جب سے ہوش سنبھالا ہے ایک بات وقت کے ساتھ ساتھ ذہن میں
اپنی جگہ قائم سی رہ گئی ہے کہ ہم پاکستانی صرف جوش دکھاتے ہیں کہ بھارت کے
ساتھ جنگ ہوئی تو یوں کر دیں گے یوں کر دیں گے ۔اگرچہ بہت سے معاملات میں
ہم نے گزشتہ تین جنگوں میں بھارت کے ناک میں دم کئے رکھا ہے مگر حقائق ظاہر
کرتے ہیں کہ ١٩٤٨ کی جنگ میں سیز فائر ہوا اورافواج پاکستان نے مجاہدین کے
ساتھ مل کر کشمیر کا کچھ حصہ آزاد کروالیا اگر اس وقت یہ معاہدہ نہ کرتے تو
آج پورا کشمیر ہمارا ہوتا، رہی بات ١٩٦٥ کی ہے تو زیادہ دیر جنگ رہتی تو
شاید ہم جو کامیابی کا دعوی کرتے ہیں وہ دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اگرچہ ہم
نے جنگ اخلاقی طور پر جیت لی مگر اس کا خاطر خواہ فائدہ دیکھنے کو نہیں ملا
کہ بعد ازں مغربی پاکستان ہم سے جدا ہی ہوگیا اب کوئی بتائے ١٩٦٥ کی جنگ
جیتنے والے افواج کے لوگوں کو اب کیا ہوا تھا حقائق کچھ بھی ہوں جنگ کبھی
بھی کسی مسئلے کا حل نہیں رہی ہے وگرنہ دو عالمی جنگوں کے بعد دنیا پر امن
ہو جاتی۔
پاکستان میں سب نوجوان دینی جذبے سے سرشار بھارت کو شکست دینے کا تو سوچتے
ہیں مگر اخلاقی طور پر اپنے ذاتی کردار میں اور مجموعی طور پر بے راہ روی
کا شکارہیں۔بہت کم ایسے ہیں جو کہ ظاہر و باطن ایک جیسا رکھتے ہیں۔بھارت
بنگلہ دیش بنوا کر بھی اپنا مقصد پورا حاصل نہیں کر سکا ہے۔ باقی ماندہ
پاکستان انشا اللہ قائم رہے گا مگر خاتمہ ممکن نہیں ہے کہ رمضان میں قائم
کردہ ملک یوں ہی ٹکڑے نہیں بوگا اپنی ساکھ کسی نہ کسی شکل میں قائم رہے گا۔
جنگ سے بہتر یہ ہوگا کہ بات چیت سے مسئلے کا حل تلاش کیا جائے اگر موقف
مضبوط دلائل پر منبی ہو تو جنگ مذاکرت کی ٹیبل پر جیتی جا سکتی ہے مگر ایسا
حکمران آئے تو ہی بھارت کے ساتھ مسائل اور کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا جو صرف
اور صرف پاکستان کا سوچئے فی الحال ایسے حکمران کا وجود دکھائی نہیں دیتا
اور جنگ محض انسانوں کے ضیاع کا سبب ہی دکھائی دے گی۔
پاکستان اور بھارت میں بیشتر عوام غربت سے دوچار ہے،وہاں کے عوام جنگ نہیں
چاہیتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے عوام اس کے متحمل ہو سکتے ہیں ،ہمارے
معاشی حالت پہلے ہی خراب ہے اگر جنگ ہوئی تو بہت ذیادہ نقصان ہو سکتا ہے جو
کہ مالی بھی ہوگا اورانسانی ضیاع تو اس جنگ کا ایندھن بنے گا۔ بہتر یہ ہوگا
کہ دونوں ممالک حقائق کا جائزہ لیتے ہوئے مذاکرات کر کے اپنے تمام تر مسائل
کے حل کی جانب بڑھیں اور مسئلہ کشمیر جب تک حل نہیں ہوگا اس وقت تک اس خطے
میں امن کا خواب پورا نہیں ہو سکتا ہے۔اگرچہ جارحیت کا جواب دیناتو فرض ہے
مگر حقیقت سے نظریں نہ چرائیں جاتئیں تو یہ بات واضح ہے کہ انتہا پسندعناصر
ہی جنگ کروا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ بہتر یہ ہوگا کہ جنگ کی
سے جتنا دور رہا جا سکتا ہے رہا جائے کیونکہ دو عالمی جنگوں کے بعد بھی
دنیا میں امن قائم نہیں ہوا ہے مزید ہی حالات خراب تر ہوئے ہیں اور اب بھی
یہی توقع ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں جانب کے حلقے امن کی جانب بڑھیں
تاکہ عوام کو امن مل سکے۔ |