عالمی عدالت جنرل سیسی پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلائے...
مصرمیں مسلمانوں کی نسل کشی میں اسلام دشمن امریکا ملوث ہے ، اوراِن دِنوں
مصر میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اِس کا ذمہ دارکوئی اور نہیں صرف اور صرف
امریکا ہے ، عالمی عدالت امریکی پِٹھوجنرل سیسی پر جنگی جرائم کا مقدمہ
چلائے ، اگر عالمی عدالت نے ایسانہ کیا ، تویہ سمجھاجائے گاکہ عالمی عدالت
امریکی رکھیل ہے ، جو جب اور جس طرح چاہتاہے ، اِس اپنی رکھیل عالمی عدالت
کا بلد کارکردیتاہے ، ایسے میں عالمی عدالت جو چاہئے کہ وہ اُمتِ مسلمہ کے
مطالبے پر فوری طور پرعمل کرے اور جنرل سیسی اور امریکا پر جنگی جرائم کا
مقدمہ چلائے،اگرعالمی عدالت نے ایسانہ کیا آج جسکا مطالبہ اُمتِ مسلمہ
کررہی ہے ،تو عالم اسلام عالمی عدالت کے خلاف بھی سراپااحتجاج بن جائیں گے۔
دنیا کا دہشت گردِ اعظم وہ امریکا جِسے دوسروں کے دامن پر لگے داغ تو خُوب
دکھائی دیتے ہیں مگر اپنی آنکھ کا تنکا نظرنہیں آتاہے قبل اِس کے کہ میں
مزید کچھ عرض کروں یہاں یہ کہناچاہوں گا کہ اگرمیں یہ کہوں تو شاید کوئی
بُرانہ ہوکہ اِس روئے زمین پر بسنے والے بیشتر انسا نوں کی اپنی ایک فطرت
ہے، اپنی ایک سوچ ہے،اپنی خصلت ہے اور اپنا ایک نظریہ ہے، یوں یہ اپنی موت
سے بے خبر ہوکر زندگی گزاررہے ہیں، اورآج کے انسان میں اِن تمام باتوں کے
علاوہ بھی جوواحد خصلتی نقطہ مشترک ہے وہ یہ ہے کہ یہ اپنی اصلاح کرنے کے
بجائے دوسروں کی عیب بینی کرنااپنے لئے بڑافخرمحسوس کرتاہے ،اورجب اِسے
کوئی عیب مل جاتاہے تو پھر اِس عیب کو سچاکردکھانے کے لئے یہ اُس حدکو بھی
پہنچ جاتا ہے، جہاںپہنچ کر یہ دنیا کا امن و سکون داو ¿ پر لگادیتاہے یعنی
اِس کا یہی وہ واحد خصلتی نقطہ ہے جواِسے دوسرے انسان سے جہاں مماثل کرتاہے
،تووہیںاِس کی ذات پر کئی سوالیہ نشان بھی لگوادیتاہے ،اِس خصلت میں
مبتلااِنسان خواہ کسی مُلک کا حکمران ہو یا عام شہری اِس کی کوشش ہوتی ہے
کہ وہ ہرصورت میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو، اِس کے لئے خواہ اِسے کچھ بھی
کیوں نہ کرناپڑجائے، اور کسی بھی حد کو کیوں نہ پھلانگنا پڑے،مگر اِس کا
مشن ہرحال میں کامیاب ہوجائے، آج ایسے فعلِ شنیع میں مبتلالوگ ہی ہیں جو
دنیا کو آگ و خون کی جنگ کی جانب تیزی سے دھکیل رہے ہیں ،دورِ جدید کے
اِنسانوں کو اپنی آنکھ میں چھباہوا تنکا تو نظرنہیں آتاہے،مگر اِنہیں اپنے
سامنے والے کے دامن پرلگاداغ ضرورصاف دکھائی دے رہاہوتاہے ۔
آج کا اِنسان دوسرے کی برائیوں میں لفظوں اور جملوں کے تالاب تو بہادیتاہے،
مگراپنے گربیان میں جھانکناگوارہ نہیں کرتاہے کہ اپنے گریبان کے نیچے چھپے
ہوئے سینے کو بھی ذرادیکھ لے کہ اِس سے میل اور غلاظت کی کتنی موٹی تہہ
چمٹی ہوئی ہے، اگرآج یہ ایساکرلے تو دنیا میں امن و آشتی کے قیام کی تھوڑی
سے اُمیدضرور پیداہوجائے مگر شاید اِسے اپنی یہ میل کُچیل نظرنہیں آتی
ہے،یایہ اپنے چہرے پر سجی اپنی انادارناک کے دائیں بائیں کھلتی بندہوتی ،
اور ماتھے کے ذرانیچے لگی اپنی چمکدار آنکھوں سے اپنے عیبوں کو دیکھنا ہی
نہیں چاہتاہے۔
آج کامصروف انسان زندگی کے کینوس کو سمجھے بغیر اِسے کسی ریگستا ن میں
اُڑتی ریت کی طرح گزاررہاہے، جبکہ زندگی وہ نعمت ہے، جو موت کی امانت ہے،
اِس کی سانس کی ڈوری ٹوٹتے ہی اِس سے موت اپنی امانت لے لیتی ہے، اور انسان
زمین پر ایک گوشت کے لوتھڑے کے مانندپڑارہتاہے،پھر عزیز واقارب اپنے اپنے
مذہبی رسومات کی ادائیگیوں کے بعد اِسے اپنی نظروں سے اوجھل کردیتے ہیں،
یوں اِس اِنسان کا خاتمہ ہوجاتاہے، اور ایساکوئی آج ہی نہیں بلکہ ازل سے
ہوتاچلاآرہاہے ،جو جب تک زندہ رہااِس نے اپنی اصطلاح کرنے کے بجائے، دوسروں
کے دامن پر لگے داغ دھبوں اوردوسروں کی برائیوں کودنیا والوں کے سامنے
اُجاگرکرنااپنا اعزازجانااور دنیا میں فتنے فساد کو جنم دینے میں رول
اداکرتارہا، اوریوں بالآخر اِس پرایک وقت ایسابھی آیا کہ جب یہ انسان اپنے
ایسے ہی اعمال کے ساتھ دنیا چھوڑگیا۔
داناکہتے ہیں کہ”انسانی زندگی کا ہر ایک دن اِس کی تاریخ کا ورق ہے،
اِنسانی کی زندگی ایک بڑے کینوس کے مانند ہے، اِنسان اپنے اِس کینوس پر
جتنے بھی رنگ بکھیرناچاہئے ، بکھیرسکتاہے، خواہ وہ رنگ جیسے بھی ہوں، اور
جتنے بھی حسین اور جتنے بھی بدنماکیوں نہ ہوں، بس اِنسان اِن کا خود ذمہ
دار ہے۔
ایمرسن کا انسان اور انسانی زندگی کے بارے میں کہناہے کہ”زندگی اتنی بھی
چھوٹی نہیں ہوتی ہے کہ اِنسان کو اچھے کام کرنے کا موقع نہ دے“انسان کی
جتنی بھی زندگی ہوتی ہے، اِسے اپنی زندگی کے عرصے کے دوران زیادہ تر یہ
کوشش جاری رکھنی چاہئے کہ وہ اچھے کام کرتارہے، معلوم نہیں اِس کی زندگی
اگلے لمحے اِس کا ساتھ دے یا ساتھ چھوڑجائے،یعنی یہ کہ اِنسان کو ربِ
کائنات اللہ رب العزت نے اِسے جو زندگی دی ہے، وہ صرف اِس مقصد کے لئے دی
ہے کہ اِس کا ہر بند ہ جب اِس کے پاس واپس جائے تو وہ اپنے ساتھ اچھے اور
تعمیری کاموں کی ایک لمبی فہرست لے کا حاضرہو،مگر ایسانہیں ہے، آج کے انسان
نے اِن تمام باتوں کو فراموش کردیاہے، وہ خداکی زمین پر خداہونے کا دعویدار
بن گیاہے، وہ یہ بھول گیاہے، کہ اِس کی عنقریب فناہے،مگر پھر بھی وہ ایسے
کاموں میں مصروف ہے ، جو اِسے اللہ کے کسی عذاب کی پکڑ سے نہیں بچاسکتے ہیں
،اور عنقریب وہ دن ضرورآنے والاہے، جب خداکی جانب سے عذاب نازل ہوگا، اور
امریکا جیسادہشت گرد مُلک جلد تباہ ہوجائے گا۔
اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج امریکا دنیا کا وہ واحدظالم جابر وفاسق اور
دہشت گردِ اعظم مُلک ہے ، جس کے اِنسان نما مگر بھیڑے حکمرانوں کو اپنے
گریبانو ں میں جھانکنے کی مہلت نہیں مل رہی ہے،کہ اِنہیں یہ احساس ہو کہ یہ
لوگ دنیا کے کتنے بڑے دہشت گرد ہیں اوراُمت مُسلمہ کے لئے ڈریکولا نما
اِنسان ہیں جنہیں دوسروں کے دامن پر لگے(دہشت گردی کے) داغ دھبے تو دکھائی
دے رہیں ، مگراِنہیںاپنی(بقا و سالمیت کی آڑ میں جاری) دہشت گردی ، اور
اِنسانیت سوز مظالم نظر نہیں آرہے ہیں، جو اِن امریکیوں نے اپنی زندگیوں کو
طویل کرنے کے خاطر مسلم اُمہ میں شروع کررکھے ہیں یعنی آج امریکی کہیں
جمہوریت کو پروان چڑھانے کے خاطر اِنسانوں کو انسانوں کے خلاف بھڑکا کر
شیطانیت اور انارگی پھیلانے کی جانب راغب کررہے ہیں ، تو کہیں یہی امریکی
ہیں جو دنیا کو دہشت گردوں کی دہشت گردی سے پاک رکھنے کے خاطر ڈرون حملے
اور خود کش حملے کرواکر اِنسانوں کا گوشت چپا رہے ہیں،شاید بہت عرصے قبل
یزد نے اِن ہی امریکیوں کے لچھن دیکھ کر اِن کے لئے یہ کہہ دیا تھا کہ” اے
آدم کے بیٹو..!اپنے بھائیوں کو اپنے ہاتھوں سے ذلیل وخواررنہ کرو، کیوں کہ
میں نے دیکھاہے کہ پاگل کُتے بھی اپناگوشت خودنہیں چباتے“۔
آج دنیا نے امریکیوں کی دوغلی اور منافقانہ پالیسی بھی دیکھ لی ہے کہ
اِنہوں نے مصر میں30جون2012کو( اخوان المسلموں کے بہادر سپوت اور امریکیوں
کو نکیل ڈالنے والے )محمدمُرسی کی آنے والی جمہوری حکومت کے پچھلے دِنوں کس
طرح پڑخچے اُڑائے ہیں اور مصرپر آمریت کاڈانڈاکس انداز سے اپنے پٹھو جنرل
کے ہاتھوںلہرایا ہے یہ بھی اِن امریکیوں کا ہی کارنامہ ہے،جو جب اور جہاں
چاہیں، کسی کے دامن پر لگے کسی بھی داغ کوہَوّا بناکرقیامت برپاکرسکتے
ہیں،آج امریکیوں نے مصر میں جوکچھ کیا ہے، یہ امریکی داداگیری اور اِس کی
غنڈھ گردی کے مترداف ہے، اِس نے مصر میں جو گھناو ¿نا کھیل کھیلاہے،اَب اِس
سے یہ ضرورواضح ہوگیاہے کہ یہ دنیا میں اسلام اور اسلامی تعلیمات کو
پلتاپھولتا نہیں دیکھ سکتاہے، مسلم اُمہ سے تعلق رکھنے والی کسی بھی شخصیت
نے اِس کے نظریئے، اِس کی فطرت اور اِس کی خصلت کے خلاف سراُٹھایایا زبان
کھولی تو یہ اِس کے دامن پر لگے کسی بھی داغ کو جواز بناکراِس کا ایساہی
حشرکردے گاجیسا اِس نے اخوان المسلموں کے بہادر سپوت اپنے آگے اسلامی
نظریات کے پرچارکرنے والے مصری صدر محمدمُرسی کا کردیا ہے،جبکہ یہاں یہ
امرقابلِ ذکرضرور ہے کہ آج مسلم اُمہ یہ بات اچھی طرح سے جانتی ہے کہ مُرسی
ایک کٹر پکے اور سچے مسلمان مصری حکمران تھے، امریکا نے ایک سازش کے تحت
اِن کے ساتھ جوکیا وہ سب غلط ہے مگرافسوس ہے کہ اپنے اپنے اقتدار سے چمٹے
مسلم ممالک بالخصوص سعودی عرب ، پاکستان ، ایران اورانڈونیشیاکے حکمران
امریکا کے سامنے سینہ سپرہونے سے یوں ہی ڈررہے ہیں کہ کہیں امریکا کو اِن
کے دامن پر لگاکوئی داغ نظرنہ آجائے اور یہ اِن کا حشر بھی محمدمُرسی
جیسانہ کردے..تواِن کے لئے عرض ہے کہ یہ ہمت کریں اور مصرکی موجودہ حالات
میں مسلمانوں کی نسل کشی کورکوانے کے لئے آگے بڑھیں تو امریکا اِن کے اِس
اتحاداور یکجہتی کو دیکھ کر ہی ہواس باختہ ہوجائے گا، اور اپنے پِٹھوجنرل
سیسی کو مصر میں مسلمانوں کی نسل کشی کرنے سے روک دے گا، اور چیخ پڑے گاکہ
بھاگو....بھاگو جلدی بھاگو اَب اُمتِ مسلمہ جاگ اٹھی ہے۔اور اَب ہماری
خیرنہیں ہے۔ |