ہر قوم نے اجتماعی طور پر خوشی
منانے کے لئے کچھ دن مخصوص کر رکھے ہیں جنہیں تہوار یا عید کے نام سے جانا
جاتا ہے۔ ان دنوں میں قوم کے لوگ زرق برق لباس زیب تن کرتے ہیں، عمدہ سے
عمدہ کھانوں کا اہتمام کرتے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں سیر و تفریح میں
مشغول ہوتے ہیں۔ تہوار عظیم شخصیات یا کسی بڑی قومی خوشی کی یاد میں منائے
جاتے ہیں۔ عیسائی حضرت عیسی ؑ کے یوم پیدائش، یہودی فرعونِ مصر سے غلامی سے
نجات کے دن کواور ہندو اس دن کو عید کے طور پر مناتے ہیں جب رام چندر جی بن
باس پورا کرکے وطن واپس ہوئے۔ اسی طرح سے ہم ہندوستانی ۱۵؍ اگست کو قومی
تہوار کے طور پر مناتے ہیں کہ اس دن ہمیں انگریزوں کے ظلم و استبداد سے
نجات ملی تھی۔زندگی کے جھمیلوں کو فراموش کر کے کچھ لمحے خوشی کی حالت میں
گزارنا انسانی فطرت کا تقاضہ ہے۔
مذہب ِاسلام نے بھی اپنے پیروکاروں کو حدود کے اندر رہتے ہوئے مل جل کر
خوشیاں منانے کی اجازت دی ہے۔ روایتوں میں آتا ہے کہ آپ ﷺ جب ہجرت کر کے
مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ وہاں کے لوگ نو روز اور مہرجان دو دنوں
کو عید کے طور مناتے ہیں۔ (یہ دونوں تہوار فارسیوں کے ہیں جو عرب میں کہیں
کہیں رائج ہو گئے تھے ۔) آپ ﷺ نے جب اہل مدینہ سے دریافت کیا کہ یہ دو دن
کیسے ہیں جن میں وہ کھیل کود میں مشغول رہتے اور خوشیاں مناتے ہیں تو انصار
نے جواب دیا کہ ہم لوگ زمانۂ قدیم سے ان دو دنوں میں لہو و لعب کرتے ہوئے
اور خوشیاں مناتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ اﷲ
تعالیٰ نے تمہارے لئے ان دو دنوں سے بہتر دودن مقرر فرمائے ہیں، تم ان میں
خوشی منایا کرو۔ ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحی۔ ‘‘( ابو داؤد) یہی دو
دن ہیں جن میں آپ ﷺ اور صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین اجتماعی خوشیاں مناتے
تھے۔
عید عربی لفظ ’عود‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ’لَوٹنا‘ ہوتے ہیں۔ چونکہ عید ہر
سال لوٹ کر آتی ہے اس لئے اسے عید کہتے ہیں ہیں۔ عید مسلمانوں کے لئے
اجتماعی خوشی کا دن ہے اور انفرادی خوشی کے بر عکس اجتماعی خوشی اس وقت تک
حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس میں ہر فرد شریک نہ ہو۔ عید کے دن اگر کوئی
ایک مسلمان بھی مسلمان معاشی تنگی کی وجہ سے اچھے لباس اور اچھے کھانوں کا
اہتمام نہیں کر پاتاتو ہمیں یہ اجتماعی خوشی حاصل نہیں ہو سکتی ہے۔اسی لئے
اسلام نے حکم دیا ہے کہ مالدار مسلمان غریب مسلمانوں کو بھی عید کی خوشیوں
میں شریک کرنے کے لئے انھیں صدقہ فطر کے ذریعہ ضرور مدد کریں۔ صدقہ فطر عید
کی نماز سے پہلے ادا کیا جاتا ہے ، اس طرح سے تنگدست مسلمان بھی خود کو عید
کی خوشیوں میں شامل کرنے کا اہل ہو جاتا ہے۔
عید کے اس سماجی پہلو کے علاوہ اس کا مذہبی پہلو یہ ہے کہ مسلمان اس دن
خوشی اس لئے مناتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں رمضان المبارک کے ایام میں
اپنی عبادت کرنے کی توفیق عطا کی اور اس عبادت کے بدلے میں ان کی بخشش فرما
دی۔ جن لوگوں نے رمضان کے روزے نہیں رکھے انھیں اس دن خوشی رہنے کا کوئی حق
نہیں ہے۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ ’عید تو سچ مچ بچوں کی ہے، یا پھر روزہ
داروں کی ہے‘ ۔
حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ جب رمضان المبارک کی آخری
رات (جسے لیلۃ الجائزہ یعنی انعام کی رات کہتے ہیں) آتی ہے تو اﷲ تعالیٰ
روزے داروں کے سارے گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔‘‘ (بیہقی) شب قدر کی طرح عید
کی رات کی بھی احادیث میں فضیلت وارد ہوئی ہے۔ اس رات میں ہمیں اﷲ تعالیٰ
کی خوب عبادت کر کے اس کی نوازشات کا طلبگار ہونا چاہئے۔ لیلۃ الجائزہ میں
مسلمان بجا طور پر اﷲ سے انعام کی امید کرتے ہیں۔ کیونکہ مسلمانوں نے رمضان
کا مہینہ اس حال میں گزارا ہوتا ہے کہ انھوں نے اﷲ کے ذریعہ حرام کردہ
چیزوں سے اجتناب تو کیا ہی اس کے علاوہ اس کے ذریعہ حلال کردہ چیزوں (کھانا،
پینااور بیوی سے صحبت ) سے بھی بچے رہے ، محض اس لئے کہ ان کے پر وردگار نے
انھیں ایسا ہی کرنے کا حکم دیا تھا۔ تو اب یہ رات اپنے اس محنت و مشقت کا
بدلہ حصول کرنے کی رات ہوتی ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب عید الفطر کا دن آتا ہے
تو فرشتے تمام راستوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے مسلمانو! رب
کے پاس چلو جو بڑا کریم ہے ، نیکی اور بھلائی کی راہ بتاتااور اس پر عمل
کرنے کی توفیق دیتا ہے اور اس پر بہت انعام سے نوازتا ہے ، تمہیں اس کی طرف
سے روزہ رکھنے کا حکم دیا گیاتو تم نے روزہ رکھے اور اپنے رب کی اطاعت
گزاری کی، تمہیں اس کی طرف سے تراویح پڑھنے کا حکم گیا تو تم نے تراویح
پڑھی۔ سو، اب چلو ،اپنا انعام لو۔ اور جب لوگ عید کی نماز پڑھ لیتے ہیں، تو
ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے کہ اے لوگو! تمہارے رب نے تمہاری بخشش فرما دی۔ پس
تم اپنے گھروں کو کامیاب و کامران لوٹو، یہ عید کا دن انعام کا دن ہے۔
ابن عباسؓ سے ایک اور روایت میں منقول ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا’’۔۔۔ پھر جب
لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ
اے فرشتو تم گواہ رہو کہ ان کے رمضان کے روزے اور نماز کی وجہ سے میں ان سے
خوش ہو گیا۔ اور اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : اے میرے بندو ! تم مجھ سے مانگومیں
اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس اجتماع سے دنیا و آخرت کی جو
کچھ بھی بھلائی مجھ سے مانگوگے میں دوں گا اور تمہارا خصوصی خیال رکھوں گا۔
اور جب تک تم مجھ سے خوف کھاتے رہو گے میں تمہاری خطاؤں اور لغزشوں سے در
گزر کرتا رہوں گااور مجھے اپنی عزت اور بزرگی کی قسم ہے کہ نہ تمہیں ذلیل و
رسوا کروں گا اور نہ مجرموں کے درمیان فضیحت کروں گا۔ تم سب کو میں نے معاف
کر دیا ۔ تم نے مجھے راضی کرنا چاہا تو میں تم سے راضی ہو گیا۔ یہ انعام و
بخشش سن کر فرشتے خوشیاں مناتے ہیں۔
ایک دوسری روایت کے مطابق جب لوگ عیدگا ہ میں آ جاتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ
فرشتوں سے فرماتا ہے: جن مزدوروں نے اپنا پورا کام کیا ہو اس کی مزدوری کیا
ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں، اس کی مزدوری یہ ہے کہ اسے پورا اجر دیا جائے تب
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ جن لوگوں نے روزے رکھے اور
نمازیں پڑھیں ان کے عوض میں نے انھیں مغفرت سے نواز دیا۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ رسول اﷲ ﷺ عید کے دن
جب تک چند چھوہارے نہ کھالیتے ، عید گاہ کی طرف نہ جاتے اور چھوہارے طاق
عدد میں کھاتے۔ (صحیح بخاری) ۔ حضرت جابر بن عبداﷲ ؓ سے روایت ہے کہ جب عید
کا دن ہوتا تو نبی ﷺ واپسی میں راستہ بدل دیتے۔ اس لئے عید کے دن ایک راستے
سے عید گاہ جانا اور واپسی کے وقت دوسرا راستہ اختیار کرنا سنت ہے۔ ایسا
کرنے کی بہت ساری حکمتوں میں سے یہ حکمت بھی ہوسکتی ہے کہ اس طرح سے پورے
علاقہ میں چہل پہل اور عید کی رونق پھیل جاتی ہے۔
عید کے دن خوشیاں منانے کا بے شک ہمیں حق حاصل ہے ، مگر ہماری یہ خوشی شرعی
حدود کے اندر ہونی چاہئے۔اﷲ نے ہمیں خوشی منانے کی اجازت دی ہے لیکن اسی کے
ساتھ ہمیں یہ بھی حکم دیا ہے کہ ہم اس کو اس انتہائی خوشی کے موقع پر بھی
فراموش نہ کریں۔ایسا نہ ہو کہ عید کا سارا دن دوستوں سے ملنے ملانے اور
خوشیاں بٹورنے میں گزر جائے بلکہ اس دن کی ابتدا بھی اﷲ کو یاد کر کے ہو۔
تبھی تو مسلمان صبح کو وقت جوق در جوق اﷲ اکبر اﷲ اکبر لا الٰہ الا اﷲ واﷲ
اکبر اﷲ اکبر و ﷲ الحمد کاورد کرتے ہوئے عید گاہ کی جانب رواں دواں ہوتے
ہیں اور عید گاہ پہنچ کر خدا کے حضور اپنی پیشانی جھکا دیتے ہیں۔ خوشی کے
موقع پر بھی اپنے خالق کو یاد رکھنا اور اس کے مقرر کئے حدود کو نہ پھاندنا
، اس کی توقع مسلمانوں سے ہی کی جا سکتی ہے نہ کہ ان قوموں سے جو خوشی
مناتے وقت صرف رنگ رلیوں، رقص و سروداور جام کی محفلوں کو ہی یاد رکھ پاتے
ہیں۔ خوشی کے اس موقع پر ہمارے لئے قطعا مناسب نہیں ہے کہ شریعت کی خلاف
ورزی کر کے خدا کے غضب کو دعوت دیں۔ ہمارے طرزِ عمل سے کسی کو تکلیف نہیں
پہنچنی چاہئے۔ اس موقع پر دیکھا جاتا ہے کہ اجنبی مرد و زن کے اختلاط کی
وجہ سے پردے کا لحاظ نہیں ہو پاتا ہے جو کہ شریعت کے خلاف عمل ہے۔ ہمیں اس
سے خاص طور پر بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ |