بلوچستان مجبوط ہوگا تو پاکستان مضبوط ہوگا

بلوچستان کے لوگوں کے دلوں کے قیام پاکستان سے آج تک ایک احساس محرومی پا یا جاتا اور اس احساس محرومی کا ذمہ دار پنجاب اور پنجابی کو گردانتے ہیں۔ہماری حکومت کی ناقص پالیسیوں ، بلوچستان میں ہونے والے طاقت کا استعمال ، بلوچستان کے ساحل اور وسائل پر بلوچستان کا عدم اختیار ، بلوچستان کے لوگوں کے حقوق کی پامالی اس سب کا ذمہ دار بلوچستان کے لوگ پنجاب کو سمجھتے ہیں ۔ یہ احساس محرومی بڑھتے بڑھتے بہت آگے نکلتا جارہا ہے اور آگ کی چنگاری بھڑکنے لگی تو سابقہ حکومتوں کے اقدامات نے اسے مذید بھڑکا یا جس سے یہ چنگاری شعلہ بن گئی جس میں اس وقت بلوچستان جل رہا ہے۔

ان حالات میں جب جناب نواز شریف صاحب نے بلوچستان کے ساتھ ہونے والے ظلم ناانصافیوں اور استحصال کے خاتمے کے لیئے ایک امید دکھائی تو بلوچستان کے لوگوں کا سب سے زیادہ اعتماد بھی انکی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) پر نظر آیا اور مسلم لیگ (ن) بلوچستان کی سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی اور پھر آنھوں نے ایک پختونخواہ میپ اور نیشنل پارٹی کے ساتھ مل کر بلوچستان میں حکومت بنانے کا فیصلہ کیا تو وزارت اعلیٰ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے حصے میں آئی جس سے بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا اور پہلی بار ایک مکران اور ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تو اس سے بلوچستان کے لوگوں کی توقعات موجودہ حکومت سے اور زیادہ ہوگئیں ۔ابھی حکومتوں کے قیام کو چار ماہ کا عرصہ ہونے والا ہے لیکن بلوچستان کے اندر کوئی خاطر خواہ کامیابی نظر نہیں ارہی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔انھوں نے ایک نجی تی وی کے انٹرویو میں تو یہاں تک کہہ دیا کہ بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے میرے کنٹرول میں نہیں یہ اہل بلوچستان کے لیئے کیا پیغام ہے۔

جب محترم وزیر اعظم صاحب چائنا گئے تو ان کے وفد میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صاحب وزیراعلٰی بلوچستان بھی شامل تھے ، چائنامیں کئی معاہدوں پر دستخط کیئے گئے جن میں سے اکثر کا تعلق بلوچستان سے تھا، اس وقت بلوچستان میں گوادر پورٹ بھی چائنا کے حوالے ہے اس کے علاوہ کئی منصوبوں پر چائنیز حکومت اور کمپنیاں کام کررہی ہیں ۔چائنا دورے میں جن منصوبوں پر بات ہوئی ان میں بجلی پیدا کرنے کے پلانٹس بھی شامل ہیں اس وقت جو ملک میں بجلی کا بحران ہے ان حالات میں یہ ایک خوش ائند بات تھی اور جب ان چار پلانٹس کو بلوچستان کے علا قے گنڈانی ضلع لسبیلہ میں لگا نے کا اعلان سامنے آیا تو بلوچستان اور لسبیلہ کے لوگو ں جہاں خوش ہوئے تو وہیں ان کے دلوں میں یہ خدشہ بھی موجو د تھا کہ کئیں پھر بلوچستان کی سرزمین صرف منصوبوں اور اعزاز کے حد تک استعمال تو نہیں ہورہی ۔کیا ان منصوبوں سے وہ مستفید ہو پائیں گے یا پنجاب ہی ان منصوبوں سے روشن ہوگا اور بلوچستان کے لوگ اسی طرح اندھیروں میں رہیں گے۔

بلوچستان کے لوگوں کا یہ خدشہ اس وقت حقیقت کا روپ دھار گیا جب لاھور میں حکومت پنجاب اور چائنا پاور ہولڈنگز کے مابین بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقے گدانی میں چھ سو میگا واٹ کے چار بجلی گھر جن سے چوبیس سو میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی لگا نے کے معائدے کے دستخط ہوئے ۔ اس تقریب میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والی کوئی حکومتی عہدیدار یا شخصیت شامل نہیں تھی ۔ پاور پلانٹ لگ صوبہ بلوچستان میں رہے ہیں اور اس پر دستخط صوبہ پنجاب کے وزیر اعلٰی کررہے ہیں ۔اس تقریب میں انھوں نے کہا کہ پاور پلانت بلوچستان میں گدانی کے مقام پر لگیں گے جس پر سرمایہ کاری چینی کمپنی چائناپاور ہولڈنگز کرے گی جبکہ کچھ سرمایہ کاری حکومت پنجاب کرے گی ۔ بلوچستان سے پیدا ہونے والی بجلی نیشنل گرڈ میں آئے گی اور ساری بجلی پنجاب کو ملے گی ۔دو پلانٹس دو سال میں تیا ر ہونگے جبکہ دو پلانٹس پر تین سال کا عرصہ لگے گا اور اس سے پنجاب مین بجلی کا مسئلہ حل ہوجائے گا انھوں نے اس تقریب میں اس بات پر بہت زیادہ زور دیا کہ ان منصوبوں سے صرف پنجاب کو بجلی فراہم کی جائےگی۔

جب وزیراعظم پاکستان محترم جناب نواز شریف صاحب اپنے بلوچستان کے دوسرے دورے پر ان پاور پلانٹس کا افتتاح کرنے گدانی آئے تو انھوں نے اپنے اس پینتالیس منٹ کے دورے میں بلوچستان کے متعلق کوئی بات نہیں کی ۔بلوچستان کے موجودہ حالات میں جہاں احساس محرومی اور انسانی حقوق کی پامالیوں اور حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کے سبب بھڑکنے والی آگ کے شعلے تیزی شے پھیلتے جارہے ہیں ۔ان حالات میں حکومت کے یہ فیصلےکیا جلتی کو آگ کا کام نہیں کررہے ؟ ۔۔کیاان اقدامات سے وفاق مضبوط ہوپائے گا یا بلوچستان کو پنجاب کی کالونی بنایا جارہا ہے ۔پہلے بلوچستان سے نکلنے والی گیس پر پنجاب کے چولہے جلے ، فیکٹریاں چلیں اور بلوچستان کے لوگ نصف صدی کا عرصہ ہونے پر بھی اس سے محروم ہیں ۔حب پاور سے پیدا ہونے والی بجلی پہلے ہی بلوچستان کو نہیں دی جارہی اور اب موجودہ پلانٹس میں معمولی سرمایہ کاری کرکے پنجاب مالک بن بیتھا ھے اور بلوچستان کے لوگوں کو اس سے بھی محروم کیا جارہا ہے۔

محترم جناب نواز شریف صاحب سوچئے زرا پنجاب سے باہر نکل کر بھی سوچئے ، کچھ صنعتکاروں کے مفادات سے باہر نکل کر بھی سوچیئے ۔پاکستان کو ایک مضبوط فیڈریشن بنانے کے لیئے سوچیئے جو اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تمام اکائیوں کے حقوق کا تحفظ نہ ہو ۔آپ صرف پنجاب کے نہیں پورے پاکستان کے وزیراعظم ہیں اس لیئے پاکستان کا سوچیئے پاکستان اس وقت مضبوط ہوگا جب صوبے مضبوط ہونگے ۔ پاور پلانٹس کا کوئلہ چائنا سے اآئے گا سرمایہ کاری چائنا کرے گی۔ سرزمین بلوچستان کی استعمال ہوگی اور پھر وہ معمولی سرمایہ کاری کا کچھ حصہ جو پنجاب دے رہا ہے بلوچستان بھی دے سکتا تھا بلوچستان کے پاس وسائل نہ تھے تو وفاق انکی مدد کرسکتا تھا ۔جتنا مسئلہ بجلی کا پنجاب میں ہے اس سے بڑھ کر بلوچستان میں ہے ۔پھر بلوچستان کو بجلی کیوں نہیں پنجاب کوکیوں ۔اس وقت ضلع لسبیلہ میں گوادر پورٹ اور کراچی پورت کے درمیان زیروپوائنٹ اندسٹریل زون صرف بجلی کی وجہ سے اسٹارٹ نہین ہووپارہا ہے ۔ بلوچستان کے زمیندار بجلی بحران کی وجہ سے تباہ ہوچکے ہیں ۔اس وقت پورا بلوچستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے ان حالات میں آپ کے اور میاں شہباز شریف کے یہ فیصلے بلوچستان کی آگ کو ہوا دے رہے ہیں ۔ بلوچستان بچا ئے پاکستان بچائیے
Asim Kazim Roonjho
About the Author: Asim Kazim Roonjho Read More Articles by Asim Kazim Roonjho: 17 Articles with 14894 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.