ڈینگی کے کارنامے

آج سے8 23سال قبل شمالی امریکہ ،افریقہ اور ایشیا ء میں ایک ایسی بیماری پھیلی تھی ،جس میں مریضوں کو یکدم تیز بخار ہوتا،کچھ کے پیٹ میں درد اورکچھ کو خونی الٹیوں کی شکایت تھی، اس مرض کا مریض 7سے 10دن کے اندر وفات پا جاتا ۔اس مرض نے ایسی وبائی شکل اختیار کی کہ لوگ نے خوف و ہراس میں ان علاقوں سے ہجرت شروع کر دی ۔ اس وقت کے ڈاکٹروں کی تحقیق نے اس مرض کا سبب مچھر وں کو قرار دیا۔اور اس مرض کو ڈینگو بخارDANGUE FEVERکا نام دیا جبکہ اسے ـــ’’گندی روح‘‘ کی بیماری بھی کہا جاتا تھا۔ڈینگو بخار کالے رنگ کے مچھروں سے ہوتا ہے ۔جس کی ٹانگیں دیگر مچھروں سے لمبی ہوتی اور یہ صاف پانی میں پیدا ہوتا ہے ۔یہ مچھر صبح آفتاب سے لے کر 8بجے تک اور شام غروب آفتاب کے وقت اپنی شکار تلاش کرتا ہے ۔

WHOکی رپورٹ کے مطابق ڈینگو بخار کی شرح اموات 4%ہے اور آج تک اس کی کوئی مناسب دوائی ایجاد نہیں ہوسکی۔1950میں اس بیماری سے جنوب مشرقی ایشیاء میں ہزاروں کی تعداد افرادخصوصا بچے ہلاک ہوئے ۔1975-1980تک یہ بیماری عام تھی ۔پھر2002میں برازیل کے جنوب مشرق میں واقع ریاست Rio Dejaheiroمیں یہ بیماری وباء کی صورت اختیار کر گئی تھی اور تقریًبا 10لاکھ افراد کی اموات ہوئی ،جن میں 16سال سے کم عمر کے بچے زیادہ تھے۔ 2004 میں انڈونیشیا میں 80 ہزارمریضوں میں سے 800مریض وفات پاگئے۔ پھر 2005میں اس بیماری نے دوبارہ سر بلند کیا اور اپنے شکار کے ریکارڈ قائم کیے، بھارت کے صوبہ بنگال میں 900 افراد اس کے شکار ہوئے جن میں سے 15ہلاک ہوگے۔ ملائیشیامیں32950 شکار ہوئے جن میں سے 83 زندگی کی بازی ہار گئے۔Martinigue میں 6 ہزار شکاریوں میں سے 2 ہلاک ہوئے، فلپائن میں21537 میں سے 280 افراد دنیا سے رخصت ہوگئے، سنگاپور میں12700میں سے 19 کی ہلاکت ہوئی۔ 2006میں Domincan Republicمیں 44افراد ہلاک ہوئے ۔فلپائن میں جنوری سے اگست 2006کے دوران 13468مریض ہوئے اور 167نے جان سے ہاتھ ڈھویا۔

آجکل اس بیماری کی روک تھام کیلئے پاکستان میں سیمینار اور واک شروع ہوگئے ہیں۔پاکستان میں1994میں صوبہ سندھ کے دارالخلافہ کراچی میں پہلا ڈینگی کا مریض سامنے آیا ۔WHOکے اعدادوشمار 2006کے مطابق 1994میں کراچی میں ڈینگو بخار کے مریضوں کی تعداد 4800سے زائد تھی جبکہ 50سے زائد ہلاک ہوگئے ۔لاہور میں پہلا مریض 2006میں سامنے آیا تھا ۔امریکہ کی تحقیق کے مطابق وہاں ڈینگو بخار کا مرض امریکی بندر گاہ پر برآمد شدہ پرانے ٹائر وں میں کھڑے پانی کی وجہ سے پھیلا۔پاکستان میں بھی کراچی بندر گاہ اسکی آمد کی وجہ بنی، اورپھر وہاں سے مرض پورے پاکستان میں پھیل گیا۔گذشتہ سالوں میں لاہور شہر میں ڈینگو بخار کے زیادہ تر مریض لاہور ریلوے اسٹیش اور ڈرائی پورٹ سے ملحقہ علاقوں سے تھے۔پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ڈینگی کا آغاز 2006 میں عید الااضحی کے موقع پرلاہور اور راولپنڈی میں ڈینگی وائرس کے کچھ کیس سامنے آئے، اسی طرح2008میں صوبہ میں1407 افرادڈینگی کا شکار تھے،2009میں109 اور 2011میں اس کا شکار ہزاروں میں تھا۔

قارئین ڈینگو بخار کی عام علامت میں تیز بخار ہونا ، بھوک نہ لگنا، آنکھوں میں درد، جوڑوں میں درد، جسم میں دھبوں کا نمودار ہونا،سانس لینے میں دشواری، رنگت پیلی ہونا، شدیدسر درد اور جسم سے خون کا رساؤ ہے ۔ اگر کسی شخص کو ڈینگی ہوجائے تو اس کی فیملی کو چاہیے کہ مریض کا درجہ حرارت 102F سے کم رکھنے کی کوشش کرئے،مریض کو صرف پیراسیٹا مول دیں لیکن وہ بھی ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق، ڈسپرین ،بروفین اور زیادہ طاقت کی اینٹی بائیوٹک مریض کو فائدہ دینے کے بجائے وقت سے پہلے موت کے منہ میں لے جا سکتی ہے۔پانی اور دودھ زیادہ سے زیادہ استعمال کروائیں اور مریض کو آرام کروائیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق یہ بیماری ہر4سے5سال میں نمودار ہوتی ہے اور جو شخص ایک مرتبہ اس کا مریض بنتا ہے اگلی دفعہ بھی اسی مریض کے شکار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ڈینگی مکان کی چھتوں پرپڑی بے کار اشیاء، ٹوٹے ہوئے گملے، پودوں کی کی نرسریاں، پانی کی موٹروں سے بہنے والا پانی، فریج کی ٹرے، کھلی جگہوں پر پڑے پرانے ٹائر اور ائیر کولرڈینگی مچھرکی پیداوارکی بہترین آماج گاہیں ہیں۔ لہذا عوام کو چاہیے کہ وہ گھروں کی چھتوں سے بے کار اشیاء فوری طور پر تلف کردیں، گملوں ، فریج کی ٹرے سے پانی نکال دیں تاکہ مادہ مچھرانڈے نہ دے سکے۔ WHOکے مطابق آج کل ڈینگو بخار کی کوئی دوائی ایجاد نہیں کی جا سکی مگر پاکستان طب کے مطابق ایک چمچ شہد ایک کپ نیم گرم پانی میں ملا کر صبح نہار منہ جبکہ دوپہر ورات کھانے سے ایک گھنٹے قبل استعمال کرنا چائیے یا سیب کے جوس میں چند قطرے لیموں کے ملا کر پیئں جائیں اور اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف رکھیں ۔ان تدابیر سے مرض میں فرق پڑتا ہے

قارئین آجکل پاکستان کے بیشتر شہر سیلاب کی زد میں ہے، جہاں پر اگر مناسب سپرے اور انتظامات نہ کیے گئے تو ڈینگی مچھر و عام مچھر کی پیداوار کے امکانا ت موجود ہے، ماہرین کے مطابق صرف واک اور تصویریں بنوانے سے پاکستان میں آنے والے مسائل سے نہیں بچا جاسکتا، اس کیلئے ایمانداری کی بھی ضرورت ہے، کم از کم آفت کے دنوں میں کرپشن کا خاتمہ ہوجانا چاہیے۔

قارئین سابقہ ادوار میں مشاہدہ ہوا ہے کہ ڈینگی کی وباء کے دنوں میں پیراسیٹامول بلیک میں فروخت ہورہی تھی۔ کیونکہ یہی اس کی واحد میڈیسن تصور کی جاتی ہے۔ اور ایک روپے والی گولی 100 میں بھی دستیاب نہیں تھی۔ پاکستان وہ واحد ملک تصور ہوتا ہے، جہاں پر اسلامی تہواروں ۔۔آفتوں۔۔وبائی صورت میں اشیاء مارکیٹ سے غائب ہوجاتی ہے اور سرکاری آفیسران سے ملکر بے ایمان لوگ بلیک مارکیٹنگ شروع کر دیتے ہیں۔ ہم لوگ اپنی آکرت کو بھول جاتے ہیں۔ بغیر رشوت اور سفارش کے جائز کام کروانا بھی مشکل ہوگیا ہے آجکل کے پاکستان میں۔۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Zeeshan Ansari
About the Author: Zeeshan Ansari Read More Articles by Zeeshan Ansari: 79 Articles with 89321 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.