یوں تو ہندوستان میں میڈیا کے
وجود اور اس کی اہمیت کے بارے میں سب کو پتا ہے ،ہم سب جانتے ہیں کے ہماری
زندگی میں میڈیا کا کتنا زیا دہ عمل دخل ہے یہا ں کا میڈیا جس بات کو سچ
کہہ دیتا ہے ،لو گ آنکھ بند کر کے اس پر یقین کر لیتے ہیں میڈیا اگر جھوٹ
بھی کہے تو کو ئی انحراف نہیں کر تا کیو نکہ اتنا وقت ہی نہیں ہو تا کسی کے
پاس کہ گہرائی میں جا کر سچا ئی کی پر توں کو کھولے ایسے ما حو ل میں یہ
میڈ یا کی ذمہ داری ہو تی ہے کہ وہ حقیقت پر مبنی خبروں کو جگہ دے ہر خبر
کی سچائی ایما ندا ری سے جا نچ پڑ تال کرے۔ یو ں بھی صحا فت کا پہلا رکن
یہی ہو تا ہے کہ خبریں سچ اور حقائق پر مبنی ہو ۔
لیکن ہما رے یہا ں میڈیا کا تعصبا نہ رویہ کسی سے چھپا نہیں ہے اور اس کی
عصبیت میں کتنے بے گنا ہو ں کو سلا خو ں کے پیچھے پہونچا دیا اور کئی گنہگا
ر کھلے عام گھوم رہے ہیں ۔میڈیا کا یہ رویہ تو کبھی کبھی اتنا جا نبدار ہو
تا ہے کہ وہ صرف اور صرف کسی خاص طبقے یا پا رٹی کی ترجما نی کر تا ہے ۔یو
ں تو اب میڈیا کے تین گروپ ہیں پرنٹ میڈیا ،الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا
۔پرنٹ اور سوشل میڈیا کو خیر الگ رکھیں آج ہم الکٹرانک میڈیا کی بات کر تے
ہیں ٹی وی پر دکھا ئی دینے والی تمام خبروں کا تجزیہ کریں تو اس میں بریکنگ
نیوز کے طور پر دکھا ئی جا نے والی دس خبروں میں آٹھ تو ایسی ہو تی ہے جو
بریکنگ نیو ز تو کیا نیوز کے لا ئق بھی نہیں ہو تی اس کے با وجود بلا سر
پیر کے خبریں سارا سارا دن ٹی وی پر چھا ئی رہتی ہیں خود کو آگے رکھنے کی
ہو ڑ میں ان نیوز چینلس کو یہ بھی انداز نہیں ہو تا کہ ان کے ذریعہ دکھائی
گئی خبروں کا معاشرہ پر کیا اثر ہو گا ۔ابھی حال ہی میں ہوا گیا بم بلاسٹ ،بٹلہ
ہا ؤ س انکا ؤنٹر پر عدالت کا فیصلہ یا پھر ڈی ایم درگا شکتی کا معطل ہو نا
حال ہی میں ہو ئے ان سارے معاملے پر نظر ڈالیں تو میڈیا کا دوہرا رویہ ہما
رے سامنے آتا ہے ۔سب سے پہلے گیا بم بلا سٹ ،گیا بم بلا سٹ پر میڈیا کا
پہلا رد عمل یہ تھا کہ یہ دھما کے انڈین مجا ہدین نے کئے ہیں(اب یہ انڈین
مجاہدین کو ن ہے)اس کی بھی تہہ تک جا نا ہو گا ،انڈین مجا ہدین ایک ایسی
تنظیم ہے جس کا سرے سے کو ئی وجود ہی نہیں ہے بلکہ یہ میڈیا کے ذریعہ تشکیل
دی گئی ایک نام نہا د ی تنظیم ہے کیو نکہ اس کے خلاف ابھی تک پو لس محکمہ
کو کو ئی ثبوت حاصل نہیں ہو سکا ہے ۔دودنوں تک میڈیا میں خوب ہنگامہ رہا کہ
یہ دھماکے انڈین مجاہدین نے کئے اور انہوں نے اس دھماکہ کی ذمہ داری بھی
قبول کرلی۔یہاں تک کہ ایک چائنل نے یہ تک دکھانے کی کو شش کی کہ انڈین
مجاہدین نے کیسے یہ پلان تیار کیا تھا۔لیکن جیسے ہی یہ اطلاع موصول ہوئی کہ
یہ حملہ انڈین مجاہدین نے نہیں بلکہ کسی اور نے کئے اورکسی ونود مستری کا
نام نکل کر سامنے آیا اس کے بعد یہ کہ اس بم دھماکہ کے تار گجرات سے جڑے
ہیں اس خبرپر میڈیا کا رویہ قابل دید تھا،کسی بھی نیوز چینل نے یہ خبر نہیں
دیکھائی کہ اس شخص (ونود مستری) کا تعلق کہاں سے ہے اور آخر اس بم دھماکے
کے تار گجرات سے کیسے جڑے تھے۔حیرت ہوتی ہے کہ وہ میڈیا جو بے قصور کو
قصوروار ثا بت کرنے کے لئے جھوٹ کو سچ بناکر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے اس
نے ایک سچ کوسچ کی طرح بھی پیش کرنے کی کوشش نہیں کی،اگر ونود مستری کی جگہ
کسی احمد مستری کا نام ہو تا کیااس وقت یہ میڈیا خاموش رہتا؟ اب بات اگر
درگا شکتی کے معطل ہونے کی کریں تو نہ جانے کتنے افسروں کو معطل کیا جاتا
ہے کیا ہرافسر کے معطل ہونے کے بعد اتنا ہنگامہ مچایا جاتا ہے ؟نہیں ایسا
بلکل نہیں میڈیاجب اور جسے چاہے اسے چھوٹی سی بات لیکربآسانی موضوع گفتگو
بنا سکتاہے ۔اور یوں بھی درگاشکتی کا معاملہ تو دو فرقوں کے بیچ تنازع
پھیلانے والاتھا۔تو پھر ریاستی حکومت نے اس کے خلاف کوئی کارروائی کی تو اس
پر اس قدر واویلا کیوں مچایا گیا۔یوں بھی یہاں حکومتیں ایکشن کم ہی لیتی
ہیں اور اگر کسی پر ایکشن لیا جائے اور وہ شخص اونچی پہنچ رکھتا ہو تو
میڈیا اتنی ہنگامہ آرائیاں کرتا ہے کے حکومت کو اپنافیصلہ تبدیل کرناپڑ
جاتا ہے چاہیں وہ صحیح ہی کیوں نہ ہو۔
میں مانتی ہوں کہ کبھی کبھی میڈیا صحیح اور غیر جانبدار رویہ رکھتا ہے لیکن
یہ صرف کچھ حالا توں میں ہوتا ہے ہمیشہ نہیں ۔ہاں کچھ چینلس ایسے ہیں جو
حقائق پر مبنی خبروں کا انتخاب کرتے ہیں ،اور اپنی دیکھائی گئی خبروں کو
بلاوجہ طول نہیں دیتے لیکن اس طرح کے معیاری نیوز چینلس کی تعداد کافی کم
ہے ۔
بہت سارے ایسے مسائل ہیں جن پر میڈیا کے زریعہ اتنی توجہ نہیں دی جاتی جتنے
کے وہ حقدار ہوتے ہیں ،بلکہ زیادہ تر نیوز چینلس پر تو صرف دو مخالف
پارٹیوں کے لیڈروں کو بیٹھا دیاجا تا ہے اور یہ چن چن کر ایک دوسرے کی
برائیاں نکالتے ہیں اور کبھی کبھی ان کی یہ بحث جھگڑے کا رخ اختیار کرلیتی
ہے ،ایک دوسرے پر چھینٹا کرتے یہ لیڈران نیوز چینلس پر بے تکا بولتے ایک
منٹ کے لئے بھی یہ نہیں سوچتے کے ان کے ذریعہ ادا کئے گئے الفاظ کتنے لوگوں
کی دل آزاری کا سبب بن رہے ہیں ۔اور نہ ہی اس نیوز چینل کو یہ خیال آتا ہے
کہ وہ دو لوگوں کو بیٹھا کر جوماحول کریئٹ کررہے ہیں اس کا اثر عوام پر کیا
پڑ رہا ہے ۔نیوز چینل پر موجود یہ لیڈران اور نیوز اینکر کے سوالات مل کر
ہندوستان کے سیکولر چہرے کو داغ دار کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔فرقہ پرست
ذہنیت کے مالک افراد سے انٹرویو لیکر اور فرقہ وارانہ سوالات پوچھ کر میڈیا
اہلکار فرقہ پرستی کی آگ میں گھی ڈالنے سے نہیں چوکتے ۔
عموم ایسے واقعات یا حالات جن میں کسی خاص طبقہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے ،ان
واقعات کا تذکرہ الکٹرونک میڈیا میں دیکھنے کو نہیں ملتا ،چاہیں وہ کشمیر
کے لوگوں کے ساتھ پولیس افسران کا غیر انسانی سلوک ہو یا پھرکسی کی جیل میں
موت ،جی ہاں میڈیا نے جس طرح کا ہنگامہ سربجیت سنگھ کی پاکستان کے جیل میں
موت پر مچایا تھا اسے شاید آپ نہیں بھولے ہونگے ۔لیکن اسی ریاست کا ایک
مسلم قیدی جب پاکستان کی جیل میں دم توڑتا ہے تو میڈیا کا انداز قابل دید
ہوتا ہے ،اس وقت نہ پاکستان کو غدار کہا جاتا ہے نہ اس کی لاش واپس لوٹانے
کی مانگ کی جاتی ہے اور نہ ہی اس کے خاندان کو کسی معاوضہ سے نوازے جانے کی
سفارش کی جاتی ہے ،اور نہ ہی چارلوگوں کو بیٹھا کر نہ ختم ہونے والا
مباحثوں کا دور شروع ہوتا ہے ۔
ایسے واقعات چیخ چیخ کر اس بات کا اعلان کرت ہیں کہ ہندوستان جیسے جمہوری
ملک میں جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جانے والا میڈیا بھی سیکولر نہ ہوکر
سیاسی پارٹیوں کے ہاتھ کا مہرا بن چکا ہے ۔اور یہ صرف اور صرف اسی پارٹی کی
ترجمانی کرتا ہے جو اس کی منہ بھرائی بھرپور انداز میں کرتی ہے ۔سوچنا تو
ہوگا اور سوچنا بھی چاہئے کہ کیا صحیح میں یہ ایک سیکولر ملک کے سیکولر
میڈیا کا سیکولر انداز ہے ۔ یہ ایک ملک کے عوام کی ترجمانی کرنے والا
جمہوریت کے چوتھے ستون کی اہمیت رکھنے والا میڈیا ہے یا کسی خاص پارٹی کے
لئے کام کرنے والی خفیا ں ایجنسی؟ |