری ہے تو گھر بیٹھیں،کل تک لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج میں
شامل ہونے کی ڈرامہ بازی کرتے تھے آج احتجاج کرنے والوں کی یوں ٹھکائی کرتے
ہیں جیسے یہ انڈیا کے ہیں یا احتجاج کرنے والے بھارتی شہری ہیں،ہم نے اس
وقت بھی دست بدستہ عرض کی تھی کہ بھولے بادشاہو،آپ کا کام مینار پاکستان کے
ساتھ ٹینٹ لگانا نہیں آپ کا کام مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اور بروقت کو شش
ہے آج اپنا کیا دھراخیبر پختوخواہ میں نظر آرہا ہے جب وزیرا علیٰ خیبر نے
کہا کہ میں احتجاج کرنے والوں کے ساتھ احتجاج کروں گا تو فوراًکہا گیا کہ
پرویز خٹک سیاست چمکانے کی کوشش کر رہے ہیں کل تک آپ کیا کرتے رہے ،اور بڑے
میاں سبحان اﷲ نے شاید یہی سمجھ لیا کہ مسکرانا نہیں عوام کہ سامنے کسی بھی
صورت تاکہ لگے کے عوام کا غم اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے،یہ صاحب بھی
چائینہ کے دورے پر پورے خاندان کو ساتھ لے گئے اور کاشغر تک ریلوے لائن کا
اعلا ن دے مارا،واہ جی واہ کیا بات ہے بغل میں دابی مرغابی کو چھوڑ کر دور
بیٹھے مرغابیوں کے ڈار کے پیچھے بھاگنے والا اپنی مرغابی سے بھی جاتا
ہے،جناب کاشغر ریلوے ٹریک سر آنکھوں پر مگر جو پہلے ریلوے موجود ہے اس کی
حالت تو دیکھیں اس کی حالت سدھارنے کے لیے کیا آسمان سے فرشتے اتریں گے،آپ
سینکڑوں کھلے پھاٹکوں پر ایک ایک گیٹ تو لگوا نہیں سکتے اور چلے ہیں چین تا
گوادر پٹڑی بچھانے،یہ تو ایسے ہی ہے جیسے دانش سکول کو وی آئی پی سہولیات
جبکہ سرکاری سکولوں میں ٹیچر ہے تو فرنیچر نہیں،فرنیچر ہے تو پینے کا صاف
اور ٹھنڈا پانی نہیں،کہیں چاردیواری نہیں اور اگر چار دیواری ہے تو گیٹ
نہیں،کم از کم کچھ تو خدا کا خوف کریں اگر چائنہ سے کچھ لینا ہی ہے تو ان
سے بجلی لیں گیس لیں تاکہ مسلسل عذاب میں مبتلا اس قوم کی جان خلاصی
ہو،کیوں اس قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاتے ہیں ،کیوں نہیں آپ ان غریب
لوگوں کی بہتری کے لیے کچھ ایسا سوچتے جس سے ایک غریب باپ کو اپنی اولاد کو
بھوکا دیکھ کر خودکشی نہ کرنی پڑے،کچھ ایسا کیجیے کہ ان کی عزت نفس بحال ہو
ان کو اور کچھ نہیں تو کم از کم دو وقت کی روٹی تک رسائی کو آسان بنائیے،جب
لوگ خوشحال ہوں گے تو ملک خود بخود ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا،مگر یہ
بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اب تک کے آپ کے اقدامات سارے کے سارے آپ کے پیش
روؤں جیسے ہی ہیں کچھ بھی نیا اور الگ نہیں ،ان کے پاس راجہ تھا تو آپ کے
پاس خواجہ۔ نہ اس سے لوڈشیڈنگ کے خلاف کچھ بن پایا نہ اس سے ہی کچھ
امید،عوام دشمن اقدامات اور فیصلے آخر کار وہیں پہنچا دیتے ہیں جہاں آج
پرویز مشرف ،پیپلز پارٹی ا ور عنقریب زرداری صاحب بھی پہنچنے والے ہیں خدا
نہ کرے کہ آپ کے بارے میں بھی لوگ کہنا شروع کر دیں کہ ان سے تو پہلے والے
بہتر تھے اور خدا نہ کرے کہ آپ کا انجام بھی ویسا ہی ہو،،اﷲ آپ کا حامی و
ناصر ہو،،،،،،،،،،،،
ٓاور آخر میں سینکڑوں لوٹوں اور مشرف باقیات کے بعد اب ایم کیو ایم کا
اتحاد مبارک ہو،کر سی کرسی کر سی،اپنی تو خواہش فقط ہے اتنی سی،،،، |