اڑھائی لاکھ ملازمین کے
ہیپاٹائٹس ٹیسٹ اور ان کی ویکسی نیشن حکومتی خرچے پر کی جائیگی۔ جو کہ اس
انتہائی مہلک اور خطرناک خاموش قاتل کے خلاف جہاد کے برابر ہے۔ ہیپاٹائٹس
کا مرض بلوچستان میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور لاکھوں افراد اس موذی مرض سے
متاثر ہیں یہ ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے اس لئے ترجیحی بنیادوں پر اس کا
آغاز نصیرآباد،جعفر آباد، کھچی اور کوہلو وغیرہ سے کیا جائے گاجن میں سب سے
پہلے سرکاری ملازمین اور ان کے بچوں کو اس پروسس سے گزارا جائیگا۔ٹیسٹ میں
رزلٹ پازیٹو آنے کی صورت میں ویکسی نیشن اور treatment کی جائیگی اور علاج
بھی کروایا جائیگا۔نیگٹیو آنے کی صورت میں توثیقی سرٹیفکیٹ دیا جائیگا۔ٹیسٹ
یا علاج نہ کروانے والے ملازمین کی تنخواہ روک لی جائیگی۔یہ عمل بتدریج
سکولز ،کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبا و طالبات کیلئے ایڈوپٹ کیا جائیگا۔ ان
خیالات کا اظہار وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک نے اعلی سطحی اجلاس
میں کیا اور محکمہ صحت کو ہدایات جاری کیں کہ فی الفور ترجیحی بنیادوں پر
اس کام کو شروع کیا جائے اور پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ وزیر اعلی
بلوچستان کا یہ اقدام نہایت ہی مستحسن اور عین عوامی مفاد میں ہے کیونکہ
کالا یرقان جسے عرف عام میں خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے کا علاج بہت مہنگا
ہے اور عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے۔ ایک عام آدمی اس بارے صرف سوچ سکتا
ہے اسے عملی جامہ نہیں پہناسکتا۔ کیونکہ اس کا صرف ایک ٹیسٹ جسے PCR
کہاجاتا ہے انتہائی مہنگا ہے اور علاج اس سے بھی زیادہ مہنگا۔اس علاج میں
استعمال ہونے والے انٹرفرون نامی انجکشن نہایت ہی قیمتی ہے اور عام آدمی تو
دور اچھے کھاتے پیتے لوگ بھی افورڈ نہیں کرسکتے۔اور پھر یہ خاموش قاتل اپنے
مریض کو دنوں دنوں میں ہی موت کی وادی میں دھکیل دیتا ہے۔لہذا اس آفرسے
تمام چھوٹے بڑے کو بلا جھجھک فائدہ اٹھاناچاہئے کیونکہ یہاں تو روٹین میں
چند روپوں کی دوائی ہسپتالوں سے میسر آنا مشکل ہے اور یہاں بلوچستان کے
لوگوں کو تو وزیر اعلی اس مہنگے ترین علاج کی سہولیات فری مہیا کر رہے ہیں۔
جلدی کیجئے ایسا نہ ہو کہ یہ سکیم ختم ہوجائے
راقم نے خود اپنے علاقے میں اپنے تین جاننے والوں کو اس تکلیف دہ مرض میں
مبتلا دیکھا۔ اپنے برادر نسبتی کے ساتھ راقم نے ہسپتال اور گھر میں بھی وقت
گزارا۔ ڈاکٹرزسے کنسلٹ بھی کیا او ر انہوں نے اس کا واحد حل جگر کی ٹرانس
پلانٹیشن تجویز کیاجو کہ چائنا یا انڈیا میں ہی ہوسکتا تھا۔پاکستان میں اس
کی سہولت صرف اسلام آباد میں میسر تھی لیکن ان کا بھی مشورہ یہی تھا کہ
انڈیا یاچائنا سے آپریٹ کرایاجائے تو اخراجات تقریبا60 سے 70 لاکھ روپے
ہونگے۔ذہن بنا لیاگیا اور اپنی جائیداد کو فروخت کرنے کی پلاننگ ہوگئی لیکن
بہت دیر ہوچکی تھی تقریبا42 سالہ نوجوان تین چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر
اس دنیا سے عدم کو سدھار گیا۔ اسی طرح دوسر ے دو میں سے ایک نے انڈیا سے
ٹرانس پلانٹ کرایا اور تقریباستر لاکھ روپے کی ایک کثیر رقم اس کے آپریشن
پر صرف ہوئی۔بعد از آپریشن کے اخراجات چل رہے ہیں۔ ایک نے اسلام آباد سے
اپنے جگر کی تبدیلی کرائی اور تقریبا50 لاکھ روپے سے زائد کے اخراجات ہوئے
جبکہ دونوں کے ڈونرز ان کے اپنے تھے بہرحال اب دونوں بفضل خدا صحت مند
زندگی گزار رہے ہیں
بعد از تحقیق بتایا گیا ہے کہ یہ خطرنا ک بیماری یا اس کے پھیلاؤ کے اسباب
میں عام طور پر ناقص اور غیر معیاری ملاوٹ شدہ اشیائے خوردو نوش کا استعمال
ہے خاص طور پر پانی کا صاف نہ ہونا اس کا سب سے بڑا موجب ہے جس کی وجہ سے
سارا معاشرہ اس کی لپیٹ میں لپیٹ دیاگیاہے۔لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی
مرد وخواتین اس موذی وبا کا شکار ہوچکے ہیں اس کے علاوہ محکمہ صحت سے
متعلقہ افراد بھی اس کے پھیلاؤ کا ایک بڑا ذریعہ ہیں جس میں غیر معیاری
ادویات کا استعمال اور حفظان صحت کے اصولوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئےused سرنج
کا استعمال اوردوران آپریشن آلات کا صحیح طور پر سٹریلائزنہ کرنا بھی اس کا
سبب ہیں۔ان کے استعمال سے مریض کو صحت مندکرنے کی بجائے مریض کی موت کا
اسباب و سامان پیدا کردیا جاتا ہے۔مزید یہ کہ ہمیں جو کچھ کھلایا پلایا
جارہا ہے انتہائی ناقص غیر معیاری حتی کہ مردار تک ہماری خوراک کا حصہ
بنایاجارہا ہے۔کہیں پتہ چلتا ہے کہ جانوروں کے فضلے اور wastage کوکنک آئل
یا گھی تیار کیا جارہا ہے اس میں انتٹریاں چربی کیمیکلز جانوروں کی کھال ان
کے سینگ آلائشیں یہاں تک کہ مرے ہوئے کتے تک اس میں جھونک دیئے جاتے ہیں
پھر یہ آئل اور گھی تمام محکمہ جات کی full hiegenic تصدیق کے ساتھ مارکیٹ
میں کھلے عام بک رہا ہوتا ہے ہمارے لئے فرائی کی جانے والی تمام پروڈکٹس
میں اس کا بے دریغ استعمال ہورہا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔
جناب میاں نواز شریف صاحب وزیراعظم پاکستان!پنجاب و پورے ملک میں آئے روز
کسی نہ کسی ایسے کارخانے ،مل ،فیکٹری پر میڈیا کی اطلاع پر چھاپہ مارا جاتا
ہے اوپر بیان کردہ تمام لوازمات جائے وقوعہ سے برآمد ہوتے ہیں لیکن بنانے
والے اول تو پکڑے نہیں جاتے اور شومئی قسمت کوئی دھرلیا جائے تو دوچار روز
بعد نہ صرف کارخانہ مل فیکٹری اسی زوروشور سے چل رہی ہوتی ہے بلکہ مالک
موصوف بھی مارکیٹ میں مزید سرگرمی اور دھڑلے سے دندناتا پھر رہا ہوتا ہے
لیکن یہ باور کرانے کی کوشش کررہا ہوکہ کس نے کیا بگاڑ لیا۔آپ نے اپنی
تقریر میں ملک وقوم کو دہشت گردی سے نجات دلانے کے دعوے اور وعدے کئے لیکن
میں پوچھتا ہوں کہ کیا اس سے بڑی بھی دہشت گردی ہوسکتی ہے کہ ملک وقوم کے
نونہالوں سے لیکر جوانوں تک کو ناکارہ بنایاجارہا ہے ماں سے بیٹا، باپ سے
بیٹی، خاوند سے بیوی، بھائی سے بہن چھینی جارہی ہے اور یہ سب کرنے والے پھر
بھی معززین میں شما ر ہوتے ہیں ان کومعاشرے میں باوقارمقام دیاجاتا ہے۔جناب
وزیراعظم ! کیا ان مہا دہشت گردوں کے بارے میں بھی کوئی لائحہ عمل مرتب دیا
گیا کوئی قانون بنایا گیا کوئی لائن آف ایکشن تیار نہیں کی گئی۔اور مستقبل
قریب میں بھی اس کا کوئی وجود یا شائبہ دکھائی نہیں دے رہا۔ٹھیک ہے دہشت
گردی بڑا ایشو ہے لیکن یہ ایشو اس سے زیادہ بڑا ہولناک اور تباہ کن ہے۔لہذا
ان ناسوروں کی بیخ کنی بھی لازمی ہے۔ |