ہمارے یہاں ہر سیاسی جماعت جمہوریت کی مالا
جھپتی ہے اور خصوصا وہ جماعتیں جنہیں مرکز یا صوبے میں حکومت سازی کا موقع
ملے وہ خود کو جمہوریت کی سب سے بڑی چمپین سمجھتی ہے لیکن انکے قول و فعل
کا تضاد اس وقت ابھر کر سب کے سامنے آجاتا ہے جب وہ الیکشن جیت کر خود تو
اقتدار کے سر چشمے سے فیض یاب ہوجاتی ہے لیکن اعوام کو جمہوری حقوق کی
منتقلی اور جمہوریت کی برکات سے ثمریاب ہونے میں روڑے اٹکاتی ہیں -
میرا اشارہ صوبائی حکومتوں کا بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں لیت و لعل سے
کام لینے کی طرف ہے بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے -
لیکن بد قسمتی کی انتہاہے کہ ملک میں جب بھی سیاسی جماعتیں برسر اقتدار میں
رہی انہیں بلدیاتی انتخابات کرانے کی توفیق نہیں ہوئی بلکہ اگر یہ کہا جائے
کہ وہ بلدیاتی اداروں سے خائف ہوتی ہے تو غلط نہ ہوگا-
طرف تماشہ یہ کہ ملک میں جب کبھی بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے انکا انعقاد
فوجی آمروں نے ہی کیا چاہے اسکے پیچھے انکی کوئی بھی نیت یا غرض کار فرما
ہو لیکن اعوام کو اپنے مقامی مسائل کے حل کے لیے نمائندوں کے چناؤ کے لیے
ووٹ کا حق فوجی آمروں سے ہی ملا-
بلاشبہ یہ ناقابل رشک صورتحال جمہوریت کے نام لیواؤں کے لیے باعث شرم ہونی
چاہیے-
یہ درست ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت ابھی نو خیز پودے کی مانند ہے جیسے تن آور
درخت بننے میں کافی وقت درکار ہے اور اعلی جمہوری روایت کے قیام کے لیے
ہمیں ابھی بہت کچھ سیکھنا اور کافی سفر طے کرنا ہے لیکن سیاسی جماعتوں کو
یہ بھی سوچنا چائیے کہ بلدیاتی ادارے ہی جمہوریت کے سب سےبڑے محافظ بن سکتے
ہیں -
کیونکہ ان سے عوام کا براہ راست رابطہ رہتا ہے لیکن برا ہو ہمارے ہاں رائج
بد عنوانی اور وسائل پر قابض اور اپنے دسترس میں رکھنے کی خواہشات کا جو
سیاسی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات سے گریز کی طرف مائل کرتے ہیں گزشتہ
حکومت نے بھی ان الیکشن سے راہ فرار اختیار کی اور اعوام کو اپنے آہنیی حق
سے محروم رکھا اور اب نئی حکومت بھی اسی روش پر چلتی دکھائی دے رہی ہے -
چناچہ عدالت نے صوبائی حکومتوں سے بلدیاتی الیکشن کا شیڈول طلب کیا ہے اور
اسکا قوی امکان ہے کہ صوبائی حکومتیں حسب روایت ان الیکشن سے بھاگنے کےلیے
بہت سے بہانے تراشے گی لیکن عدالت اب انہیں راہ فرار کا کوئی موقع نہیں
دےگی- |