پاکستان کے بارہویں صدرِ مملکت
ممنون حسین منتخب ہوچکے ہیں اوراگلے مہینے کے پہلے ہفتے میں اپنے صدرارتی
منصب کا حلف لینے والے ہیں۔موصوف کاروباری دنیا کے جانے مانے فردہیں۔انہیں
ٹیکسٹائیل ٹائیکون کہاجائے توبے جا نہ ہوگا۔اپنے سیاسی دنیا میں پی ایم ایل
(ن) سے وابستہ ہیں اور اُسی پارٹی نے انہیں اس عہدے پرپہنچایا۔ممنون حسین
نے 674الیکٹرول کالج ووٹوں میں سے 432ووٹ لے کرصدرمنتخب ہو گئے۔پاکستان میں
صدر آصف علی زرداری کی صدارتی میعاد کے اختتام پرمنعقدہونے والے صدرارتی
انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدرارتی امیدوارسیدممنون حسین صاحب
کی کامیابی اس بات کی طمانیت ہے کہ اقتدارکے دونوں مراکز کاایک ہی سیاسی
جماعت کے ہاتھوں میں رہنے سے ملک سیاسی عدم استحکام سے دو چارنہ
ہوگااورحکومت کوملک کے مفادمیں فیصلے لینے میں کوئی رکاوٹ یامخالفت
کاسامنانہیں کرناپڑے گا۔سیدممنون حسین نے چونسٹھ فیصدسے زائدووٹ حاصل
کئے۔جبکہ ان کے واحد حریف تحریکِ انصاف کے امیدوار جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے
صرف 77ووٹ حاصل کئے۔واضح رہے کہ پیپلز پارٹی نے صدارتی انتخاب کابائیکاٹ
کیاتھا۔یہ بات توپاکستانی عوام کوبھی معلوم ہے کہ صدر کے انتخاب کے لئے
عوامی ووٹوں کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ صدارتی انتخاب میں پارلیمنٹ کے
اراکین جن میں چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین،قومی اسمبلی کے ممبران
اورسینیٹ کے ممبران ہی ووٹ ڈالتے ہیں۔جسے ہم سب الیکٹرول کالج کانام دیتے
ہیں۔اس انتخاب میں حکمران مسلم لیگ (ن) ایم کیو ایم،مسلم لیگ (ف) ،پختون
خواہ ملی عوامی پارٹی ،نیشنل پارٹی،قومی وطن پارٹی،پاکستان مسلم لیگ (ضیاء
) ،بلوچستان کی پاکستان مسلم لیگ (ق) بھی شامل ہیں۔حکمران جماعت کے
پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں ’’ قومی اسمبلی ‘‘ میں 184ووٹ ہیں۔سینیٹ میں
15،چاراسمبلیوں میں پنچاب سے 50ووٹ خیبرپختون خواہ میں 8،سندھ میں
دواوربلوچستان میں 17ووٹ ہیں۔بحیثیتِ مجموعی (ن) لیگ کی پارٹی نے 276’’
الیکٹرول ووٹوں ‘‘کے طورپرصدرارتی انتخاب میں فتح حاصل کی ہے۔
یہ محض اتفاق ہے کہ آج پاکستان میں اقتدارکے دواہم واعلیٰ عہدوں پرایسے
افرادموجود ہیں جن کاتعلق ہندوستان سے رہا ہے۔نواز شریف ہندوستانی ریاست
پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں تونومنتخب صدرممنون حسین کاتعلق اُترپردیش کے
تاریخی شہرآگرہ سے ہے۔قبل صدارتی انتخاب کے سیدممنون حسین کوپاکستان سے
باہرشایدہی کچھ لوگ جانتے ہونگے۔جنوبی ایشیا کے کسی سیاسی،سماجی شعبہ میں
سیدممنون حسین کی کبھی کوئی بازگشت نہیں سنی گئی۔آگرہ میں پیدا ہونے والے
ممنون حسین پارچہ جات کے تاجرپاکستان کی سیاست میں ایک ستارہ کے مانند
نمودارہوئے ہیں۔وہ1999ء میں کچھ عرصے کے لئے صوبہ سندھ کے گورنربھی رہے
تھے۔لیکن حکومتی بساط کے لپیٹے جانے کی وجہ سے ان کی گورنری بھی جاتی
رہی۔بہرحال اس بات کوخارج ازامکان نہیں کیاجاسکتاہے کہ صوبہ سندھ بالخصوص
کراچی سے صدرمنتخب ہونے کے بعدپاکستان مسلم لیگ (نواز) آئندہ پانچ سال میں
وہاں اپنے قدم ضرور جمانے کی کوشش کرے گی اوربھٹو اور زرداری خاندان کے ووٹ
بینک کوکم کرنے کی کوشش ضرورکرے گی۔
پاکستان کاالیکٹرانک میڈیا جس طرح امریکی صدارتی انتخابات کوغیرمعمولی جگہ
دیتے ہوئے تجزیوں، تبصروں اورخصوصی پروگرامزکے علاوہ انتخابی نتائج کے لمحہ
بہ لمحہ اپ ڈیٹ بھی نشرکرچکا ہے بالکل اُسی طرح پاکستانی صدارتی انتخابات
میں بھی بشمول سرکاری ٹی وی کے تمام پروگرامزپیش کیئے جس سے عوام میں آگہی
کاشعور اُجاگرہوا۔ناظرین کو تازہ ترین معلومات فراہم کرتے رہے ۔تمام ہی بڑے
ٹی وی چینلزنے اپنے نمائندے صدرارتی انتخابات کی کوریج کے لئے متعین کیئے
ہوئے تھے۔اورکچھ ٹی وی چینلزنے براہِ راست کوریج بھی کی۔
ممنون حسین کے سامنے بڑے بڑے چیلنجز ہیں،اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ
کرسی ان کے لئے پھولوں کی بسترنہیں کانٹوں کا سیج ہوگادہشت گردی،ٹارگٹ کلنگ
،مہنگائی،بے روزگاری،لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل سراٹھائے ہوئے ہیں۔اب دیکھنایہ
ہے کہ وہ ٹیکسٹائل ٹائیکون کی طرح ان مسائل سے کس طرح نبردآزماہوتے ہیں
اورسیاسی ٹائیکون بننے میں اپنی مہارت کہاں تک استعمال کرتے ہیں۔کیونکہ
پاکستان میں لمحہ بہ لمحہ حالات کروٹ لیتاہے ۔اس وقت ہمارے ملک کی حالت
انتہائی دگر گوں ہے،معیشت تہس نہس ہو رہی ہے،ادارے تباہ و برباد ہو رہے
ہیں،پڑوسی ملک بھارت آئے دن سرحدی خلاف ورزیاں کررہاہے،اوربے گناہ فوجیوں
کوشہیدکررہا ہے،مگر ہم سب صبر و تحمل کادامن سنبھالے ہوئے ہیں۔دیکھئے نئے
صدرصاحب اس معاملے میں کہاں تک جاتے ہیں۔اورکس طرح بیک ڈورڈپلومیسی کرتے
ہیں کہ جس سے حالات ٹھیک نہج پرآجائے۔
پاکستان کے نئے صدر صاحب آئندہ ماہ حلف لیں گے جس کے بعدہوسکتاہے کہ’’ این
آر او ‘‘ایک بارپھرہمارے ملک کی سیاست کا’’ ایٹم بم‘‘ ثابت ہوگا۔این آر او
پاکستان کے اُس وقت کے صدرجنرل پرویزمشرف نے قومی مصالحت آرڈیننس لاکرلگ
بھگ آٹھ ہزاراکتالیس رہنماؤں، بیوروکریٹس، صنعت کاروں کوبچانے کی کاروائی
کے لئے نافذکیاتھا۔جو کہ کرپشن ،قتل،اسمگلنگ اور دہشت گردی جیسے الزامات
میں پھنسے ہوئے تھے۔ان میں سوئس اور دنیا کے دیگر بینکوں میں کالادھن رکھنے
والے افرادبھی شامل تھے۔ ’’ این آر او ‘‘کامعاملہ پاکستان کے سیاسی لوگوں
کے درمیان الجھاہواتھااوراس کے چھینٹے بڑے بڑے ناموں پرپڑرہے تھے، جو لوگ
این آر او کے حامی نہیں ہیں وہ موجودہ صدر کے عہدے کے میعادکے اختتام
کاانتظارکررہے ہیں اس کے بعد دیکھئے کہ سیاسی ہواکس طرف چلتی ہے
اورکیاکیاہوتاہے،یہ سب وقت کے ساتھ ساتھ عیاں ہوگا۔
ولادتِ پاکستان کے بعد سے اس ارضِ وطن کوسیاسی ،دفاعی،اخلاقی،معاشی
اورابتدائی انتظامی مسائل نے جکڑاہواہے ۔ پاکستان آج بھی ان مسائل کے ہجوم
سے مردانہ وارمقابلہ کررہاہے اورپہلے سے توکہیں زیادہ مستحکم ہے مگرمضبوطی
کااگرسوال آئے توہم سب یہی کہتے ہیں کہ پاکستان قائم و دائم رہنے کے لئے
بناہے اوریہ ہمیشہ قائم رہے گا اوراپنا عظیم کردار اداکرتارہے گاجس کی اس
مادرِ وطن کے باسیوں کی ضرورت ہے۔تاریخِ پاکستان میں بنگلہ دیش کی علیحدگی
اس وقت سامنے آیاجب نسلی اورلسانی فسادات کوچنددشمنوں نے ہوادی اوربنگلہ
دیش کوشیخ مجیب الرحمٰن نے 1971ء میں آزادی دلوائی ۔اس جنگ میں بنگلہ دیش
کی حمایت بھی ہندوستان نے ہی کی تھی۔اوریوں امتِ مسلمہ کی سب سے بڑی مملکت
پاکستان دولخت ہوگئی۔آج بھی بلوچستان سمیت اوردیگرعلاقوں میں اسی طرح کی
صورتحال کاتجزیہ کرتے رہتے ہیں ہمارے تجزیہ کارصاحبان۔اب چونکہ ممنون حسین
صاحب کاتعلق بھی کراچی سے ہی ہے اس لئے اُن پربہت بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے
کہ وہ ایسے عناصر کاقلع قمع کرنے کے لئے عملی اورٹھوس اقدامات اٹھائیں تاکہ
ہمارا ملک پہلے کی طرح محبت و اخوت کا سرچشمہ بن جائے۔سب بھائی بھائی بن
کررہیں ،یہاں کے لوگ زبانیں چاہے کوئی سا بھی بولتے ہوں مگررہیں پاکستانی
بن کراسی میں اس ملک کے باسیوں کی بہتری چھپی ہے۔خدا نئے صدر کوان حالات سے
نبردآزماہونے کی ہمت عطا فرمائے ۔ آمین۔ |