مصنوعی بالوں اور سعودی شیخوں کیساتھ روابط کے حوالے سے
مشہور پاکستانی وزیراعظم نے قوم سے اپنے خطاب میں انتظامی اداروں ایجنسیوں
اور عدالتی نظام کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے خود کو
دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کا اہل ثابت نہیں کیا اور ان کے بقول حالات
اندازوں سے بھی زیادہ خراب ہیں پانچ سال میں لوڈشیڈنگ خاتمے کی نوید سناتے
ہوئے ان کا کہنا تھا کہ قرضے چودہ ہزار پانچ سو ارب ہوگئے ہیں اور اگر مزید
قرضہ نہ لیا تو ملک دیوالیہ ہوسکتا ہے ڈھائی ماہ سے وزیراعظم کی حیثیت سے
بیرون ملک دورے کرنے والے لیڈر کو آخرکار قوم سے خطاب کا خیال آہی گیااپنے
پہلے ہی خطاب میں انہوں نے سابق حکمرانوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ
یہ حال ان کی وجہ سے ہوا ہے انہوںنے اپنی تقریر میں غریبوں اور بیروزگاروں
کو روزگار کے بجائے لاکھوں افراد کو گھروں کا مالک بنانے کا بھی اعلان کیا
ہے جس کیلئے قوم کو اکتوبر تک انتظار کرنا پڑے گا -یہ ہے خادم پاکستان کی
پہلی تقریر جس نے دہشت گردی مہنگائی بیروزگاری سیلاب زدہ قوم کوناامیدی کی
اس کھڈے میں پھینک دیا ہے جہاں سے نکلنا شائد ممکن ہی نہ ہو سابق دور حکومت
میں فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والے لیڈر اور موجودہ وزیراعظم نے
قوم سے مزید قربانی کی اپیل بھی کی ہے حالانکہ انہیں پتہ ہے کہ یہ بھوکی
ننگی قوم جس رفتار سے قرضوں کا شکار ہورہی ہیں اگر رفتار اسی طرح رہی توآج
جو پاکستانی81 ہزار روپے کا قرضدار ہے وہ ان کی حکومت کے جانے تک 81 لاکھ
روپے تک پہنچ جائیگی کیونکہ عیاشیوں کیلئے قرضے تو عوام کے نام پر لئے جاتے
ہیں لیکن اس پر خرمستیاں ان کے بچے کرتے ہیں-بیرون ملک دوروں پر یہ لوگ
اپنے خاندانوں کو لے جاتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے انہیں اپنی ریاست اور
اس کے عوام سے کتنی محبت ہے اگر پہلے والے چور تھے تو چوروں کیساتھ آپ نے
کیا کیا کسی کو سرعام پھانسی دی یا اب مک مکا والا سلسلہ چل رہا ہے -
اداروں کو ہدف تنقید بنانے والے لیڈر شائدسیاستدانوں اور ان میں شامل اپنے
آپ کو بھول گئے ہیں جن کی وجہ سے آج قوم کو یہ سنایا جارہا ہے کہ اگر قرضے
نہیں لئے تو ہم دیوالیہ ہونے کو قریب ہیں-رائے ونڈ میں 20 کنال کے مالک
خادم پاکستان کی گیارہ شوگر ملیں 2900 ملین روپے کی پندرہ انڈسٹریل سٹیٹ
لندن میں فلیٹس جن کی مالیت 30 بلین روپے بتائی جاتی ہیں پانچ بلٹ پروف
گاڑیوں کے مالک سعودی عرب دبئی اور استنبول میں سٹیل ملز کے مالک1766
ملازمین رکھنے والے غریب وزیراعظم کا یہ حال ہے کہ قوم سے مزید قربانی مانگ
رہے ہیں کسی زمانے میں قرض اتارو ملک سنوارو کے نام پر اربوں روپے ہضم کرنے
والے حکمرانوںنے حکومت میں آتے ہی سرکلر ڈیڈ کی مد میں اربوں روپے آئی پی
پیز کو ادا تو کردئیے لیکن اس کا بوجھ بھوکی ننگی عوام سے کس طرح نکالا
جارہا ہے یہ تو اگلے چند ماہ میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہونیوالے
اضافے اور ساتھ میں مارکیٹ میں مخصوص اشیاء کے مصنوعی بحران سے مکمل کرلیا
جائیگا- لیکن اس ملک کے غریب عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اپنے چہیتوں کو
نوازنے کیلئے کیا اس ملک کے ہمارا خون نچوڑنا بہت ضروری ہے -
سرکاری مشینری کو اپنے رشتہ داروں کیلئے استعمال کرنے والے وزیراعظم کو یہ
توفیق نہیں کہ آغاز اپنے آپ سے کریں اور اربوں روپے جو اس ملک کے غریب عوام
سے نکالے گئے ہیں حکومتی خزانہ میں جمع کروا کر پھر قوم سے قربانی کی امید
رکھے - کسی زمانے میں اپنے آپ کو زبانی کلامی امیر المومنین قرار دینے والے
حکمران کو خلافت راشدہ کی مثال ذہن میں رکھنی چاہیے جس میں حضرت عمر فاروق
رضی اللہ تعالی عنہ جیسی شخصیت کو خلیفہ بننے کے بعد اخراجات کیلئے بیت
المال سے صرف دو وقت کا کھانا ہی ملتا ہے یہ وہی امیر المومنین ہے جنہوں نے
بلوچستان تک اپنی حکومت کو توسیع دی اور اپنے بعدخلافت کیلئے اپنے بیٹے کا
نام دینے سے انکار کیا کہ جوبوجھ میں اٹھا چکا ہو ں نہیں چاہتا کہ میرا
خاندان بھی اسی بوجھ کا شکار ہو کیونکہ انہیں یقین تھاکہ ان سے ان کے اعمال
کی پوچھ گچھ ہوگی یا پھر انہیں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی مثال
لینی چاہیے جو اپنے دور میںمالدار ترین شخص تھا اورمختلف اوقات میںجنگوں
کیلئے گھوڑے اور جنگی سامان فراہم کیا کرتا تھا لیکن جب خلیفہ بن گیا تو اس
کے پا س سواری کیلئے دو جانوررہ گئے - جو وہ مکہ سے مدینہ حج کرنے کیلئے
استعمال کرتے تھے-
دوستیاں نبھانے والے سابق حکمرانوں کیساتھ موجودہ والے بھی نوازنے میں کسی
سے کم نہیں پاکستان میں بے انتہا دولت کے حوالے سے مشہور ایک بینکر جو آئی
پی پیزمیں بھی اپنی کمپنی کے حوالے سے زبان زد عام ہے صرف انہی کو خوش کرنے
اور نوازنے کیلئے ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس ختم کردیا گیا ساٹھ ہزار گاڑیاں
پاکستان لانے والے شخص کی خاطر اٹھارہ کروڑ عوام کیساتھ زیادتی نہیں تو اور
کیا ہے سرکلر ڈیڈ کی ادائیگی کو اپنی کامیابی قرار دینے والے کیا اتنے
اندھے ہیں کہ آئی پی پیز کیساتھ ہونیوالے معاہدوں پر نظر ثانی کرے کہ اگر
کوئی ادارہ بجلی پیدا نہیں کرسکتا تو پھر حکومت کس کھاتے میں عوام کے خون
پسینے کی کمائی انہیں اداکرے لیکن چونکہ یہ کمی کمین قرار دینے والے غریب
شہریوں کے ٹیکسوں کا پیسہ ہے جن کی اکثریت غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی
گزارنے پر مجبور ہیں اور صرف دو ڈالر آمدنی رکھنے والے لوگ ہے جنہیں اپنے
حقوق کا پتہ ہی نہیں اس لئے اب بھی ایسے معاہدے کئے جارہے ہیں جس کا تیل
انہی غریبوں سے نکالا جائیگا کمیشن کی خاطر ایسے ایسے سودے کئے جارہے ہیں
کہ انہیں لیڈر تو کیا انسان سمجھنے کیلئے بھی دماغ کیساتھ لڑنا پڑتا ہے
کیونکہ انہیں صرف اپنے آپ اور اپنے دوست نظر آتے ہیں جنہیں یہ نوازنے کی
کوششوں میں مصروف ہیں--ابھی شیر والے حکومت کو آئے ہوئے تقریبا 80 دن ہوگئے
ہیں لیکن مالی سکینڈلز کا آغاز ہوگیا ہے قطر سے ایل این جی کی درآمد
میںکمیشن کی خاطر سودے کئے جارہے ہیں کیا ملک میں گیس کے ذخائر ختم ہوگئے
ہیں قطر کے نام پر کی جانیوالی ڈیل ایک ملٹی نیشنل کمپنی کیساتھ کی جارہی
ہیں جسے پاکستان میں بھی ایک ملٹی نیشنل کمپنی ہی ڈیل کریگی میڈیا رپورٹس
کے مطابق پاکستان نے یومیہ پانچ سو ملین کیوبک گیس خریدنے کا بیس برس کا
معاہدہ کیا ہے اب پاکستانی حکومت یہ گیس لے یا نالے اس کی ادائیگی روزانہ
پاکستان کو کرنے پڑیگی جبکہ معاہدے کی روسے حکومت یہ گیس کسی اور کو فروخت
بھی نہیں کرسکتی -
یہاں پر مولانا رومی کا ایک قول یاد آرہا ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ ایک
ہزار قابل انسان مرجانے سے اتنا نقصان نہیں ہوتاجتنا ایک احمق کے صاحب
اختیار ہونے سے ہوتا ہے زمین پر کروڑوں روپے کی گاڑیوں اوراربوں کے گھروں
میں رہنے والے تکبر پسندحکمرانوں کیلئے صرف ایک ہی سوال ہے کیا وہ اپنے
اعمال کا جواب دے سکیں گے اس ارب العزت کے سامنے جس کے سامنے زمین پر کیڑوں
کی طرح زندگی گزارنے والے اور محلوں میں عیاشی کرنے والے سب برابر ہونگے
اور اعمال پر فیصلے سنائے جائینگے- |