میں نے کبھی بریلویوں کی اس بات کو قبول نہیں کیا کہ
سلفیت (جس کو وہ اپنی اصطلاح میں محمد بن عبدالوہاب سے منسوب کرتے ہو ئے
وہابیت کہتے ہیں)انگریزوں کی پیداوار ہے اس لیے کہ ٹھیک یہی بات سلفی حضرات
بھی بریلویوں کے متعلق کہتے ہیں رہی بات تحقیق کی میں نے اس جانب کبھی توجہ
نہیں کی اس لیے کہ یہ میرا دلچسپ موضوع نہیں ہے مگر بعض واقعات اور حادثات
اتنے مؤثر ہوتے ہیں کہ وہ سینکڑوں سالوں پر محیط مبہم تاریخ کے صفحات کو
ایک لمحے میں حتمی نتائج تک پہنچا دیتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں
آج کسی خاص واقعہ کی وجہ سے اس قدر متاثر ہوا ہوں کہ میں اب بریلوی دوستوں
کی یہ بات تسلیم کر لوں کہ سلفیت انگریزوں کی پیداوار ہے اس لیے کہ محمد بن
عبدالوہاب کے دور میں اگر چہ انگریز بااثر تھے اور عالم اسلام میں ان کا
اثر و نفوذ ہو چکا تھا مگر بعد کے متضاد واقعات نے اس معاملے کو مشتبہ بنا
دیا ۔سلفیت کا لفظ ہمیں اسلامی تاریخ میں پڑھنے کو بہت پرانا ملتا ہے جس
طرح لفظ ’’اہل الحدیث‘‘احادیث کی کتابوں میں بہت قدیم لفظ ہے اور اس سے
مراد صرف علماءِ حدیث ہوتے ہیں کوئی تنظیم نہیں؟
دور حاضر کے سلفی دوست یا اہلحدیث محدثین کی جماعت کا نام نہیں بلکہ ایک
عالم گیر تحریک کا نام ہے جو عرب سے لیکر عجم تک اہلحدیث کے بینر تلے کام
کرتے ہیں اس کے ہر جگہ مقامی حالات سے متاثر ہو کر کام کرنے کا الگ الگ
ڈھنگ ہے یہ جہاں عرب میں حاکموں اور بااثر علماء ہی نہیں بلکہ جان کی بازی
لگانے والے نامی مجاہدین اور سر فروشوں کے روپ میں نظر آتی ہے وہی ہندوستان
میں بے سیاست ’’دعوت و تبلیغ‘‘تک محدود نظر آتی ہے اور وہی کشمیر میں 1987ء
کے مسلم متحدہ محاذ کے برعکس اپنے ووٹروں کو سیکولر اور اسلام پسندوں کے
لیے کھلا چھوڑ کر غیر سیاسی ہونے کا شوشہ چھوڑتی ہے جبکہ شیعہ متاثر ممالک
اور علاقوں میں ہمیشہ شیعہ مخالفین کی بھر پور حمایت کرتی نظر آتی ہے اور
حیرت انگیز طور پر تیونس اور مصر میں اخوان المسلمین کے ساتھ اشتراک کے
برعکس سیکولر حلقوں کی حمایت کرتے ہوئے آپ اپنے آپ کو بے نقاب کردیتی ہے اس
لیے کہ سیاسی طور پر اس کو ایک چلینج درپیش ہے یہ عرب شہنشاہیت اور گندھی
ملوکیت کے زیر اثر بھی ہے اور ٹھیک اسی وقت القائدہ کے نامی عسکری کمانڈروں
کی پسندیدہ بھی ۔۔۔لہذا اس کی سیاست میں جماعت اسلامی ،اخوان المسلمین اور
جمیعت علماءِ اسلام کی طرح (صحیح یا غلط)یک رُخی اور یک سوئی نظر نہیں آتی
ہے ۔
مصر میں سلفی حضرات نے ’’النور پارٹی‘‘کے نام پر الیکشنوں میں حصہ لیا
اورپارلیمنٹ میں کئی نشستیں جیت لیں ،ہم جیسوں کو گمان ہوا کہ نظریاتی طور
پر اخوان المسلمین کے بہت قریب ہونے کے سبب یہ لوگ محمد مرسی کو سپورٹ کریں
گے مگر اس نے مصر میں بالکل ویسا ہی رول نبھایا جیسا 1987ء میں کشمیر میں
نبھایا تھا کہ اہلحدیث حضرات یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ آیا وہ ’’مسلم متحدہ
محاذ‘‘کو ووٹ دیں یا کانگریس اور نیشنل کے ’’راجیو فاروق اتحاد‘‘ کوجس کا
سبب یہ تھا کہ قیادت نے کوئی فیصلہ کرنے کے برعکس اپنے کارکنان کو حالات کے
رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا بلکہ حیرت انگیز بات یہ کہ ’’مسلم متحدہ
محاذ‘‘کے اسلام آباد ضلع کے معروف اہلحدیث رہنما غلام رسول قادری مرحوم
ڈاکٹر قاضی نثارر احمد مرحوم سے ’’سیاست میں شراکت ‘‘پر ناراض ہو کر مسلم
متحدہ محاذ ہی سے الگ ہو گئے اور اس کا اظہا�آج بھی اہلحدیث مبلغ اپنے
اجتماعات میں باربار کرتے ہیں کہ ہم غیر سیاسی لوگ ہیں ۔
خیر بات ہو رہی ہے مصر کی !مصر میں جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ اخوان
المسلمون اور النور پارٹی کے مشترکہ الیکشن لڑنے سے لیکرمشترکہ حکومت قائم
کرنے تک کے تصور کو اس وقت شدید دھچکہ لگا جب النور پارٹی نے ایک سال قبل
حکومت کے تشکیل کے وقت تک اخوان کو نہ صرف نظر انداز کردیا بلکہ بالکل ویسا
ہی اپوزیشن کا رول نبھایا جیسا سیکولر قوتوں نے محمد مرسی کے خلاف ادا کیا
اور اپنے’’ کامل اسلام پسندی کے تابوت‘‘ میں اس وقت آخری کیل ٹھونکی
جب2جولائی 2013ء کو مصر کے فوجی سربراہ جرنل سیسی نے سیکولراور لبرل قوتوں
کے ناجائز احتجاج کی بنیاد پر محمد مرسی کی حکومت کو برخواست کرکے جیل
بھیجدیا اور پھر اخوان کے احتجاجی لوگوں پر بے تحاشہ فائرنگ کر کے ایک سو
تین لوگوں انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کرڈالا ۔
یہ بات کہ النور پارٹی نے ایسا کیوں کیا ؟جیسا کہ دوسرے سیکولر اور لبرل
لوگوں نے امریکی اور اسرائیلی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے کیا تو حق بات یہ ہے
کہ ’’النور پارٹی‘‘براہ راست سلفیت کے اس دھڑے یا فکر کا حصہ ہے جن کا
اُوڑھنا بچھونا صرف عرب ملوکیت ہے ،عرب ملوکیت کے دینی خدمات کی فہرست بہت
طویل ہے جس میں سلفی علماء کی کتابوں کی مفت اشاعت اور سینکڑوں زبانوں میں
مفت تقسیم ،اپنی فکر کے لوگوں کومالی معاونت کرتے ہو ئے ہر مکتبہ ،مدرسہ
اور مسجد کے ساتھ ایک نئی مسجد تعمیر کرنا،اسکولوں اور ہسپتالوں کے ساتھ
ساتھ غیر سیاسی اداروں کی مدد کرنا ،حرمین شریفین کی تعمیر توسیع کے علاوہ
ہر اس جنگ میں اپنا پیسہ جھونکنا جہاں ’’امریکی اذن اور رضا ‘‘حاصل ہو نہیں
تواگر خود ’’عربی النسل فلسطینی‘‘ گاجر مولی کی طرح ہی کیوں نہ کاٹے جا رہے
ہوں تو ایسی چپ کہ گویا سانپ سونگھ چکا ہو یا زیادہ سے زیادہ روایتی بیانات
اور حرمین فتح فلسطین کے لیے دعا ۔۔۔اور جب امریکہ بہادر کی مرضی بھی شامل
حال ہو توروس کے خلاف افغانستان میں ،سربیا کے خلاف بوسنیا میں اور شام کے
خلاف عالم عرب میں یہ نہ صرف پیش پیش نظر آتے ہیں بلکہ یہی ’’حاملین
ملوکیت‘‘پہلے اسامہ اور ایمن الظواہری کو جہاد میں جھونکنے کے لیے پیٹھ
تھپتھپاتے ہیں اور پھراسرائیل اور امریکہ کی خواہش پر ان جیسے ہزاروں
جیالوں کو قربان بھی کردیتے ہیں ۔
یہ ملوکیت ہی نہیں دورِجدید کا ماڈیفائیڈ نفاق ہے جس میں دورُخی نہیں سو
رُخی نفاق نظر آتا ہے حدیث پاک میں وارد ہے کہ دورُخی شخص قیامت کے روز سب
سے بری حالت میں ہوگا مگر اب معاملہ یہاں تک آچکا ہے کہ یہ دو رُخی نفاق کا
مرض افرادسے بڑھکرحکومتوں تک کے سارے نظام میں سرایت کرچکا ہے اور یہی نفاق
ان حکومتوں کی خارجہ اورداخلہ پالیسیوں کا بنیاد محور رہتا ہے اور ہر دم
بدلتے حالات کے ساتھ مطابقت بلکہ صحیح تر الفاظ میں کہ ’’اللہ اور
شیطان‘‘کو بیک وقت خوش رکھنے کی بظاہر ان کی کامیاب پالیسی ان کے دینی
دعوؤں سے متصادم تو ہے مگر ان کے پلے نہ پڑنے کی وجہ وہی نفاق ہے جوہزاروں
خوفناک چہروں کے ساتھ آج کی مسلم دنیا کو تاراج کرتی نظر آتی ہے ،یہ امر
بالکل واضح ہے کہ اللہ کے ساتھ ساتھ شیطان کبھی خوش نہیں رہ سکتا ہے اور نہ
ہی شیطان کے ساتھ اللہ ہی خوش رکھنے کی چال اس کے ہاں کامیاب ہوتی ہے یہ
اللہ کو غضبناک کرنی والا عمل ہے اور یہی وجہ ہے کہ لاکھوں نیک اور رفاعی
کاموں کے باوجود اللہ تعالیٰ انہیں اپنے بندوں میں بے نقاب کردیتا ہے اور
یہی کچھ عرب بادشاہوں کے ساتھ ہو رہا ہے کہ اپنی تمام تر چالاکیوں اور
رفاعی کاموں کے باوجودوہ اُمت میں بے نقاب ہو چکے ہیں اور مصر کے واقعہ نے
تو ان کی نقاب ایسے اُلٹ دی کہ اب مزید کسی تجزیئے یا تبصرے کی ضرورت ہی
نہیں ہے ۔
وہ سازشی خط بھی اب منظر عام پر آچکا ہے جس میں سعودی حکمرانوں نے مصر میں
اپنے سفیر کو اخوان کے حوالے سے سخت ہدایات دی تھیں سعودی عرب کے وزیر
خارجہ سعود بن فیصل بن عبدالعزیز آل سعود نے قاہرہ میں مقیم سعودی سفیر کے
نام اپنے خط میں جوہدایات دی تھیں وہ کچھ اس طرح ہیں کہ مصری صدارتی
انتخابات میں اسلام پسند امیدواروں بالخصوص اخوان المسلمین کے امیدوار کو
ہر قیمت پر کامیاب نہ ہونے دیں۔اس خفیہ خط میں سعود الفیصل نے اپنے سفیر کو
لکھا ہے: "جناب خادم الحرمین الشریفین المَلِک عبداللہ بن عبدالعزیز آل
سعود کے حکم خاص کی بنیاد پر، آپ جناب سے چاہتا ہوں کہ مصر کے صدارتی
انتخابات میں اسلام پسند عناصر بالخصوص اخوان المسلمین کے نامزد امیدوار
محمد مْرسی کی کامیابی کا راستہ روکنے کے لئے اپنی تمامتر کوششیں بروئے کار
لائیں کیونکہ جماعت اخوان المسلمین ہمارے لئے حقیقی خطرہ سمجھی جاتی ہے اور
ہمارا کوئی شوق نہیں ہے کہ یہ جماعت مصر کی باگ ڈور سنبھالے کیونکہ اس
جماعت کی کامیابی کی صورت میں ہم (آل سعود) عالم عرب و اسلام کی زعامت و
سیادت کا منصب کھو دیں گے اسی بنا پر آپ اس مہم کو سر کرنے اور اخوان
المسلمین کو بر سر اقتدار آنے سے روکنے کے لئے اپنی تمام تر قوت اور وسائل
کو بروئے کار لائیں۔۔۔اور جب جرنل سیسی نے حال ہی میں محمد مرسی کی حکومت
کو بر طرف کیا تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات خوشی سے اچھلنے لگے، بی
بی سی کے مطابق نئی انتظامیہ کی حمایت کے طور پر متحدہ عرب امارات کی حکومت
نے دو ارب ڈالر قرضہ اور ایک ارب بطور امداد جبکہ سعودی عرب نے پانچ ارب
ڈالر کا امدادی پیکیج دینے کا اعلان کیا ہے۔۔ ۔۔۔اس میں دو رائے نہیں کہ
اخوان المسلمون دولت کو پانی طرح بہائے جانے کے باوجود عرب ملوکیت اور مغرب
پرست شہنشایت اور ان کے عجمی چیلوں چانٹوں کے لیے موت کا پروانہ ہے جو دیر
یا سویر عملی صورت میں ظاہر ہو کر رہے گا اور مرسی کو ہٹائے جانے کے باوجود
اخوان المسلمون کا جمہوری اور آئینی صدر کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہونے اور
ثابت قدم رہنے سے اب نہ صرف مغرب کی رائے بدلتی دکھائی دے رہی ہے بلکہ خود
عرب کے ناعاقبت اندیش حکمران بغلیاں بجانے پرسراسیمگی کی حالت میں مبتلا
نظر آتے ہیں ۔ |