ذکر واذکار۔۔اورالفاظ میں تا ثیر کی حقیقت

مولانا رومی نہ صرف اپنے زمانے بلکہ قیامت تک کے لیے ولایت وکرامت کا درخشندہ وتابندہ ستارہ ہیں ،وہ ایک شیخ، فقیر ،ملنگ،درویش اور ملا کی صورت میں خدا رسیدہ ولیٔ کامل تھے، دوسری طرف اسی زمانے میں علوم عصریہ وجدیدہ کے ماہر شہرۂ آفاق سائنس داں مسٹر ابن سینا بھی آسمانِ علم معرفت پر آفتاب و مہتاب کی طرح جگمگا رہے تھے،دونوں نے ایک دوسرے کے بارے میں اچھی طرح سن رکھا تھا، دونوں کا طوطی اپنے اپنے دائرے میں خوب بولتا تھا،دونوں کے تلامذہ ومتوسلین اپنے اپنے اساتذہ ومرشدین کے تذکرے جابجا اور گاہ بگاہ کیا کرتے تھے ،چنانچہ ایک مرتبہ جدید فلکیات کا یہ ماہر مسٹر ابن سینا، اپنے ہی دور کے دقیانوس اور رجعت پسند ماہر شریعت و طریقت مولانا رومی کی خدمت میں حاضر ہوئے،وہاں کیا دیکھتے ہیں، مولانا اپنے پاس حاضرین ،مسترشدین اور متعلمینِ احسان وسلوک میں سے کسی کو اسم اعظم کے سو بار پڑھنے، کسی کو سورۂ فاتحہ ،کسی کو معوذتین،کسی کو لفظ اﷲ،رحمان ،رحیم اور کسی کو درود شریف کے اثرات و فضائل اور ان پر دنیا جہاں کے برابر ثوابوں کا درس دے رہے ہیں ،اتفاق سے ان تمام باتوں کا تعلق ایمانیات بالغیب سے ہے،جبکہ ابن سینا زمینی حقائق،موجودات اور محسوسات میں دو اور دو چار کے قائل تھے، یہاں الفاظ کی تاثیر کا حساب کتاب ان کی سمجھ میں نہیں آیا،برافروختہ ہو گئے ،اورپھٹ پڑے: ارے مولانا رومی یہ کیا کہہ رہے ہو،ایسا کیسے ہو سکتا ہے، کیوں قوم کاوقت ضائع کر رہے ہو، یہ وظائف اورأوراد کسی کام کے نہیں ہیں،ان میں ہرگزکوئی تاثیر نہیں ہے،لوگوں کو بے وقوف مت بنائیں، بس گویا ابن سینا نے شیخ کی خانقاہ میں ایک اودھم مچا رکھی تھی، آس پاس موجود لوگ ان کی اس بے جا دخل درمعقولات سے سراسیمہ ہو گئے،حیران وپریشان رہ گئے، ایک مولانا ئے روم تھے، جو بالکل متاثر نہیں ہوئے، بڑے اطمینان سے ابن سینا کی جارحانہ گفتگو اور تقریر سن رہے تھے، جب وہ خاموش ہوئے، تومولانانے بطور روحانی علاج وتداوی ان سے صرف اتنا کہا: ـ’’ارے گدھے،تجھے کیا پتا ہے‘‘ ۔ابن سینا نے جب دیکھا کہ مولانا انہیں گدھے کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں، ان کے غصے کا پارہ جو پہلے ہی چڑھا ہوا تھا،بامِ عروج پر پہنچ گیا،وہ مولانا کو گالم گلوچ پر اتر آئے ،دشنام ترازی ،سخت سست اورسب و شتم کرنا شروع کیا، بلڈ پریشر بھی غصے میں خطرناک حدوں تک رگوں میں ڈِگ ڈِگ ،ڈِگ ڈِگ کرنے لگا ،پسینے میں وہ یک دم شرابورہوگئے،وہ ہانپ بھی رہے تھے،ان کے منہ سے جھاگ بھی نکل رہی تھی،وہ کپکپا بھی رہے تھے،چکرا بھی رہے تھے۔کہ شیخ اور مولوی اتنے بے و قوف اور احمق بھی ہوسکتے ہیں ،جو ابن سینا جیسے عزت مند آدمی کو ـ’’ارے گدھے‘‘کہہ کر مخاطب کرے،وہ یہی سوچتے رہے اور مولانا کو کوستے رہے۔اتنے میں مولانا نے دھیمے انداز میں اسے دوبارہ مخاطب کیا اور کہنے لگے: حضرت علامہ بو علی سینا صاحب ۔۔لفظ ’’گدھے‘‘ کی تاثیر آپ نے خود اپنے دل ودماغ اور جسم پر دیکھ لی، اب آپ ہی بتائیے، لفظ ’’اﷲ‘‘ کی تاثیر کتنی زیادہ اور عظیم الشان ہو گی؟ ابن سینا نے جب مولانا کے یہ کلمات سنے ۔جیسے انہیں جاگ آئی ہو، وہ برسوں کی نیند سے جیسے اب بیدار ہو چکے ہو، انہوں نے اپنے سر کو جھٹکا دیا،آنکھوں کو ملنا شروع کیا، چہرے پر دونوں ہاتھ پھیرنے لگا، اور یکایک جا کر شیخ کے قدموں میں گر پڑا، معافی ومعذرت چاہی،قدم بوسی کی، اور ان کے دامن سے لگ کر رونے لگا، اتنا چمٹ گیا کہ مولانا نے انھیں اپنے حلقہء ولایت ،ارادت وخلافت میں قبول فرما لیا،کہتے ہیں صحیح معنوں میں افلاک وفلکیات کا علم اب ان کی سمجھ میں آنے لگاتھا۔

اوقات و اسما ء کی تاثیر کو مد نظر رکھ کر یہاں آج اس واقعے کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ رمضان المبارک اپنے تینوں عشروں (رحمت، مغفرت،نجات) کولے کر رخصت ہورہاہے،جمعۃ الوداع بھی آج منایاگیا،اب ہمارے پاس اس ماہِ مبارک کے چند ایام ، ساعات اورلحظات ہیں،ان میں ہم لیلۃ القدر، مسنون اور نفلی اعتکاف،مابقی اوقاتِ سحر وافطار میں خوب خوب ذکر واذکار ، أوراد تلاوت اور صلوات وعبادات کا اتنا اہتمام کریں ، کہ اﷲ تعالی کو راضی کر ہی لیں،خصوصاً اہل ِ اعتکاف درود شریف ، اسمائے حُسنی، الحزب الاعظم ،دلائل الخیرات اور قرائت وتلاوت کر کے اپنے واسطے ،اہل محلہ کے لئے ،ملک وملت اورپوری انسانیت کیلئے دعاؤں کا التزام کریں۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877843 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More