ایک وقت تھا کہ مسلمان ساری دنیا
کے حکمران تھے اور ایسے حکمران تھے کہ جن کی حکومتوں کی مثال آج تک دنیا
دیتی ہے ، اور آج بھی ان کا طرز حکمرانی قیامت تک کے حکمرانوں کیلئے مشعل
راہ ہے اور ان کا باہمی اخوت و محبت قابل رشک اور قیامت تک آنے والی اقوام
کیلئے بہترین مثال ہے۔
اسلامی تاریخ میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ ظہور اسلام کے بعد مدنی دور میں ایک
قبیلہ مسلمان ہوا اور قبول اسلام کے بعد انہو نے نبی کریم ؐ کی خدمت اقدس
میں یہ درخواست کی کہ آپ ؐ ہمارے لیے قراء حضرات کا بندوبست کریں جو ہمارے
علاقے میں ہمارے بچوں کو دینی تعلیم دیں۔ چنانچہ ان لوگوں کے اصرار پر نبی
کریمﷺ نے چند قاری صحابہ ؓ کو اس مقصد کے لیے منتخب فرمایا اور ان صحابہ
کرام ؓ کوقبیلہ کے معززین کے ساتھ روانہ کر دیا کچھ دنوں کے بعد خبر ملی کہ
قبیلہ والوں نے نبی کریم ﷺ کے بھیجے ہوئے صحابہ ؓ کو شہید کر دیا ۔ اس
واقعہ کی خبر ملتے ہی مسلمانوں میں غم و غصہ کی ایک لہر دوڑی۔ اس موقع پر
نبی کریم ؐ نے اس واقعہ کی باقاعدہ تحقیق کی اور جب اس واقعہ کی تصدیق ہو
گئی تو نبی کریم ؐ نے ان صحابہ ؓ کی شہادت کا بدلہ لینے کیلئیے ایک لشکر
تشکیل دیا جسے خالصتاً مسلمانوں کے قتل عام کا بدلہ لینے کیلئے بھیجا۔ اس
لشکر نے مخالفین کی جو پٹائی کی وہ تاریخ عالم میں آج بھی مذکور ومحفوظ ہے۔
اس کے بعد کسی بھی قبیلے یا قوم کی جرأت نہیں ہوئی کہ وہ کسی مسلمان کا
ناجائز قتل عام کریں کیونکہ وہ جان گئے تھے کہ کسی مسلمان کا ناحق قتل مسلم
Communityمیں قابل برداشت نہیں ہے۔
بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک وقت تھا کہ مسلمان ایسی شان و شوکت کے ساتھ
زندگیاں بسر کرتے تھے اور آپس میں اس قدر الفت و محبت رکھتے تھے کہ جسکی
کوئی نظیر نہیں ۔ مگر جب آجکل کے مسلمانوں پر نظر ڈالی جائے تو دل خون کے
آنسو روتا ہے، ایک وہ وقت تھا کہ جب مسلمانوں کے ناحق قتل کے بدلہ کیلئے
ساری مسلم اُمہ اکٹھی ہو جاتی ہے اورآج یہ عالم ہے کہ مسلمان اس بری طرح
پٹے جا رہے ہیں کہ ہوش نہیں آرہی۔ افغانستان ، مصر، فلسطین، عراق، کشمیر و
دیگر مسلم ممالک کے مسلمانوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے اسکی مثال بھی کہیں نہیں
ملتی۔ تاریخ آج کے مسلمان پر ہنستی ہے اور الفاظ مذاق اڑاتے ہیں کہ تم کیا
تھے اور تمہارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اور اس قتل ِ عام پر مسلمانوں کی
خاموشی متاثرہ مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف سمجھی جائیگی۔
مسلمانوں کے اس قتل عام پر ساری عالمی برادری خاموش کیوں؟ کیا یہ انسان
نہیں؟ کیا یہ Humanitarian basesپر Treatنہیں کئے جا سکتے؟ O.I.Cو دیگر
تنظیمیں کہاں ہیں؟ کون اس درندگی کو روکے گا اور کب روکے گا؟
لہٰذا اسلامی تاریخ کے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اپنی اسلامی تہذیب
و تمدن کے پیش نظر تمام عالم اسلام کو چاہئے کہ ہوش کے ناخن لیں اور آپس کے
تمام تر اختلافات کو بھلا کر مسلم اُمہ کو درپیش Challengesکا سامنا کریں
اور مسلمانوں کی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ |