وہ جو بیچتے تھے دردِ دوائے دِل

نئی منتخب جمہوری حکومت نے 2013-2014 کا سالانہ بجٹ پیش کردیا ۔ اس بجٹ میں غریب کا کوئی ذکر سننے میں نہ آیا اور نہ ہی کہیں مزدور کا ذکر تھابس یہ سمجھو کہ پورا سکرپٹ ہی غائب تھا ۔ مزدور،غریب سے لے کر چھوٹے طبقے کے سرکاری ملازمین کو کوئی فائدہ نہیں دیا گیا ۔پنشن کی آس لگائے ان بیچارے ریٹائرڈ بزرگ ملازمین جو اکثر بے سہارا ہوچکے ہیں اس مہنگائی میں ان ریٹایرڈ کی پنشن صرف دس فیصد بڑھائی گئی جبکہ مہنگائی سو فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے۔روزمرہ ضرورت اشیاء کے لئے رمضان مقدس کے مہینے کے یوٹیلیٹی سٹورزز کی حد تک ریلیف دینے کا اعلان کیا گیا اور باقی ذخیرہ اندوزوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے وہ اپنی مرضی سے غریبوں کو لوٹنے کے لئے انتظام کرلیں۔مزدور طبقہ جس کے لئے سب جماعتوں نے الیکشن سے پہلے نعرے لگائے میاں نواز شریف نے بھی وعدے وعید کیے لیکن ان وعدوں اور دعووں کو عملی جامہ پہنانا گورا نہ کیا۔عوام اور غریب طبقے کو اس طرح نظر انداز کیا گیا جیسے پاکستان میں کوئی غریب نام کا کوئی بندہ نہ ہو۔بجلی کے لئے دو ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس سال لوڈشیڈنگ میں کوئی خاص کمی نہیں ہوسکتی۔ویسے نئے وزیر لوڈشیڈنگ تو پہلے ہی ’مکر‘ چکے ہیں جو انہوں نے نتخابات سے پہلے فرمایا تھاکہ نوے دن میں وہ لوڈشیڈنگ ختم کردیں گے اب کہی رہے ہیں کہ یہ کام دنوں،ہفتوں اور مہینوں کا نہیں ہے بلکہ سالوں کا کام ہے۔اب یہ نہیں بتایا گیا کہ کتنے سالوں کا کام ہے؟بھاشا ڈیم کے منصوبے پر کام کرنے کا اعلان کچھ دن پہلے کیا گیا ہء لیکن ماہرین کے مطابق بھاشا ڈیم پر پندرہ سال لگا جائین گے جبکہ اس کے برعکس کالا باغ ڈیم پانچ سالوں میں مکمل ہوسکتا ہے اور حکومت بغیر کسی روک ٹوک کے اس پر کام کرنا شروع کردے تو یہ بحران جلدی حل ہو جائے گا۔

میاں صاحب !اگر آپ نے بچت اور کفایت شعاری اپنانی تھی تووزیراعظم ہاؤس کا خرچہ45 فیصدکم کرنے کے ساتھ ممبران اور وزراء کی تنخواہوں میں بھی 45 فیصد کمی کردیتے اور یہ ریلیف غریبوں کو پہنچاتے تعلیم اور صحت کے شعبے کے لئے مختص کردیتے ۔چونکہ صحت کے لئے اکیس ارب اور تعلیم کے لئے پچیس ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جو اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے کے مترادف ہیں۔ غریب اور مزدور طبقے پر پچھلی حکومت سے بھی زیادہ استحصال کیا گیا ہے۔جی ایس ٹی میں اضافہ کردیا گیا ہے جس کا سب سے زیادہ بوجھ وہ غریب برداشت کرے گا جس کی دیہاڑی200 روپے بھی بڑی مشکل سے ہے۔اشیاء ضرورت گھی،چینی ،تیل وغیرہ پر اکسائز ڈیوٹی لگادی گئی ہے یفسوس کا مقام ہے ایک تو نئی حکومت نے بھاری ٹیکسز قوم پر ڈال دیے ہیں دوسری طرف بجٹ منظور ہونے سے پہلے ہی ذخیرہ اندوزوں نے مال کو ذخیرہ کر کے مہنگے داموں فروخت کرنا شروع کردیا ہے اور تو اور دودھ کی بھی مصنوعی قلت کردی گئے ہے کم سے کم حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ ان سٹاکرز کے خلاف تو ایکشن لیں۔اور اب عوام بھی احتجاج بھی نہیں کر سکتی کیونکہ لوڈشیڈنگ کے خلاف انہوں نے اپنا پہلا احتجاج فیصل آبادمیں کر کے دیکھ لیا جہاں ان بیچاروں پر پولیس نے ایسے تشدد کیا جیسے کشمیر میں بھارتی فوجی ظلم کر رہے ہوں چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کیا گیا۔کیا اس میں آفیسران کا کوئی قصور نہیں ہے اس سے پہلے میں شہباز شریف بطور وزیراعلیٰ اس طرح کے مظاہرے کر چکے ہیں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں۔اب میاں شہباز شریف صاحب نے اعلان کیا ہے کہ جن پولیس والوں نے یہ سب کچھ کیا ہے ان اہلکاروں کو معطل کردیا گیا ہے۔خادم اعلیٰ صاحب ان اہلکاروں کا قصور اتنا نہیں ہے اصل قصور تو افسران کا ہے جن کا حکم پر یہ چھوٹے اہلکار عمل کرتے ہیں۔جن کی تنخواہوں پر بھی اضافہ نہیں کیا گیا۔

الیکشن سے پہلے میاں صاحب نے غریبوں کو بہت سے سبز باغ دکھائے جن میں مزدور کی کم سے کم تنخواہ اٹھارہ ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن ’’مزدور‘‘کا لفظ وزیر ٹیکس جناب اسحٰق ڈار کی ڈکشنری میں موجود نہیں تھا۔چھوٹی گاڑیوں کی خریداری پر پچیس ہزار روپے سے لے کر پچاس ہزار روپے تک ٹیکس نافذ کیا گیا ہے جس سے اب یہ کسی سفید پوش مڈل کلاس کی دسترس سے باہرہو گئی ہیں جبکہ اس کے بر عکس اٹھارہ سو سی سی سے لے کرپچیس سو سی سی لگژری گاڑیوں پر پچیس فیصد ڈیوٹی کم کردی گئی۔نوجوانوں کے لئے تو میاں صاحب اور ان کے رفقاء نے بہہت سے اعلانات فرمائے تھے۔میاں صاحب نے مختلف جلسوں پر تقاریر میں فرمایا تھا کہ نوجوانوں کو روزگار دیں گے اور بلاسود قرضے بھی دیں گے تا کہ نوجوان اپنا روزگار کر سکیں لیکن قرضوں کا اعلان بھی کیا گیا اور ۸ فیصد مارک اپ (سود) کے ساتھ یہ قرض حاصل ہوگاا۔لیپ ٹاپسکیم کے لئے تین ارب روپے مختص کیے گئے ہیں لیکن اس میں نوجوانوں کے لئے کوئی خاص فائدہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی میاں شہباز شریف نے بھی لیپ ٹاپ دیے تھے جو مارکیٹوں میں فروخت کردئے گئے۔ماسٹرز گریجوایٹ کے روزگار کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا بلکہ25 سال تک کے ماسٹرز ڈگری ہولڈرز کے لئے دس ہزار روپے معاوضے کااعلان کیا گیا۔اگر ماسٹرز ڈگری ہولڈرز کو مستقل روزگار دیا جاتا اور25 سال سے زیادہ عمر کے ڈگری ہولڈرز جو بیروزگار ہیں ان کے لئے پہلے سوچا جاتا کیونکہ ٹوٹل ماسٹر ڈگری ہولڈرز کی تعداد میں سے25 سال تک کے ماسٹرز ڈگری ہولڈرز صرف دس فیصد ہیں۔صرف جنوبی پنجاب کے چند اضلاع کے لئے اعلیٰ تعلیم کو مفت کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جو خوش آئند ہے۔۔

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار صاحب نے عوام کے صبر کرنے کی بھی تلقین کی ہے اور کہا ہے کہ عوام یہ بجٹ برداشت کرے اور ایک قوم بن کر دکھائے تو وزیر خزانہ صاحب یہ قوم پہلے کیا کر رہی تھی یہ تو مشرف دور سے لٹ رہی ہے پھر زرداری دور حکومت بھی قرب میں گزرے اور آپ بھی یہ صبر کی تلقین کر رہے ہیں۔قوم تو صبر کرہی ہے کیا اس لئے آپ کو ووٹ نہیں دئے کہ آپ زرداری پالیسیوں سے بھی کچھ آگے کر گزریں۔قوم پہلے تو احتجاج بھی کر لیتی تھی لیکن اب آپ کی حکومت نے فیصل آباد میں جو حکومتی رٹ قائم کرنے کے لئے کیا ہے وہ تو سب کے سامنے ہے۔وزیراعظم صاحب یہ نہ ہو کہ لوگ پھر پیپلزپارٹی کی حکومت کو یاد کریں۔۔اس غریب قوم کے صبر کا متحان کب تک لیتے رہیں گے۔کیا صرف الیکشن میں ووٹ لینے کے لئے ہی نعرے لگائے تھے ووٹ لینے کے بعد تو حکمرانوں کے چہروں میں بھی تبدیل آ چکی ہے۔جس طرح پیپلز پارٹی ،اے این پی اور ق لیگ کا حشر الیکشن میں ہوا ایسا اب کے حکمرانوں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔اب نعرے لگانے کا دور ختم ہوگیا ہے بلکہ عمل کرنے کا وقت ہے اور جمہوریت بھی عوام کی خوشحالی سے قائم رہتی ہے ۔تاریخ ان حکمرانوں کو نہیں بھولتی جو رعایاکے حقوق کی پاسداری کرتے ہیں اور ایسے حکمران ہمیشہ اپنے اچھے کردار سے یاد کئے جاتے ہیں کیا اب ایسے حکمران نایاب ہوگئے ہیں جو قوم کا درد رکھیں؟
Muhammad Shahid Yousuf Khan
About the Author: Muhammad Shahid Yousuf Khan Read More Articles by Muhammad Shahid Yousuf Khan: 49 Articles with 40708 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.