قوم کو اہل حاکم دینے کی خاطر ایک بادشاہ نے جب انویہ
زیادہ پرانی بات نہیں، ایک چھوٹے سے ملک کے عادل و عاقل بادشاہ کا بڑھاپا
آن پہنچا۔ جب موت اس کے سر پہ منڈلانے لگی تو وہ سوچ بچار میں پڑ
گیا۔بادشاہ اپنے بعد کسی منصف مزاج اور عوام پرور شخص کو حکمران بنانا
چاہتا تھا تاکہ رعایا بدستور خوشحال اور مطمئن رہے۔ اولادکوئی نہ تھی لہٰذا
اس نے موزوں حاکم چننے کی خاطر انوکھا طریق اختیار کیا۔ بادشاہ نے منادی
کرائی کہ ریاست کے سبھی نوجوان محل میں جمع ہوجائیں۔ مقررہ دن ڈھائی تین سو
نوجوان محل کے سامنے چلے آئے۔ بادشاہ نے ان کا خیرمقدم کیا اور خطاب کرتے
ہوئے بولا : ’’نوجوانو!میں بوڑھا ہوچکا ۔ دنیا سے رخصت ہونے کا میرا وقت
قریب ہے۔ لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ جیتے جی ایک بہترین نوجوان کو بطور ولی
عہد منتخب کرلوں۔ یہ نیا حاکم تم نوجوانوں میں سے ہی چنا جائے گا۔ ‘‘ یہ سن
کر سبھی نوجوان پہلے تو حیرت زدہ ہوئے، پھر خوشی ان کے چہروں پر مثل نور
دمکنے لگی ۔ دانا و بینا بوڑھے بادشاہ نے اپنی بات جاری رکھی: ’’آج میں تم
سب کو ایک ایک بیج دوں گا۔ ہر نوجوان بیج گھر لے جاکر بوئے اور اسے پانی دے۔
بیج میں سے جو کچھ پھوٹے ، ایک سال بعد اسے یہاں لے آئے۔ میں سبھی پودوں کا
معائنہ کرنے کے بعد فیصلہ کروں گا کہ اگلا حکمران کون ہوگا۔ ‘‘ نوجوانوں
میں فہیم نامی نوجوان بھی موجود تھا۔ اسے بھی ایک بیج ملا۔ وہ عالمِ مسرّت
میں گھر پہنچا اور سارا قصّہ ماں کو سنایا۔ ماں نے اسے زرخیز مٹی سے بھرا
گملا دیا تاکہ بیٹا اس میں بیج بوسکے۔ فہیم نے شاہِ وقت سے ملا بیج بویا
اور روزانہ اسے پانی دینے لگا۔ فہیم گملے کی خوب دیکھ بھال کرتا۔ ہرصبح اٹھ
کر دیکھتا کہ بیج سے کونپل پھوٹی یا نہیں؟ محلے کے دیگر تین چار نوجوانوں
کو بھی بیج ملے تھے۔ چند ہفتے بعد وہ خوشی خوشی دوسروں کو بتانے لگے کہ ان
کے بیج پھوٹ پڑے ۔ یہ باتیں سن کر فہیم کچھ دل گرفتہ ہوا کیونکہ اس کا گملا
اب تک خالی تھا۔ تاہم اس نے ہمت نہ ہاری اور بیج کو پانی دیتا رہا۔ چار،
پانچ ، چھ ہفتے گزر گئے، بیج سے کوئی سبزہ نہ پھوٹا۔ تب تک دوسرے نوجوانوں
کی کونپلیں پودوں میں ڈھل گئیں۔ یہ دیکھ کر فہیم مایوس اور پژمردہ ہوگیا ۔
اسے اپنی ناکامی پر بڑا افسوس تھا۔ چھ ماہ گزر گئے اور اس کا گملا سُونا ہی
رہا۔ وہ جان گیا کہ اس کا بیج دم توڑچکا۔اُدھر دوسروں کے گملوں میں ہمہ رنگ
پودے اگ آئے ۔ بعض پر تو پھول بھی کھلنے لگے۔ فہیم نے تاہم دوستوں کو کچھ
نہ بتایا اور کسی کرشمے کا منتظر رہا۔ ایک سال گزرگیا۔ تب بادشاہ نے بیج لے
جانے والے سبھی نوجوانوں کو محل کے سامنے طلب کرلیا۔ وہ اپنے اپنے پودے لیے
وہاں پہنچنے لگے۔ فہیم کا گملا تو خالی پڑا تھا۔ پہلے اسے خیال آیا کہ محل
جانا بیکار ہے۔ پھر سوچا کہ خالی گملا لیے ہی چلا جائے۔ بادشاہ نے کچھ
پوچھا، تو سچائی بیان کردے گا۔ چنانچہ وہ خالی گملا لیے محل پہنچا۔ وہاں
نوجوان رنگ برنگ پودے لائے ہوئے تھے۔ ان کے تنوع نے فہیم کو حیران کردیا۔
اُدھر نوجوانوں نے خالی گملا دیکھا تو فہیم پر پھبتیاں کسنے اور اس کی ہنسی
اڑانے لگے ۔ وہ اپنا خالی گملا ہاتھوں میں تھامے سب سے پیچھے جا کھڑا ہوا۔
فہیم کو ناکامی پر افسوس تھا، مگر یہ اطمینان بھی کہ اس نے اپنی طرف سے
بھرپور سعی کی تھی کہ بیج برگ وبار لے آئے۔ جب بادشاہ نوجوانوں کے سامنے
پہنچا، تو وہ بھی نوع بہ نوع پودے دیکھ کر محظوظ ہوا۔ بولا :’’ واہ نوجوانو!
تم نے توبیجوں سے قسم قسم کے پودے پھول اگا لیے۔ میں سب کا جائزہ لینے کے
بعد تم میں سے کسی کو ولی عہد بنائوں گا۔ ‘‘ یہ کہہ کر بادشاہ ہرنوجوان کے
پاس جانے لگا ۔ یہ دیکھ کر فہیم نے چھپنا چاہا مگر بادشاہ کی نگاہ آخر کار
اس کے سُونے گملے پہ پڑہی گئی۔ وہ نوجوانوں کے مجمع میں ایسا انوکھا گملا
رکھنے والا اکلوتا نوجوان تھا۔ عجیب بات یہ کہ بادشاہ اسے دیکھتے ہی رک گیا۔
پھر پلٹا، اپنی نشست پر جا بیٹھا اور اپنے محافظوں کو حکم دیا کہ وہ فہیم
کو اس کے پاس لے آئیں۔ فہیم نے محافظوں کو اپنی طرف آتے دیکھا، تو کچھ
گھبرا گیا۔ سوچا کہ شاید خالی گملا لانے پر بادشاہ اسے سزادینا چاہتا
ہے۔اسی دوران شاہی محافظ سرپہ پہنچ گئے۔ فہیم کچھ جھجکتا بادشاہ کے روبرو
پہنچا۔ اس نے نام پوچھا، فہیم نے بتایا۔ تب سارے نوجوان اس کے خالی گملے کی
طرف دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ کوئی مزاحیہ جملہ بھی اچھال دیتا۔ یہ شورشرابا
دیکھ کر بادشا ہ بآواز بلند بولا : ’’نوجوانو!خاموش ہوجائو۔ اس وقت تمہارے
سامنے تمہارا نیا حاکم کھڑا ہے۔‘‘ یہ سننا تھا کہ سارے نوجوانوں کو جیسے
سانپ سونگھ گیا۔ وہ خاموشی سے آنکھیں پھاڑے فہیم کو دیکھنے لگے۔ وہ بھی
مبہوت بنا کھڑا تھا۔ وہ بیج سے کچھ اگا نہیں سکا تھا، پھر بھی اسے ولی عہد
بنادیا گیا۔ یہ حیرت انگیزماجرا کیونکر رونما ہوا ؟ تبھی اسے بادشاہ سلامت
کی آواز آئی ۔ وہ کہہ رہا تھا : ’’سال قبل میں نے یہاں موجود تمام نوجوانوں
کو ایک ایک بیج دیا تھا۔ اور کہا تھا کہ اسے بوئو، پانی دو اور جو کچھ اُگے،
سال بعد میرے پاس لے آئو۔ لیکن وہ سب ناکارہ بیج تھے، ان سے کچھ اگانا ممکن
نہ تھا۔ مگر فہیم کے سوا تم سب میرے پاس ہمہ رنگ بیل بوٹے لے آئے۔ تم سب نے
جب دیکھا کہ میرے بیج سے کچھ نہیں اگا، تو نئے بیج لیے اور ان سے پودے
اگالیے۔ فہیم واحد نوجوان ہے جس میں اتنی دلیری اور دیانت داری ہے کہ وہ
میرے بیج والا خالی گملا لیے یہاں پہنچنے کی ہمت کرسکا۔ اسی لیے میں اسے ہی
نیا بادشاہ مقرر کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ ‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم درج بالا داستان یا
حکایت کا سبق بخوبی واضح کرتاہے ۔ صحیح بخاری میں درج ہے، حضوراکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’سچائی ودیانت داری انسان کو باتقوی بناتی ہے
اور تقوی اسے جنت تک پہنچا دیتا ہے۔ تب انسان مسلسل سچ بولتا ہے ، یہاں تک
کہ سچا آدمی بن جاتا ہے۔ جبکہ جھوٹ بولنا انسان کو گناہ گار بناتا ہے اور
گناہ اسے دوزخ میں پہنچا دیتا ہے۔ تب انسان مسلسل جھوٹ بولتا ہے، یہاں تک
جھوٹا آدمی بن جاتا ہے۔‘‘ ٭…٭…٭ |