اس حقیقت کو جاننا ضروری ہے کہ
بھاجپا میں اکیلے مودی نہیں ہیں جو نفرت کی زبان میں گفتگو کررہے ہیں۔
بھاجپا کی اب تک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہ
ہوگا کہ انتخاب سے قبل تک بھاجپا کا ہر مکالمہ مسلمانوں کے خلاف ہی ہوتا ہے۔
کیا کبھی ارون جیٹلی، سشما سوراج، جسونت سنگھ، یشونت سنہا کسی نے بھی
مسلمانوں کی حمایت میں کوئی ایک بھی آواز بلند کی—؟ ان میں کئی ایسے چہرے
ہیں جنہیں میڈیا سیکولر بنا کر بھی پیش کرتی آئی ہے۔ لیکن المیہ یہ بھی ہے
کہ ان میں کوئی چہرہ ایسا نہیں جس نے کبھی بھی، کسی بھی معاملے میں
مسلمانوں کی حمایت کی ہو— اور نہ ہی ان لوگوں سے آئندہ کسی حمایت کی امید
کی جاسکتی ہے— حقیقت یہ ہے کہ آج بھاجپا ایک بار پھر ۹۰ والی حالت میں پہنچ
چکی ہے۔ اور غور کیجئے تو کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ اس بات کو مت بھولیے کہ
ابھی پی ام کے طور پر باضابطہ مودی کے نام کا اعلان نہیں ہوا ہے۔ ۹۰ کے
حالات مکمل طور پر اڈوانی کے حق میں تھے۔ گہرائی سے غور کیجئے تو ایل کے
اڈوانی سیکولرزم کا لباس پہن کراس بار بھی مودی کی بساط کو الٹ سکتے ہیں۔
اڈوانی کے ایک بیان سے بھاجپا دو حصے میں تقسیم ہوگئی ہے۔ اور یہ کہنا صحیح
ہوگا کہ بھاجپا کا زیادہ بڑا حصہ آج بھی اڈوانی کے حق میں کھڑا ہے۔ مدھیہ
پردیش اور راجستھان سے بغاوت کی آوازیں بلند ہوچکی ہیں اور ادھر بہار میں
شتروگھن سنہا نے نتیش کے سہارے بغاوت کا شنکھ پھونک دیا ہے۔ اڈوانی نے ایک
بیان میں کہا تھا کہ ’میں ۱۴ برس کی عمر سے ہی رتھ یاتری ہوں‘۔ وقت کے ساتھ
صرف مقصد بدلتا چلا گیا— اس لیے مت بھولیے کہ یہ اڈوانی ہی تھے جنہوں نے
بھاجپا کو ایک بڑی شناخت دلانے میں تعاون کیا۔ ۱۹۸۴ میں بھاجپا کی دوسیٹ
تھی جو ۱۹۸۹ میں ۸۶ ہوگئی اور ۱۹۹۹ میں ۱۸۲ سیٹوں تک پہنچ گئی۔ اور اس
کامیابی کے منتر کے پیچھے وہی مسلم مخالفت کی صدا رہی ہے جس کی ادائیگی
اڈوانی کے طریقے سے ہی آج مودی کررہے ہیں۔ ممکن ہے انتخاب کے آتے آتے بساط
پلٹ جائے مگر مودی ہوں یا اڈوانی، فرق کیا پڑتا ہے۔ بھاجپا میں پی ام کا
امیدوار کوئی بھی چہرہ ہو، آپ اسے مسلمانوں کا حمایتی یا سیکولر نہیں کہہ
سکتے— کیوں کہ اصلیت یہ ہے کہ بھاجپا کی زمین ہی مسلم دشمنی کی بنیاد پر
رکھی گئی ہے۔
اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ آج ہم میں سے ہی کچھ لوگ یہ تسلیم کرنے لگے ہیں
کہ مودی کی جگہ ایل کے اڈوانی کو بطور پی ام قبول کیا جاسکتا ہے۔ وہ بھول
جاتے ہیں کہ بھاجپا کی سیاست میں شامل تمام چہرے دراصل ایک ہی مکھوٹا لگائے
ہیں۔ اڈوانی کو مودی کے مقابلہ میں معصوم تصور کرنے والے شاید یہ بھول گئے
کہ اپنی رتھ یاتراؤں سے جو خوفناک ماحول اڈوانی نے اس ملک میں پیدا کیا تھا،
اس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔
بھاجپا کے دوراقتدار کا ہر دن مسلمانوں کے لیے کسی بھیانک خواب سے کم نہیں
تھا۔ حیرت اس بات کی ہے کہ صرف ۱۲ برس پرانی تاریخ کو آپ ہم اور میڈیا کیسے
بھول سکتے ہیں۔ یہاں ۲۰۰۲ کی ڈائری کے وہ اوراق روشن ہیں، جہاں ہر دن
بھاجپا کا کوئی نہ کوئی بیان مسلمانوں کو لہو لہان کردیتا تھا۔ یہ وہی
زمانہ تھا جب پہلی بار بھاجپا نے مدارس کو اپنا شکار بنایا تھا۔
مدرسے اسلامی دہشت گردی کی فیکٹری
دیکھتے ہی دیکھتے مدرسے اسلامی دہشت گردی کی فیکٹری بن گئے۔ ہندستانی عوام
کے دلوں میں گانٹھ کی طرح یہ بات بیٹھا دی گئی کہ حقیقت میں مدرسے ہی نئی
دہشت گردی کی پیداوار ہیں۔ مدرسوں کے حالیہ سروے سے کئی دلچسپ تفصیلات
سامنے آئی ہیں۔ ایک نوجوان نے اپنا نام خفیہ رکھتے ہوئے بتایا کہ سرکار کی
طرف سے معائنہ کے لئے آئے لوگوں نے کچھ بے حد دلچسپ مگر قابل اعتراض سوالوں
کی جھڑی لگادی……
……آپ پڑھتے ہیں؟
-ہاں-
……کہاں؟
-مدرسے میں-
……کیا تعلیم دی جاتی ہے؟
دینی تعلیم۔
……کیا وہی تعلیم دی جاتی ہے جو افغانستان میں ملا عمر یا لادن حمایتیوں کو
دی جاتی ہے۔
ہاں، دینی تعلیم ساری دنیا میں ایک ہی ہوتی ہے۔
……آپ کیا پڑھتے ہیں؟
قرآن وحدیث۔
……کیا یہی قرآن وحدیث افغانستان میں بھی پڑھایا جاتا ہے؟
-ہاں-
یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ایسے سروے سے کیا نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
مدرسے، اسلامی تعلیم کے مرکز ہیں۔ مدرسوں کو ڈھانے کا مطلب ہے۔ اسلام پر
پابندی۔ ایک مکمل تہذیب کا خون۔ یہیں سے قرآن وحدیث کی تفسیر پڑھانے والے
مولوی اور حافظ نکلتے ہیں۔ اپنے بچوں کو دینی تعلیم دینے کے لئے مسلمانوں
کی ایک بڑی آبادی انہیں پر منحصر رہتی ہے۔
مدرسوں کو ختم کرنے کی حکمت عملی اپنانے سے زیادہ ضروری ہے، یہ دیکھنا کہ
غلطی کہاں ہورہی ہے؟ بے روزگاری اور بھوک سے، پیدا ہوئے سچ سے بھی زیادہ
خطرناک ہے وہ ماحول____ جو پچھلے 15-10 برسوں سے اس ملک میں پیدا کیا جارہا
ہے۔ ایک سچ یہ بھی ہے کہ نئی نسل پاکستان سے شدید نفرت کرتی ہے۔ وہ تسلیم
کرتی ہے کہ ہندوستان میں بھڑکنے والے فسادات کے پیچھے پاکستان کا بھی ہاتھ
رہتا ہے۔شتعال اور غصّے کا شکارتو اب قرآن جیسی پاک کتاب بھی ہونے لگی ہے،
جس کے بارے میں کوئی بھی مسلمان ایک لفظ بھی سننے کو تیار نہیں ہے۔ اس پر
بھی غور کرنا ضروری ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے سچ الگ الگ ہیں……
لیکن ’دیش پریم‘ کا مطلب وہ نہیں ہونا چاہئے، جیساکہ مسلمانوں سے امید کی
جاتی ہے……یعنی آپ مسلسل پاکستان کو گالیاں دیجئے تو وفادار____مسلمانوں کو
ایک نئی تعریف ڈھونڈھنی ہوگی۔ کیوں کہ آنے والے وقت میں دہشت گردی، حب
الوطنی اور وفاداری سے متعلق انہیں کتنے ہی امتحانوں سے گزرنا باقی ہے۔
مسلمان مخالف بیانوں کا بڑھتا ’آتنک‘
کیاآپ نے غور کیا ہے پچھلے کچھ ایک مہینوں سے وزیراعظم سے لے کر مودی،
توگڑیا، نائیڈو اور آچاریہ گری راج کشور تک، جس طرح مسلمانوں کے خلاف بیان
بازی کا سلسلہ شروع ہوا ہے وہ آزادی کے بعد کی تاریخ پر ایک ایسا کلنک ہے،
جسے نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ملک کی تاریخ میں
ایسے حادثے کوئی پہلی بار نہیں ہورہے ہیں۔ لیکن ہندو ’ساٹیکی‘ سے پیدا ہوئے
ہیڈگوار ہوں…… شیاما پرشاد مکرجی، یا انڈمان کی جیل میں قیدی بناکر بھیجے
گئے ویر ساورکر____ یا جناح کے مسلم لیگی بیانات کا تلخ جواب دینے والے
پٹیل ہوں۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ تب کی تاریخ اور ’سچ‘ مختلف تھا۔
تب ہندوستان کا جسم غلام تھا…… اور گاندھی جی کی دو آنکھیں یعنی ہندو اور
مسلمان کو تقسیم کرنے میں فرنگی سرکار نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ملک کی
توڑ پھوڑ اور تقسیم کا مسئلہ اتنا خطرناک تھا کہ پاکستان، جناح، مسلم لیگ
اور مسلمان…… نفرت کے مستحق سمجھ لئے گئے تھے۔
ملک کی تقسیم کی تاریخ کو بعد کی نسلیں بھی فراموش کرنے میں ناکام رہیں۔
گویا یہ اپنے آپ میں ایسا زخم تھا جس کا ذکر آتے ہی مسلمانوں کے لے ایک
عجیب سی نفرت کا جذبہ پیدا ہوتا تھا____جن سنگھ اور جن سنگھ سے پیدا ہوئی
ہندو ’شاکھاؤں‘ نے اسی نفرت بھرے تصور کو پروان چڑھایا…… لوگوں کو بھڑکایا……
دراصل یہ وہی فلسفہ تھا، جو خون آلودہ تقسیم کی کوکھ سے پیدا ہوا تھا……
شاید یہ سچ بھی جلد ہضم نہیں ہوسکا کہ تقسیم سے پیدا ہوا ایک ملک تو اپنے
کلچر اور تہذیب کو لے کر، ’’جمہوریت‘‘ اور سیکولرازم کا دعویٰ ٹھوکتارہا،
وہیں دوسرے ملک نے جمہوریہ اسلام کا ’ٹھپّہ‘ لگاکر رہی سہی وفاداری اور
دوستی کی دیوار پر آخری کیل ٹھوک دی____ یہی نہیں جب اس جمہوریہ اسلام کہنے
جانے والے ملک سے بنگلہ دیش الگ ہوا…… تب، اس دوسرے ملک پر بھی اسلامی ملک
کا ٹھپّہ برقرار رہا____
آزادی کے بعد سے اب تک وشوہندو پریشد، ہندو مہاسبھا، یا شیوسینا جیسی
جماعتوں کے گلے سے اسلام کی ’ہڈی‘ نہیں نکلی ہے۔ آزادی کے بعد کی تاریخ میں
پڑوسی ملک کے تعلق سے جب کبھی کوئی واردات سامنے آئی ہے اسے فوراً اسلام سے
یا مسلمانوں سے وابستہ کرکے دیکھا گیا ہے…… نتیجے کے طور پر نفرت کی آندھی
کم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی گئی ہے……
آزادی کے بعد جن سنگھ کی مسلسل شکست نے مسلمانوں اور سیکولرازم کے خلاف نیا
مورچہ کھولنا شروع کیا۔ جن سنگھ کے نئے اوتار بھاجپا نے جن سنگھ سے سبق
لیتے ہوئے نئے طریقے سے کام کرنا شروع کردیا…… کام مشکل تھا۔ لیکن ٹھوس اور
کامیاب نتیجہ دینے والا ۔ اور جس رتھ کے مہارتھی اٹل بہاری، شری اڈوانی اور
مرلی جی جیسے دانشور ہوں، وہاں ’صبر‘ انتظار اور راج کرو، کے نظرئیے خود ہی
کام کرنے لگتے ہیں۔ رتھ یاترا، بابری مسجدشہید کیے جانے کے بعد سے ہی ’نئے
ہندوسمی کرن‘ بننے شروع ہوگئے تھے…… انہیں ’سمی کرنوں‘ سے کٹیار ،توگڑیا
اور مودی جیسے تیز دھار والے بے لگام شمشیروں کی تخلیق ہوئی تھی۔اب یہ ایسے
بے لگام گھوڑے بن چکے ہیں جن کی آواز اگر روکی نہیں گئی تو ملک کو ایک بار
پھر سخت مصیبت سے گزرنا پڑسکتا ہے۔آپ خود غور کیجئے، یہ ۲۰۰۲ کی ڈائری کے
صفحات ہیں اور آج کی بھاجپا کو اسی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کیجئے تو کہیں
کچھ نہیں بدلا۔ ہاں کچھ نئے نام ضرور اس فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔ |