دہشت گردوں سے مذاکرات یا فیصلہ کن کاروائی

احمد جہانگیر

کابینہ کے دفاعی کمیٹی کے اجلاس میں قومی سلامتی کونسل کی تشکیل نو قابل ذکر ہے جس کا اجلاس ہر ماہ ہوا کریگا جبکہ تینوں مسلح افواج کے سربراہان بھی اس کے ممبر ہونگے۔ قومی اسمبلی کی دفاعی کمیٹی کے اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے ہتھیار رکھ دینے والے طالبان سے مذاکرات بصورت دیگر ریاستی طاقت سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کیخلاف کارروائی لائق تحسین ہوگی۔ دہشت گردوں کے سکیورٹی اداروں اور اہلکاروں پر بھی حملے جاری ہیں۔ افواج پاکستان اور سکیورٹی اداروں کی طرف سے دہشت گردی کیخلاف جانبازی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پاکستانی قوم اس وقت دہشت گردی کے خلاف حالت جنگ میں ہے، دہشتگردی پاکستان کا اولین حل طلب مسئلہ ہے جو ماضی کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ لیکن سلام ہے پاکستانی قوم کے جذبہ حب الوطنی کو وہ انتہا پسندوں کے خلاف ڈٹ گئے ہیں اور ہزاروں جانیں نچھاور کر چکے ہیں لیکن ان کے عزم و حوصلے میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی ہے۔ دوسری جانب دہشت گردوں کا تعاقب سائے کی طرح کرنے والے سیکیورٹی اداروں کے اہلکار بھی سرگرم عمل ہیں، جو اپنی جانوں پر کھیل کر مادر وطن کی حفاظت اور دہشت گردی کی کمر توڑنے کے لیے تندہی سے کام کر رہے ہیں۔شدت پسند عناصر کہیں باہر سے نہیں آئے بلکہ یہ ہمارے اندر موجود ہیں اور غیرملکی قوتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ اسی حوالے سے ایک کامیابی جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ملی ہے جس میں لاہور کے علاقے گرین ٹاؤن میں القاعدہ تنظیم کے لیے کام کرنے والے مبینہ دہشت گردوں کے ٹھکانے گیٹ وے منی ایکسچینج پر چھاپہ مار کر ان کے قبضے سے لیپ ٹاپ، کمپیوٹرز، ٹی وی، جعلی سمیں، موبائل فونز و دیگر جدید آلات برآمد کر لیے گئے، دہشت گردوں نے اپنا سیٹلائیٹ نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا، گرفتار ہونے والوں کا تعلق جنوبی وزیرستان سے بتایا گیا ہے جب کہ ملزمان کوٹ لکھپت جیل سمیت دیگر اہم عمارتوں میں دہشت گردی کی واردات کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، ملزمان تاجروں کو اغوا کر کے ان سے بھاری تاوان حاصل کرنا چاہتے تھے۔خبر کے مندرجات پڑھنے کے بعد یہ اندازہ کرنا کسی کے لیے مشکل نہیں کہ روایتی طور طریقوں سے ہٹ کر انتہا پسند گروہ جدید ٹیکنالوجی پر مکمل عبور اور اس کا منفی استعمال کرنا خوب جانتے ہیں، ان کے نیٹ ورک کے توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ہر محاذ پر شکست دی جائے۔فرنٹیئر کور نے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی کارروائی میں کوئٹہ کے علاقے فاروق اعظم چوک سیٹلائٹ ٹاؤن کے ایک گودام سے 100 ٹن یعنی ایک لاکھ چار ہزار584 کلوگرام دھماکا خیز مواد،20 ہزار تیار بم اور دیگر مواد برآمد کر کے8 مشتبہ افراد کو گرفتار کر کے کوئٹہ کو تباہی کے خوفناک منصوبے سے بچا لیا۔جس میں 20 ہزار کلو گرام کے دیسی ساختہ بموں کے تیار مواد کو صرف فیوز لگا کر ہزارہ ٹاؤن میں ہونے والے خودکش ٹینکر دھماکے جیسے ایک سو سے زائد دھماکے کیے جا سکتے تھے جسے بروقت کارروائی کر کے ناکام بنا دیا گیا۔ زندہ قوموں پر آزمائش کی گھڑیاں آتی ہیں اور وہ اس میں سرخرو ہوتی ہیں۔ یہ ایک طویل جنگ ہے جس میں بالٓاخر انتہا پسندوں کو شکست اور عوام کو فتح حاصل ہو گی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ایک واضح قومی پالیسی اور قانون نافذ کرنیوالے تمام حساس اور تحقیقاتی اداروں کے درمیان مضبوط و فعال روابط کا ہونا لازمی امر ہے تا کہ دہشتگردوں کا نیٹ ورک توڑ کر اس عفریت کا سر کچلا جائے۔

اگرچہ انسانی جان کی کوئی قیمت ہی نہیں دی جاسکتی لیکن معصوم اور بے گناہ شہریوں کی جان بچانے کے لئے اپنی جانیں قربان کردینے والے پوری قوم کے لئے قابل عزت و احترام ہیں۔ ایسے جانبازوں کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے۔ اس سے صرف فرض شناس پولیس اہلکاروں ہی کی عزت افزائی نہیں ہوگی بلکہ دوسرے اہلکاروں میں ادائیگی فرض کا مثبت اور تعمیری جذبہ بھی فروغ پائے گا اور لوگوں کے اندر جان و مال کے تحفظ کا احساس بھی بڑھے گا۔ دہشت گردی جیسے مسائل سے نمٹنے اور قومی تعمیر و ترقی کے سفر کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھنے کے لئے جس کی اس وقت ہمارے ملک اور معاشرے کو ازحد ضرورت ہے۔ تخریب کاروں اور دہشت گردوں کی سرگرمیوں اور منصوبہ بندی کے بارے میں قبل ازوقت معلومات کے حصول کا شعبہ جتنا زیادہ مضبوط ہوگا ایسی مذموم وارداتوں کو کامیابی سے روکنا اتنا ہی آسان ہوتا جائے گا۔ اس کے لئے نگرانی اور چوکسی کے نظام کو زیادہ موثر اور فعال بنانے پر توجہ دی جانی چاہئے۔ خفیہ کیمروں وغیرہ کے نظام کو بہتر بنایا جانا چاہئے اور اس شعبے سے بعد از واردات مدد لینے کی بجائے قبل از واردات ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔ قتل الموذی قبل الایذا ایک قدیم اور معروف مقولہ ہے اسے ہماری پولیس فورس کا شعار بنایا جانا چاہئے کیونکہ سانپ کا سر اس کے حملہ کرنے سے پہلے کچل دینا زیادہ مفید ہوتا ہے۔ اسی طرح ایسی وارداتوں کے سلسلے میں پکڑے جانے والے دہشت گردوں کے مقدمات تیزی سے نمٹا کر انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کی حکمت عملی اپنائی جانی چاہئے اس ضمن میں ہمارے اداروں کا اب تک کا ریکارڈ زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔اسی طرح ایک ہی نوعیت کی پے درپے وارداتیں بھی دہشت گردوں کے مذموم ایجنڈے کا حصہ رہی ہیں۔
Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 104891 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.