سندھ میں بلدیاتی نظام کا تماشا جاری

سندھ اسمبلی میں نئے بلدیاتی نظام کا بل کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا ہے ۔مجوزہ بلدیاتی قانون کے مطابق کراچی، حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ میں میٹروپولیٹن کارپوریشن ہوں گی۔ کراچی میں پانچ ضلع کاؤنسلوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا اور سندھ کے دیگر اضلاع میں ضلع کاؤنسل اور تحصیل سطح پر تحصیل متعلقہ کاؤنسل قائم کی جائیں گی۔ اس مجوزہ قانون کے مطابق کاسموپولیٹن اور میٹروپولیٹن کے سربراہ میئر اور ڈپٹی میئر جبکہ ضلعے کاؤنسل، تحصیل کاؤنسل اور یونین کاؤنسل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین ہوں گے۔یونین کاؤنسل بنیادی اکائی ہوگی، جو چیئرمین، وائس چیئرمین، چار عام نشستوں، کسانوں یا مزدوروں، عورتوں، اور اقلیتوں کے لیے ایک ایک نشست مختص ہوگی۔ضلعے کاؤنسل اور میٹروپولیٹن میں 22 فیصد نمائندگی خواتین، 5 فیصد اقلیتوں اور5 فیصد مزدوروں اور کسانوں کو دی جائے گی۔ ان بلدیاتی حکومتوں کی مدت چار سال ہوگی اور امیدوار کی عمر کم سے کم 21 سال مقرر کی گئی ہے۔ صوبے کی سرکاری جامعات کے وائس چانسلروں کے تقرر کا اختیار گورنر کی بجائے وزیراعلیٰ کو سونپ دیا گیا۔ اس سے قبل گورنر وائس چانسلروں کی تقرری کرتے تھے۔

سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی جنرل ضیاالحق کے دور میں 1979 میں متعارف کرائے گئے بلدیاتی نظام اور متحدہ قومی موومنٹ جنرل پرویز مشرف کے دور کے بلدیاتی نظام کی حامی رہی ہیں۔ اس سے پہلے دو بار یہ قانون اسمبلی سے منظور کیا گیا۔ آخری بار گزشتہ حکومت میں پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی باہمی رضامندی سے یہ قانون منظور ہوا۔مسلم لیگ فنکشنل، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور قوم پرست جماعتوں نے اس قانون کو مسترد کیا تھا اور اس کے خلاف کئی روز تحریک چلائی گئی۔ معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا اور عدالت نے حکمِ امتناعی جاری کر دیا، جس کے بعد حکومت نے وہ قانون واپس لے لیا۔ پاکستان میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام کی مدت سال 2008 میں پوری ہونے کے بعد بلدیاتی انتخابات نہیں ہو سکے۔چاروں صوبائی حکومتیں اس نظام میں تبدیلی کی خواہشمند تھیں، بالآخر سپریم کورٹ نے فوری انتخابات کرانے کے احکامات جاری کیے، جس کے بعد صوبوں نے تیاری شروع کی۔
پیر کے روز سندھ اسمبلی میں کثرت رائے سے بل منظور ہوا ، مسلم لیگ(ن)، تحریک انصاف،فنگشنل لیگ نے بل کی حمایت کی، جبکہ ایم کیو ایم نے مخالفت کی اور سخت احتجاج کی دھمکی بھی دی ہے۔بل پیش ہونے کے بعد ایم کیوایم کے ارکان نے احتجاج کیا اور اسمبلی میں شیم شیم کے نعرے لگائے۔ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے بلدیاتی نظام کو مسترد کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی 1973 سے شہری اور دیہی فرق بڑھاتی آئی ہے۔ وہ سندھ کو تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے سندھ میں برطانوی راج نافذ کر دیا۔ پیپلز پارٹی کی تقسیم کا آغاز ہو گیا۔ پیپلز پارٹی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا ہم نے پیپلز پارٹی کا 5 سال ساتھ دیا آج یہ صلہ ملا ہے۔سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ قانون کو آئین کے تابع ہونا چاہیے اور آئین کے آرٹیکل 140 میں واضح ہے کہ مقامی حکومتیں وہ ہوں جن کے پاس، سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات ہوں لیکن یہ ذمہ داریاں 1979 کا نظام یا مجوزہ نظام نہیں دیتا۔ فیصل سبزواری نے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ کا موقف ہے کہ مقامی حکومتوں کو توانا اور مو ¿ثر ہونا چاہیے، جو گزشتہ مقامی حکومتیں رہی ہیں، عوام کی خواہش بھی یہ ہی ہے۔ایم کیو ایم کے رہنماءسردار احمد نے کہا کہ 1979 کا قانون فوجی ڈکٹیٹر کا قانون ہے۔ جو بل ہمیں دیا گیا اور جو بل اسمبلی میں پیش کیا گیا اس میں کوئی مماثلت نہیں ہے اور نہ ہی قانون کے مطابق ہے۔نئے بلدیاتی نظام میں شہری و دیہی علاقوں میں برطانوی راج کی طرح تقسیم کی گئی۔ یہ اصول تو انگریزوں کا ہے کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ بل 1979 ءکے بلدیاتی نظام کا چربہ ہے۔ اکثریت کسی کی بھی ہو وہ اقلیت کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔

دوسری جانب سندھ اسمبلی سے خطاب میں پیپلزپارٹی کے رہنما صوبائی وزیر نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ بل سے متعلق تمام جماعتوں سے بات چیت کی۔ لوکل بل کی تمام کاپیاں ارکان کو دی گئی ہیں اور کئی جماعتوں کی تجاویز کو بل میں شامل کیا گیا۔ لوکل گورنمنٹ بل کو ویب سائٹ پر بھی جاری کر دیا گیا تھا۔ نئے بلدیاتی نظام کا بل کسی آمر کا نہیں ہے۔ صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ کافی مثبت اور کارآمد تجاویز سامنے آئی ہیں، ان سب کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک بہتر قانون بنانے کی کوشش کی ہے۔ تمام جماعتیں اس قانون پر متفق ہیں۔ اگر ایک جماعت کو اعتراض ہے تو یہ اس کا حق ہے، جمہوریت میں کسی کو زبردستی قائل نہیں کیا جاسکتا۔جمہوری دور میں جماعتی بنیادوں پر ہی انتخابات ہونے چاہئیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جو جماعتیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں جماعتی بنیادوں پر شرکت کرتی ہیں کیا وجہ ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر چاہتی ہیں۔ شرجیل میمن نے کہا کہ اس نظام کے تحت ہم عوام کی بہتر خدمت کر سکیں گے۔بل منظور ہونے پر عوام کو مبارکباد دیتا ہوں۔

یاد رہے کہ ایک زمانہ بیت گیاسندھ میں نظام کے حوالے سے سندھ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں میں دھینگا مشتی جاری ہے۔ 31 دسمبر 2010ءکے بعد سندھ میں کئی بار نظام تبدیل کیا گیا ہے۔ 31 دسمبر 2010 تک جنرل پرویز مشرف والے سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس (ایس ایل جی او)2002ءکو آئینی تحفظ حاصل رہا اور سندھ میں شہری ضلعی حکومتوں کا نظام نافذ رہا۔ یکم جنوری 2011ءکو ایس ایل جی او از خودغیر موثر ہوگیا اور پرانا ایس ایل جی او 1979ءبحال ہوگیا لیکن پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) کی باہمی رضامندی سے جنرل پرویز مشرف والے نظام کو آرڈیننس کے ذریعہ 8 جولائی 2011 تک جاری رکھا گیا اور 7 اگست 2011ءکو سندھ میں دو بلدیاتی نظام نافذ کرنے کا آرڈیننس جاری کردیا گیا جس کے تحت کراچی میں ایس ایل جی او 2002ءوالا نظام دوبارہ بحال کیا گیا جبکہ سندھ کے دیگر اضلاع کے لیے ایس ایل جی او 1979ءوالا بلدیاتی نظام برقرا رکھا گیا، اس دہرے بلدیاتی نظام کے خلاف سندھ بھر میں زبردست احتجاج ہوا اور ایک ہی دن میں یہ آرڈیننس واپس لے کر 8 اگست 2011 کی صبح ایک نیا آرڈیننس جاری کیا گیاجس کی مدت 6 نومبر 2011ءکو ختم ہوگئی اور ایس ایل جی او 1979ءوالا نظام بحال ہوگیا اور 10 ماہ بعد 7 ستمبر 2012ءکو گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے سندھ پیپلزلوکل گورنمنٹ آرڈیننس (ایس پی ایل جی او)2012ءجاری کیا۔ یکم اکتوبر 2012ءکو سندھ اسمبلی نے اس آرڈیننس کو قانون کی شکل دینے کے لیے قانون منظورکرلیا اور یہ سندھ پیپلزلوکل گورنمنٹ ایکٹ (ایس پی ایل جی اے) 2012ءبن گیا جسے 21 فروری 2013 کو منسوخ کردیا گیا اور ایس ایل جی او 1979ءبحال ہوا۔سندھ میں نظام کی تبدیلی کا یہ سلسلہ تاحال جاری و ساری ہے۔کبھی ایک نظام لاگو ہوتا اور کبھی دوسرا۔کبھی ایک جماعت شور مچاتی اور کبھی دوسری جماعت۔ کسی کو معلوم نہیںہوتا کہ کب موجودہ نظام بدل دیا جائے گا۔جیسے کہا جاتا ہے کہ لندن میں موسم اور بیوی کا کوئی اعتبار نہیں کہ کب بدل جائیں، بالکل اسی طرح کراچی کے نظام کے بارے میں بھی یہ کہنا درست ہوگا کہ اس کا کوئی اعتبار نہیں کہ کب بدل دیا جائے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ سارا یہاں کی سیاسی جماعتوں کا تماشا ہے۔ سندھ میں عوام کو بے وقوف بنانے کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔یہ سب ملی بھگت سے ہورہا ہے۔ کبھی ایک نظام اور کبھی دوسرا نظام۔جیسے کوئی مداری ڈگڈگی بجا کر تماشا دیکھنے والوں کو مصروف رکھتا ہے اور بعد میں ان سے داد وصول کرتا ہے ۔اپنی اپنی سیاست چمکانے کے لیے اسی قسم کا تماشا سندھ میں عوام کو دکھایا جارہا ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 712756 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.