نو مسلمہ فاطمہ کی کہانی
فاطمہ کے قبول اسلام کے متعلق فوزیہ سے معلوم ہوا- اسکی داستان عجیب رونگٹے
کھڑی کرنیوالی داستان ہے ایسی داستان، جسمیں رشتوں کا تقدس انسانی ہوس کے
سامنے ہیچ ہے -
ہدایت دینا اللہ کی دین ہے الہ آباد کے ہندو پنڈت برہمن خاندان سے تعلق
رکھنے والی مادھووی بچپن سے ہی اپنے بتوں سے بر گشتہ اور بیزار تھی -اسکو
یہ خیال بری طرح پریشان کرتا تھا کہ اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے یہ بت آپکی
رکھشا کیسے کر سکتے ہیں آپکی دعاؤن کو کیسے قبول کر سکتے ہیں، یہ اپنی
رکھشا نہیں کرسکتے تو میری رکھشا کیسے کرینگے؟ پھر ان بتوں کو دودھ ، دہی
اور شربت سے نہلانے میں کیا منطق اور عقل پوشیدہ ہے؟ وہ اپنے اہل خانہ کے
ساتھ پوجا اور مندر حاضری میں شرکت تو کر لیتی تھی لیکن اسکا دل انہی
سوالوں کو سوچ کر بیچین رہتا تھا--اسکے خیال میں بھگوان تو سات پردوں میں
پوشیدہ ہے اسکو چھو بھی نہیں سکتے ، ھاتھ بھی نہیں لگا سکتے ۔ وہ اکثر
سوچتی تھی کہ میرے دل میں اس دھرم کے لئے کوئی پیار نہیں ہے- اور یہ محض
ایک جھوٹ ہے جو میں نبھا رہی ہوں-
اسکے خاندان میں لڑکیوں کو پڑھانے کا کوئی رواج نہیں تھا اور اسکو پڑھنے کا
شوق بھی نہیں تھا تو صرف تیسری جماعت تک تعلیم حاصل کی اب اسے شوق ہے کہ
مزید تعلیم حاصل کرے- وہ ہندی اور قدرے انگریزی لکھ پڑھ لیتی ہے تھوڑا
کمپیوٹر کا استعمال بھی جانتی ہے-8 سال کی عمر میں اسے ایک سٹروک ہوا جسکی
وجہ سے اسکے ہاتھ پاؤں میں کمزوری آگئی تھی اسلئے جب 20سال کی عمر میں اسکی
شادی ایک انجینئر سے طے پائی-تو وہ اس رشتے پر حیران تھی کہ ایک انجینئر اس
جیسی لڑکی سے شادی کیوں کریگا؟ وہ کوئی مالدار لڑکی بھی نہیں تھی ، نہ ہی
اسے کوئی بھاری جہیز ملاتھا-
شادی کے بعد اسے معلوم ہوا کہ سسرال میں معاملہ عجیب و غریب ہے ساس مٹی کے
تیل کے اسٹوو پھٹنے سے مر چکی تھی - مارنیوالا اور کوئی نہیں بلکہ اسکا
شوہر یعنی سسر تھا - یہ بات پورے وثوق سے اسکے سسر کے بھائی نے اسے بتائی
تھی کہ کھانا پکاتے ہوئے اسکے سسر نے بیوی پر مٹی کا تیل پھینکا جس سے آگ
بھڑک اٹھی -انڈیا میں اسطرح کے واقعات عام ہیں عورتوں کو یا تو جلا دیا
جاتا ہے یا سانپ سے ڈسوالیا جاتا ہے اور پھر سکو ایک حادثہ سمجھ لیا جاتا
ہے-
یہ مجرم سسر اور ایک اور دیور اس اپنی بہو اور بھابھی کو اسکے شوہر سمیت
اپنی مشترکہ ملکیت سمجھتے تھے اور اسکے ساتھ ہر قسم کی دست درازی کرنیکی
کوشش کرتے جب وہ انکی بات نہیں مانتی تھی اور انکی پیش قدمیوں کو روکتی تو
اسے بری طرح پیٹتے تھے کرکٹ کے بلے تک سے اور بیلٹوں سے اسے بری طرح مارا
گیا، سارے جسم پر نیل پڑ جاتے وہ اسوقت بھی یہ داستان سناتے ہوئے لرز جاتی
ہے-
شوہر اکثر کام کے سلسلے میں شہر سے باہر چلا جاتا وہ شکایت کرتی تو شوہر
خودکشی کی دھمکیاں دیتا - ماں باپ اسکی بات پر دھیان نہیں دیتے اور اسے ہر
طرح سے نباہنے کی تلقین کرتے تھے –بھارت میں شادی کے بعد لڑکی پرائی ہو
جاتی ہے اسکی شکایت تک نہیں سنی جاتی اسکی پاداش میں لڑکیاں جلادی جاتی
ہیں- اسے اپنے رشتوں سے اپنے سماج سے شدید ترین نفرت ہوگئی تھی - شوہر کی
غیر موجودگی میں وہ کمرے میں بند ہو جاتی اور دو دو دن تک بند رہتی تھی -
یا میکے چلی جاتی تھی- سسر نے دوسری شادی نہیں کی وہ کہتا " جب بازار میں
دودھ ملتا ہے تو گھر میں بھینس پالنے کی کیا ضرورت ہے -
اپنے آپکو ان بھیڑیوں سے بچاتے ہوئے وہ ایک بچی کی ماں بن گئی –ایک گھناؤنا
ماحول تھا جسکا وہ حصہ بن چکی تھی – اسے اپنے سسر اور دیور سے شدید نفرت
تھی –
اسکا شوہر کینیڈین امیگریشن ملنے کے بعد کینیڈا آیا اور انکے لئے درخواست
دی -
" میں ایک بیٹی کے ساتھ سسرال میں اکیلی رہ گئی - میرا سسر اور دیور گھر
میں تھا انہوں نے تو مجھے مفت کا مال سمجھ لیا تھا - میں نے اپنی عزت انسے
کیسے کیسے بچائی ہے آپکو بتا نہیں سکتی – وہ عریاں حالت میں میرے کمرے میں
آجاتے اور مجھے اپنی بات ماننے پر مجبور کرتے تھے " نہ ماننے کی صورت میں
وہ مجھ پر تشدد کرتے مارتے پیٹتے ، ظلم کی کوئی انتہا نہیں تھی جو میرے
اوپر نہیں ہوا ہو- بتاتے ہوئے اسکی حالت غیر ہونے لگی-
وہ اور بچی 2002 میں کینیڈا آئے - اسکے شوہر نے اسے یقین دلایا تھا کہ اسکی
اپنے بدکردار بھائی اور
باپ سے ہر گز تعلقات نہیں ہیں- کینیڈا میں میری دوسری بیٹی پیدا ہوئی-
چار سال پہلے کی بات ہے ،" میں ذہنی طور پر بہت پریشان تھی- کہ پارک میں
ٹہلتے ہوئے ایک مولانا سے ملاقات ہوئی – ان سے بات چیت کے دوران انہوں نے
میری پریشانی کو بھانپ لیا اور ایک منتر مجھے بتایا کہ شام تک یہ پڑھتی
رہنا اگر تمہاری پریشانی دور ہوئی تو جان لینا کہ یہ بہت اچھا منتر ہے"- وہ
اپنے قبول اسلام کا حیرت ناک واقعہ مجھے سنانے لگی – اگلے روز میری پھر
مولانا سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ کیسا تجربہ رہا؟ ،میں نے بتایا
کہ یہ منتر تو بہت اچھا ہے – وہ کہنے لگے پڑھتی رہو فائدہ ہوگا-
مادھوی کو منتر پڑھنے سے بڑا سکون مل رہاتھا- پھر مولانا نے اسے کچھ اسلام
کے متعلق بتایا- وہ کہنے لگی بس آپ مجھے کلمہ پڑھوا کر مسلمان کردو- مولانا
نے کہا جو منتر تم اتنے دنوں سے پڑھ رہی ہو وہ کلمہ ہی تو ہے –" لا الہ الا
اللہ محمد الرسول اللہ-
انہوں نے اسے سورہ الفاتحہ اور چاروں قل پڑھائے – گھر آکر اسنے تمام بتوں
کو سمیٹا اور کوڑے میں ڈال دیا – اس نے پھر باقاعدہ شہادہ لینے کی خواہش
ظاہر کی – مولانا نے کہا کہ شوہر سے تعلق ختم کرنا پڑیگا – اسلام قبول کرنے
کے لئے ،بہت لڑائیاں ہوئیں اسکے میکے والوں نے بھی تعلق ختم کرنیکی دھمکیاں
دیں – ماں نے کہا کہ اگر آئی تو باہر رہیگی ، الگ برتن میں کھائیگی- اور
ایک دن جب شوہر کا پول کھلا کہ کمپیوٹر پر بھائی کی تصویر لگا رکھی ہے اور
بھائی سے دوستانہ تعلق ہے تو اسے طلاق لینے میں ایک منٹ بھی نہیں لگا-
اسکے شوہر نے اسے پہلے بتایا تھا بلکہ یقین دھانی کروائی تھی کہ اپنے
بدکردار بھائی سے اسے سخت نفرت ہے لیکن اصل صورتحال یہ تھی –وہ شوہر سے
فورا علیحدہ ہوئی اور شیلٹر میں چلی گئی – اسکے ساتھ ہی اسنے باقاعدہ اسلام
قبول کیا- اب عدالت سے باقاعدہ طلاق ہو چکی ہے- شوہر کے ذمے ایک ہزار ڈالر
مہینے کا خرچ ہے-
بیٹیاں شوہر کے پاس ہیں بڑی بیٹی تو کافی بے راہ رو ہوچکی ہے – چھوٹی اسکول
جاتی ہے اور باپ اسے پڑھا رہا ہے – بریمپٹن کے ایک مسلمان دیندار خاندان نے
اسکو اپنے بیسمنٹ میں رکھا ہوا ہے –
اسلام قبول کئے اسے چار سال ہوچکے ہیں لیکن وہ ابھی تک سیکھ رہی ہے سمجھ
رہی ہے- قدرے قرآن پڑھ لیتی ہے نماز سیکھ لی ہے – تسبیحات کا ورد کرتی رہتی
ہے – اللہ تعالیٰ اور اسکے دین سے جڑ کر بہت خوش ، سکھی اور شانت ہے-" میری
دینی بہنیں کہتی ہیں- فاطمہ تم تو ایسی ہو ، جیسے تم نے ابھی جنم لیا ہو،
پاک ، صاف ، معصوم رفتہ رفتہ دین سیکھ جاؤگی"
اسوقت اسکی عمر چالیس سال ہے کئی لوگ اسے شادی کرنیکا مشورہ دیتے ہیں – اس
تجویز کی وہ سخت مخالف ہے " ایک ہی مرد اور ایک ہی شادی سے بھر پائے- اب من
میں دوبارہ شادی کا کوئی ارمان نہیں ہے – مرد کی ذات سے ہی نفرت ہوگئی ہے"
ساتھ ہی اسنے یہ بھی بتایا کہ اسکا سابقہ شوہر دوبارہ مصالحت کے لئے
پیغامات بھیج رہا ہے جسے وہ ہرگز ماننے پر تیار نہیں ہے-
میرا اگلا سوال تھا کہ اگر تمہارا شوہر مسلمان ہوجائے تو ہو سکتا ہے کہ
اسکے ساتھ تمہاری بچیاں بھی مسلمان ہو جائینگی- اور یو ں تمہارا پورا گھر
ایک مسلمان گھرانہ بن جائے گا—
لیکن اسکو اپنے شوہر پر ہرگز اعتبار نہیں ہے اور وہ ایک جھوٹے رشتے اور
تعلق میں دوبارہ جڑنے کیلئے ہر گز تیار نہیں ہے- "اگر مسلمان ہوا بھی تو دل
سے نہیں ہوگا، میں اسے اچھی طرح جانتی ہوں-چھوٹی بیٹی شاید ہوجائے-
میں اپنی موجودہ زندگی ، اپنے دین سے، اپنے اللہ اور رسول سے بہت خوش ہوں –
میری ماں کہتی ہے " ارے اوپر سے کتنا کپڑا لادنا پڑتا ہوگا؟ " ہاں تو کیا
ہوا ، یہ کپڑا مجھے بے حیائی سے بے شرمی سے بچاتا ہے- میرے شریر کو ڈھانپ
کر میری عزت کو ڈھانپتا ہے--
دامِ ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ--- دیکھیں کیا گُزرے ہے قطرے پہ گُہر
ہونے تک |