لیاری بم دھماکہ ،سُنیئے جنابِ عالیٰ ،کیاآپ کے پاس ذراسی اِنسانیت ہوگی؟

مرے مسلک میں عصبیت نہیں ہے......!

پچھلے دِنوں ایک بار پھر اغیار کے یار اور زرخرید دہشت گردوں نے میرے مُلک کے 46اور 100کے لگ بھگ لوگوں کو پشاور، کوئٹہ وزیرستان اورکراچی کے ایک تاریخ اہمت کے حامل علاقے لیاری میں فٹبال میچ کے اختتام پر فاتح ٹیم کے کھلاڑی بچوں کو اپنی دہشتگردی کا نشانہ بناکرخون کی ہولی کھیلی اور اِس پر اپنے آقاؤں سے انعام واکرام سے اپنی جھولیاں بھی بھریں ،تووہیں اِس طرح اُنہوں نے اپنے منہ بھی کالے کرڈالے،یقینااِن کے اِس ناپاک عمل سے اِنسانیت تڑپ اُٹھی ہوگی ، اور زمین بھی تھراگئی ہوگی تو وہیں قیامت سے پہلے زمین پر یہ قیامت کا منظر دیکھ کر آسمان بھی حیرت زدہ ہوگیاہوگا،اور یہ ضرورسوچ رہاہوگا، کہ آج کے پاکستان میں سانس لینے والے آدمیوںمیں انسان اور انسانیت کا ایک رتی برابر بھی عنصر نہیں ہے کہ آج یہ اِس حد تک گرگئے ہیں کہ اِِنہوں نے اغیار کی ڈالرز کی لالچ کے عوض اپنے ہی بھائی کا خون بہانہ اپنے لئے اعزاز تصورکرلیا ہے، یہ کیسا پاکستانی آدمی ہے...؟جو کہیں تعصب، تو کہیں فرقہ واریت کی بنیاد پر مسجدوں، امام بارگاہوں ، مندروں، گرچاگھروں ،بازاروں، درس گاہوں،پبلک مقام اور جنازوں میں خودکش حملے اور دہشت گردی کرکے لو گوں کو موت کے منہ میں دھکیل کر قبرکی آغوش میں سُلارہاہے ،توکہیںیہی آدمی ہے کہ جو سیاسی وسماجی حوالوں سے پسند اور ناپسند کی بنیادپر ٹارگٹ کلنگ اورقتل وغارت گری سے آدمیوں کا خون بہاکر خوش ہورہاہے،یوں یہ اپنے ہی مُلک میں ذاتی وسیاسی اور تعصب اور فرقہ واریت کو پھیلانے کا باعث بن رہاہے تو وہیں ڈالرز کی لالچ میں ا غیار کی سازشوں کوتقویت پہنچانے کاذریعہ بھی بن گیاہے،اِس کے باوجود بھی یہ کتنی تعجب کی بات ہے کہ پاکستانی آدمی خود کو مسلمان بھی کہہ رہاہے مگر اِس میں مسلمانوں والی ایسی کوئی چیز تو نہیں ہے کہ یہ خود کو آسانی سے کہہ سکے کہ وہ مسلمان ہے ، کیوں کہ جو مسلمان ہیں اُن کے یہاں تو بقول شاعر:
مُسلماں کا مُسلماں خوں بہائے یہ دینِ حق کی تربیت نہیں ہے
کتابِ دیں وفا کی ہے پیامی کتابِ دیں میں عصیبت نہیں ہے

مگرآج افسوس یہ ہے کہ پاکستانی آدمی کے پاس مُسلمانوں والی ایسی خصوصیات بھی نہیں ہے پھر بھی یہ خودکو کس منہ سے مُسلمان کہتاہے...؟یہ ایک سوالیہ نشان ضرور ہے،آج جس کا جواب دیناسب پر لازم ہے۔

بہر حال مجھے معاف کیجئے گا...! آج میں آدمیوں کے جس ریوڑ نمامعاشرے میں سانس لے رہا ہوں ، افسوس ہے کہ یہاں مجھ سمیت کسی بھی آدمی میں ذراسی بھی اِنسانیت نظرنہیں آتی ہے مُسلمان اور مُسلمانی تو بہت دور کی بات ہے ، پہلے ہم اِنسان بن کر اپنے اندر اِنسانیت کو پیداکریں مگر ہم مُسلمان بھی ہوجائیں گے، ایک عرصے سے مجھے خود کو حقیقی معنوں میں پیہچاننے کے لئے کسی اِنسان اور اِنسانیت کی شدد سے تلاش ہے ، اور میں جب کسی بھلے مانس کو دیکھتا ہوں توفوراََ لپک کر اِس کے قریب جاتا ہوںاور اِسے مخاطب ہوتاہوں کہ سُنیئے جنابِ عالیٰ ..!کیا آپ کے پاس ذراسی اِنسانیت ہوگی ...؟اگر ہے تو براہِ کرم ...!میں ہاتھ جوڑ کر آپ سے اِس کی بھیک مانگتاہوں ،میری مددکیجئے ، اور مجھے اپنے سینے سے لگاکر تھوڑاموقع مجھے بھی اِنسان بننے کا فراہم کردیں توآپ کی بڑی مہربانی ہوگی ، اور ذراسی اِنسانیت مجھے بھی عطافرمادیں تاکہ میں بھی اُس عظیم المرتبت مقام کو حاصل کرلوں جس کے لئے میں دنیا میں پھیجاگیا ہوں,میرایہ جملہ سُننے کے بعد جناب تو مجھے ایسے گھورکر دیکھتے ہیں کہ جیسے یہ مجھے کچاہی چپا جائیں گے ...اورجب کسی سے مجھے اپنے سوال کا جواب نہیں ملتا ہے تو پھر اگلے ہی لمحے مجھے خود ہی اِس بات کا احساس ڈسنے لگتاہے ، کہ آدمی تو پیداہوتاہے مگر اِنسان تہذیبی عمل سے بنتاہے،اور جب اِنسان پر تہذیبی عمل دخل بڑھنے لگتاہے تو پھر اِنسانیت بھی خود بخود جنم لے لیتی ہے۔

مگریہاں مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنے دیجئے ...!کہ میں بھی کتنا پاگل ہوں کہ اُن آدمیو ں کے ریوڑ میں اِنسان اور اِنسانیت کو تلاش کرتاہوں ، جنہوں نے کسی تہذیب کو دیکھاہی نہیں ہے،آج لگتاہے کہ میرا دیس پاکستان جو اِس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے اور آج اِس کی آبادی20کروڑنفوس سے بھی تجاوز کرگئی ہے، اور آج میرے مُلک کی یہ آبادی جو 20 کروڑ سے بھی اُوپر نکل چکی ہے یہ ایک اندازے کے مطابق یومیہ تقریباََ 50کروڑ، ماہانہ15ارب اور سالانہ ایک کھرب80ارب صرف روٹیاںکھاجاتی ہے، (یہاںدیگراجناس کا حساب علیحدہ ہے) یعنی یہ کہ موجودہ حالات میں جہاں آدمی آدمی کا دشُمن ہوگیاہے ،میرے دیس کی زمین کی پیا س کو آدمی ، آدمی کے مقدس خون سے بجھارہاہے،اور بڑے افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑ رہاہے کہ میرے دیس کے یہ درندے نماآدمی جو ایک سال میں اتنی روٹیاں کھاجاتے ہیں اِن کی اپنی کوئی تہذیب جو کبھی رہاکرتی تھی ،آج وہ قتل وغارت گری کے گرم ہوتے بازار میں کہیں کھوکر ختم ہوگئی ہے، اور اَب اِن کی سوائے قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے کوئی اور تہذیب ہی نہیں ہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ اَب میرے معاشرے کا وہ آدمی جو ضد اور ہٹ دھرمی کے ناسور میں مبتلاہوگیاہے وہ کسی بھی تہذیب کا حصہ بھی بننا نہیں چاہتاہے،اِن بگڑے ہوئے آدمیوں نے میرے معاشرے کے آدمیوں کو نہ اِنسان بننے کاموقع فراہم کررہے ہیں اور نہ ہی اِنہیں انسانیت کی کسی تہذیب کا حصہ بننے دے رہے ہیں، یوں میرے آدمیوں کے ریوڑ نمامعاشرے میں سانس لینے والے اِنسان اور اِنسانیت کے لقب اور مقام سے بھی محروم ہیں،ایسے میں مسلمانی کا دعویٰ کرنا مضحکہ خیزی کے سوا اور کچھ نہیں ہے، ہاں البتہ...!اِنسان و انسانیت اور مسلمانی کا ہر دعویٰ اُس وقت درست معلوم دے گا بقول شاعر جب :
کوششِ پیہم سے مِلت کو منظم کیجئے ---- عِشق کی تکریم سے دِیں کو مکرم کیجئے
کیجئے یہ چَاک اپنا کافرانہ پیرہن ---- ورنہ ا پنی نامُسلمانی کا مَائم کیجئے

آج مُلک میں تواتر سے ہونے والے قتل وغارت گری اور دہشت گردی کے واقعات نے اُن لوگوں کو جو اِنسان اور اِنسانیت کے بارے کچھ سوچ رکھتے ہیں اُنہیں یہ سوچنے پر مجبورکردیاہے کہ ہم لوگ جو آدمی سے اِنسان اور اِنسانیت کی جانب اپناعمل جاری رکھنے کے خواہش مند ہیں اُنہیں چاہئے کہ وہ وقت ضائع کئے بغیر میدانِ عمل میں اُتریں اور اپنے قول و فعل سے وہ کردکھائیں جس کے کرنے سے میرے معاشرے کے آدمیوں میں اِنسانیت غالب آجائے، یعنی یہ کہ مُلک سے فرقہ واریت اور تعصبیت کے عنصر کو ختم کرنے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ،ہم ایک دوسرے کے قریب آئیں اور ایک دوسرے کے فرقے کا خیال رکھیں ،اور ایک دوسرے کے فرقے کے مخصوص ایام میں شامل اور شریک ہوکر یہ درس عام کریں کے ہم ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں یعنی سُنی شیعوںکے ایام میں اور شیعہ ، سُنیوں کے مخصوص ایام میں تُرک و احتشام سے شریک ہوںتو اِس طرح ہم یہ ثابت کردیں گے ،اَب ہماراآپسمیں کوئی جھگڑانہیں ہے اور اَب ہم ایک دوسرے کے فرقے کا احترام کریں گے اور ایک دوسرے کے لئے مشعلِ راہ بن کر اپنے مُلک اور معاشرے کو گُل وگلزار بنائیں گے کیوں کہ بقول شاعر:

تعصب کی ہر اِک شمع بُجھادو علاقائی فصیلوں کو گِرا دو
دیارِ پاک کے ہر بام و در کو محبت کے گلابوں سے سَجادو
اور ایک دوسرے کو گلے لگاکر یہ کہہ دیں کہ:

نہیں رغبت مجھے قومیتوں سے مرے مسلک میں عصبیت نہیں ہے
مرا منشور ہے مہر و محبت مرے دستور میں نفرت نہیں ہے
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 972220 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.