تندرستی، صحت اور جدید علاج

انسانیت روزِ آفرینش سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے جبکہ آج کے آلات انتہائی جدید اور مؤثر ہیں مگر کرب اور تکلیف بھی شکل بدل بدل کر قطعی طور پر مد مقابل شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔ اگر ایک طرف رشتوں میں کڑواہٹ انسانیت کا سکون غارت کرتی ہے تو دوسری طرف بیماریاں جو کبھی سانپ کی طرح ڈستی ہیں (جسمانی بیماریاں) تو کبھی دیمک کی طرح چاٹتی ہیں (ذہنی بیماریاں) بھی چین سے نہیں رہنے دیتی اور انسان ان کے روبرو بقاء کی جنگ لڑتا لڑتا زندگی کے ماہ وسال پورے کر جاتا ہے۔

یہ تو ایک فطری عمل ہے کہ ہر ابتدا اپنی انتہاء کو پہنچے البتہ سارا عمل اگر عافیت سے مکمل ہو تو غنیمت ہے وگرنہ اذیت اور کرب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زندگی میں جذبوں کی حرارت اگر کم ہو جائے تو کبھی بھی سکھ سے نہیں رہا جا سکتا۔ امنگیں اور جذبے سرد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان زندگی میں دلچسپی نہیں رکھتا اور یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم زندگی کے معاملات سے دلچسپی کم کر دیں اور زندگی سے تمام اچھے ثمرات کی امید بھی رکھیں؟ رشتوں کی مضبوطی اور زندگی کے اعلیٰ مقاصد کی تکمیل کا جذبہ کبھی بھی انسان کو تھکنے نہیں دیتے۔ جذبوں کی حرارت سے سرشار لمحے ہی ایک صحتمند اور بھرپور زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔

مایوسی انسانی زندگی کا وہ اندھا کنواں(Black Hole) ہے جو ساری اچھی امیدوں کو کھا جاتا ہے اور کسی طرح سے ذہن میں روشن دریچے کھولنے نہیں دیتا۔ جب کبھی انسانی سوچ کسی بند گلی میں جا کر رک جاتی ہے اور کوئی راستہ نہیں ملتا تو انجام خاتمہ! ہر دکھ اور تکلیف کا مداوا بھی اسی زمین پر موجود ہے مگر شرط یہ ہے کہ ہم اپنے ذہن کے دریچے ممکنات کی جانب کھولے رکھیں۔ علم و فن کسی ایک شعبہ زندگی، قوم یا ملک کی میراث نہیں یہاں جو جتنی محنت کرے گا اتنا ہی بہتر ثمر حاصل ہو گا۔ قوانین قدرت کی سامنے انسان کی کیا مجال ہے کہ وہ ایک لمحہ بھی کھڑا ہو سکے البتہ اگر دھوپ تیز ہو یا بارش برس رہی ہو تو تدبیر ایک امکان بڑھا دیتی ہے اور ہم چھتری تان کر تکلیف اور کرب سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔ جبکہ قانون قدرت بھی نہیں بدلا اور تدبیر بھی مؤثر ہو گئی، لہٰذا انسان اگر ممکنات کو مدنظر رکھے تو کبھی بھی اس پر مایوسی طاری نہیں ہو سکتی اور تکلیف کا مداوا بھی آسانی سے ہو جاتا ہے۔ بصورت دیگر انسان تکلیف کے ساتھ ساتھ پریشانی خواہ مخواہ بڑھا لیتا ہے جو کہ کسی بھی اذیت سے چھٹکارا پانا تو درکنار، مسائل کے منجدھار میں پھنسا دیتی ہے۔

قدرت ہمیں معاملاتِ زندگی میں سے گزرنے پر مجبور کرتی ہے گرچہ ہم جتنا مرضی جمود میں رہنے کی کوشش کریں۔ ہر مثبت اور صحیح سوچ رکھنے والا شخص نہ صرف معاملاتِ زندگی میں پرجوش اور متحرک (Dynamic) ہے بلکہ اپنی ترقی، کامرانی اور ذہنی پیش رفت کو بھی قدرتی انداز میں رکھنا پسند کرتا ہے جبکہ پیش رفت صرف اور صرف تصورات، خیالات، عوامل اور حالاتِ زندگی کی بہتری کے مرہون منت ہے جو کہ نتیجتاً ظاہر ہوتے ہیں۔ لہٰذا تخیل (خیال Thought) کے تخلیقی مراحل کا مطالعہ اور ان کا زندگی کے اعلیٰ مقاصد کا استعمال ہمارے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ خیالات (دقیق تا ارفع Alpha and the Omega) کا ابجد (Alphabat) بنانے کے لیے الہامی اور فلسفیانہ ذرائع ہمارے لیے عظیم سچائی (حقیقت) تک رسائی کا مؤجب بنتے ہیں جبکہ انسانیت اِس اکیسویں صدی میں بڑے زور و شور سے ”حقیقت کی تلاش“ میں ہر وہ راستہ افشاں کرنے پر تُلی ہوئی ہے جو کہ کسی بھی طرح سے اس تک پہنچنے کا مؤجب بنے۔ خیال کے بارے میں علم وہ طریقہ کار واضع کرتا ہے جس کے باعث انسانی زندگی کے ارتقائی اور تسلسل کے عمل میں بلندی اور تیزی آتی ہے۔
ع ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

اکیسویں صدی میں جبکہ سائنس ٹیکنالوجی نے بہت سی انسانی بیماریوں پر قابو پا لیا ہے مگر اسی بقا کی جنگ میں بعض اوقات ایسے عوامل سے بھی واسطہ پڑتا ہے جنکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا ممکن نظر نہیں آتا۔ اگر میڈیکل سائنس (ایلوپیتھی) کے لئے کسی بیماری پہ قابو پانا مشکل ہے تو کوئی بات نہیں اور بھی بہت سے طریقہ علاج موجود ہیں جن کے باعث ایک انسان اپنی کھوئی ہوئی صحت و تندرستی کو دوبارہ حاصل کر سکتا ہے۔ ایک طرف اگر ایڈز، کینسر، ڈینگی وائرس اور سوائن وائرس کے بخار اور دیگر بیماریوں نے انسانی زندگی کو مات دینی شروع کر دی ہے تو دوسری طرف متبادل طریقہ علاج (Alternative) بھی موجود ہے جس کے باعث نہ صرف بیماری سے نپٹا جا سکتا ہے بلکہ انسانیت نے دوبارہ سکھ اور تندرستی کی طرف لوٹنا شروع کر دیا ہے۔ میں نے کئی بار لاعلاج امراض میں مبتلا لوگوں کو اپنی متبادل طریقہ علاج کے باعث تندرست ہوتے دیکھا ہے جیسا کہ علاج بالمثل( ہومیو پیتھی ) ،طب نبوی، متبادل طرز تنفس (سانس بدل کر علاج)، آ کو پریشر (Acupressure)، کرومو پیتھی (رنگوں و روشنی سے علاج)، طب یونانی، ہپنا ٹزم وغیرہ وغیرہ ان سب کی حقانیت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا بشرطیکہ معالج بھی اپنے فن میں یکتا ہو آئیے۔ آج آ پکو اپنی ذاتی تحقیق سے روشناس کروں جس کے بارے میں ہو سکتا ہے آپ پہلے سے کافی کچھ جانتے ہو ں مگر اس نقطہ نظر سے پہلی بار آشکار ہوں گے ۔

آج کی جدید سائنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انسانی ذہن ایک مقناطیس (Magnet ) کی طرح سے کام کرتا ہے اور ہر وہ شئے اپنی طرف کھینچتا ہے جس کے بارے میں انسان سوچ رہا ہوتا ہے۔ جیسا کہ خوشی کے مواقع پر انسان کو ہر طرف خوشی نظر آتی ہے حتی کہ شور بھی موسیقی کی طرح معلوم ہوتا ہے، محبت کے عالم میں زندگی کے معاملات انتہائی خوبصورت اور رنگین نظر آتے ہیں جبکہ غم و پریشانی کے عالم میں دنیا بھر میں کرب اور تکلیف دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ در اصل اسی قانون کے مطابق ہے کہ انسانی ذہن جس سوچ و فکر میں مگن ہے وہ اپنے اردگرد اسی طرح کے حالات و واقعات اکٹھا کرتا جارہا ہے۔ آپ اس کو ایک ایسا ہی عمل کہہ سکتے ہیں جیسے آپ انٹرنیٹ پر سرچ انجن جیسے Google میں جا کر کچھ تلاش کرنا چاہیں تو سرچ انجن ویب سائٹ آپ کو لاکھوں نئی ویب سائٹس لاکر آپ کے سامنے رکھ دے گا مگر یہ تمام ویب سائٹس اس سے ملتے جلتے ہوں گے۔ جو کچھ آپ سرچ باکس میں لکھیں گے اور ملتی جلتی معلومات کا ڈھیر لگ جائے گا۔ اس کو تلازمہ (Like Attracts Like)بھی کہہ سکتے ہیں۔

تلازمہ خیال اس وقت کام کرتا ہے جب کسی بات، لفظ، فکر کو ذہن میں تصور (imagine, Visualize) کر کے بے خیال (Free Mind) ہو جائیں یا پھر اسکی تکرار کرتے ہیں اور نتیجہ میں اس کے ثمرات حاصل ہوتے ہیں جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ایک صفاتی نام السلام (The Source of Peace) جب کسی زبان سے ادا ہوتا ہے یا ذہن سے تصور کیا جاتا ہے تو کائنات سے سلامتی، امن کا رجوع اس انسان کی طرف رابطہ (Channal)بنتا ہے جبکہ اس کے ثمرات صحت و سلامتی کے باعث بنتے ہیں اور آپ اس سے مراقبہ صحت و سلامتی کا نام بھی دے سکتے ہیں۔

جب انسانی سوچ کسی بند گلی میں جا کررک جاتی ہے اور کوئی راستہ نہیں ملتا تو انجام خاتمہ! علم ہی انسان کو اشرف المخلوقات بناتا ہے یہ انسانی شرف و معراج صرف علم کی وجہ سے ہے۔ علم کی روشنی جہاں آجائے وہاں تاریکی ختم ہو جاتی ہے ذہن انسانی جس کی حیثیت انسانی سلطنت میں بادشاہ سلامت کی ہے، اسکی مرغوب غذا ہی علم ہے جس کی بدولت وہ پھلتا پھولتا ہے اور سلطنت کے معاملات کو چلاتا ہے۔ اگر حضرت انسان اپنے ذہن کو علم سے محروم رکھے گی تو یہ کس طرح سے ممکن ہے کہ وہ معاملات زندگی پر اپنی گرفت کر سکے؟ علم کی بہت سی شاخیں ہیں جو انسان کی زندگی میں عروج و ترقی کا باعث بنتی ہیں، اگر اچھا کاروبار کرنا ایک فن ہے تو اچھا لکھنا اور اچھا بولنا بھی ایک فن ہے اسی طرح اگر تعلیم و تر بیت میں شاندار کامیابی بھی ایک فن ہے تو اچھا کھیلنا بھی ایک فن ہے ۔اب اگر ہم زندگی کے سارے علم و فنون کو حاصل کر لیں جو کامیابی و کامرانی کی طرف لے جاتے ہیں مگر زندہ رہنے کا فن نہ سیکھیں تو یہ کہاں کی عقلمندی ہے؟ جمادات (Minerals, Stone بے حرکت کوئی نشو نما نہیں، کوئی نقل مکانی نہیں اور نہ ہی کوئی سمجھ بوجھ)، نباتات ( Plant نشو نما تو ہے مگر کوئی نقل مکانی نہیں اور نہ ہی کوئی سمجھ بوجھ) اور حیوانات (Animal سب کچھ ہے مگر محدود سمجھ بوجھ اور جبلت کے باندھے ہوئے) اور ایک ہم اللہ تعالیٰ کی شاندار مخلوق جسے اِرادہ (Freedom of Choice) اور خود مختاری دی گئی ہے اور ہم جبلت کے بھی غلام نہیں جبکہ ہمیں عقل جیسے اِنعام سے نوازا گیا ہے کہ جو علم کی روشنی میں دیکھتی ہے اور علم وہ نور ہے جو ہمارا رابطہ ہماری خودی (میں، Self) اور کائنات کی حقیقت سے کروا دیتا ہے۔

تخیل ہمارے لیے بہتے پانی کی مانند ہے اگر حدوں میں رہے تو لازوال طاقت ہے اور اگر حدوں کو توڑ دے تو طوفا ن جبکہ یہ طوفان ناقابل تسخیر معلوم ہوتا ہے لیکن اگر آپ اس کا راستہ تبدیل کرنے کا طریقہ جانتے ہیں تو آپ اس کا رُخ موڑ سکتے ہیں اور اس کو کارخانوں میں لے جا کر وہاں اس کی قوت کو حرکت، حرارت اور بجلی میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ آپ تخیل (خیال) کو گھر بیٹھا دیوانہ بھی کہہ سکتے ہیں یا پھر بے سدھ گھوڑے سے بھی وابستہ کر سکتے ہیں جس کی نہ لگام اور ہی باگیں، ایسی صورت میں سوار اس کے رحم و کرم پہ ہے کہ جہاں وہ چاہے اس کو کسی کھائی میں گِرا کر اس کی زندگی کا خاتمہ کر دے لیکن اگر سوار گھوڑے کو لگام دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو حالات بدل سکتے ہیں۔ اب یہ گھوڑا (تخیل) اپنی مرضی سے کہیں نہیں جاتا بلکہ سوار جہاں چاہے گھوڑے کو وہاں لے جانے پر مجبور کر دیتا ہے۔

تصور، سوچ اور خیال اس وقت انتہائی طاقت ور ہو جاتے ہیں جب ان کا رابطہ اصل سوچ (Source) سے ہو جاتا ہے اور یہی رابطہ (Channal) اپنے اثرات دکھاتا ہے. اگر ایک طرف مراقبہ کے عمل سے تخیل منظم (Organized) شفاف (Refined) ہوتا ہے اور تقویت (Amplify) پکڑتا ہے تو دوسری طرف (اس عمل سے پیشتر ) ذہن کو اس تمام آلودگی اور بے سرو سامانی کے ماحول سے پاک کرنا بھی ضروری ہے تاکہ زمینِ ذہن پہ اُگی ہوئی تمام جڑی بوٹیاں (بے لگام خیالات) سورج کی روشنی میں خود بخود فنا ہو جائیں۔

جیسے آپ نیا کمپیوٹر تیار کر رہے ہوتے ہیں تو سب سے پہلے ایک ہارڈ ڈسک (Hard Disk) کو تیار (Format) کرتے ہیں تاکہ وہ کسی بھی نئے پروگرام کو ذخیرہ (Save) کرنے کے قابل ہو جائے اور پھر سب سے پہلے (Operating System) قاعدہ و قانون کا پروگرام انسٹال کرتے ہیں تاکہ اِس میں Application پروگراموں کو چلانے کی قابلیت ہو جائے۔ تحلیل نفسی (Psychothrapy) بھی اِسی عمل کا تسلسل ہے یا پھر محاسبہ ذات بھی یہی طریقہ کار وضع کرتا ہے جبکہ توبہ (Repent) بھی ایک ایسا ہی عمل ہے جو نہ صرف گناہوں کی دھلائی کا کام کرتا ہے بلکہ انسانی ذہن کی غلاظتوں کا بھی قلع قمع کرتا ہے اور کبھی کبھی Confession (اقرار گناہ) اور آزاد گوئی (Free Speaking) کے ثمرات بھی کسی طرح بھی اِس معاملہ میں پیچھے نہیں۔

میں آپ کو ایک انتہائی آسان دلچسپ اور اچھوتا طریقہ کار بتاتا ہوں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے ذہن میں خیالات کی بھرمار یا پھر اشتعال و دیگر تمام عوامل سے نہ صرف پرے رکھے گا بلکہ ذہن کو جلا بھی بخشے گا۔ اس چھوٹی سے مشق (Exercise) کے بعد آپ نہ صرف اپنے آپ کو انتہائی مختلف پائیں گے بلکہ آپ کے شعور کی بہتی ہوئی رو کی طاقت کا آپ کو اندازہ بھی ہوگا اور اس کے ثمرات سے استفادہ بھی حاصل کرسکیں گے۔ اگر آپ کسی بند کمرے میں داخل ہوں اور اندھیرے میں آپکا ہاتھ کسے لٹکتی ہوئی رسی سے چھو جائے تو آپ کو فوراً سانپ کا تصور ہوگا اور ڈر جائیں، دہشت زدہ ہو جائیں گے مگر کمرے میں روشنی ہوتے ہی آپ کو اپنے آپ پہ ہنسی آئے گی کہ جس کو میں سانپ سمجھتا رہا وہ تو صرف ایک بے ضرر رسی ہے، یہ کچھ اسی طرح کا عمل ہے، اگر آپ میں فیصلہ کرنی کی طاقت کا فقدان ہے یا پھر کسی واقعہ کو بھولنا چاہتے ہیں مگر بھول نہیں پاتے، اور یا پھر ذہن کی ہنڈیا میں تخیل کا جوش آتا ہے ( ہائی بلڈ پریشر) اور آپے سے باہر ہو جاتے ہیں، یا ذہانت کی کمی ہے اور سستی کا شکار ہیں، غرض معاملہ ہو کوئی بھی، صرف دس منٹ روزانہ (تسلسل کے ساتھ) آپ آزادانہ لکھیں یعنی ایک کاغذ اور پنسل لے لیں اور بغیر سوچے سمجھے لکھنا شروع کر دیں مگر یاد رہے کہ اپنے ذہن کی بہتی رو کو روکنے کی کوشش نہ کریں بلکہ جو کچھ بھی ذہن میں آئے بلا سوچے سمجھے لکھتے چلے جائیں اور اگر لکھنے کو دل نہ چاہ رہا ہو تو آڑھی ترچھی لکیریں ہی کھینچتے چلے جائیں۔ لکھائی خود بخود ہی شروع ہو جائے گی۔ غرض کچھ نہ کچھ لکھتے جائیں خواہ اس میں لکھی ہوئی باتیں آپ کو شرمندہ ہی کیوں نہ کریں اپنے ذہن کے بے ہنگم شور کو کاغذ پر منتقل کریں اور صرف تین سے چار ہفتے کی مشق کے بعد انقلابی تبدیلی آپ کو ہستی کے نئے میدان میں لے آئے گی جبکہ آپ کا ذہن خیالات کی بھرمار اور بے ہنگم بہاﺅ سے پاک ہو چکا ہوگا اور آپ کے ذہن کی زمین زرخیز ہو چکی ہوگی۔ اس ساری مشق کے تسلسل میں جو تحریر آپ لکھیں برائے مہربانی اس کو ساتھ ساتھ پڑھتے بھی جائیں اور ایک جگہ جمع کرتے رہیں مگر کسی دوسرے کو پڑھنے کی ہرگز اجازت نہ دیں کیونکہ ان تحریروں میں آپ کا ذہن کھلی کتاب کی طرح موجود ہے جس کو کوئی بھی آسانی سے پڑھ سکتا ہے صرف آپ اُن کو ملاحظہ کریں اور آخر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں یا دریا بُرد کر دیں البتہ اگر آپ اپنے لیے کسی شخص کو شفیق اور رہنما سمجھتے ہیں تو اِس کو دکھانے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ اس سے آپ کو اپنے بارے میں جاننے اور بہتری لانے کا موقع ملے گا جبکہ اِن مشقوں کے باعث آپ اپنا ذہنی ماحول (Mind Set) تو تبدیل کر ہی چکے ہیں اور اب آپ کا ذہن شعور کی حد (Focus) میں آ چکا ہے۔

اسی طرح جدید آلات میں ایک چھوٹی سی مشق اور حاضر ہے، مگر اس کا اصول واضع کر دوں۔ انسانی ذہن اکثر ارادہ اور خیال کی کشمکش سے دوچار رہتا ہے مگر فتح ہمیشہ خیال کو حاصل ہوتی ہے۔ ذہن ارادہ کے تابع چلنا چاہتا ہے مگر خیال اس پہ غالب آ جاتا ہے۔ لہٰذا اس خواہ مخواہ کی جنگ سے بچنے کیلئے آپ خیال کے عمل سے استفادہ کریں۔ ہزارہا عوامل ایسے ہیں کہ آپ ایک کام کا ارادہ کرتے ہیں اور عمل پزیر ہوتے ہیں مگر کچھ ہی دیر بعد آپ کو رکاوٹ محسوس ہوتی ہے اور آخر ہتھیار پھینک دیتے ہیں۔ یا ارادہ تو کرتے ہیں مگر عمل پذیر نہیں ہوتے ۔ بہرحال معاملہ کچھ بھی ہو خیال اپنی ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ہے اور اگر ترغیب Suggestion بھی شامل ہو تو یہ سونے پہ سہاگہ کا کام کرتا ہے۔ خود تلقینی Autosuggestion اپنے آپ کو تلقین دینے کے عمل کو کہتے ہیں اور یہ وہ ہتھیار (آلہ tool) ہے جو انتہائی مؤثر اور بے خطا ہے کہ جس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ اگر آپ کو اسکا صحیح استعمال آ جائے تو سمجھیں ایک خزانہ Treasure ہاتھ آ گیا۔ قوت خیال سے مستفید ہونے کیلئے خود تلقینی Autosuggestion کا عمل آپکے تمام مسائل کا حل ہے۔

دن میں ایک بار یا دو بار صرف 25 مرتبہ اپنے آپ کو ترغیب دیں اور ایک ہی فقرہ تسلسل کے ساتھ اپنے آپ سے کہیں کہ اللہ کے فضل و کرم سے میں روز بروز ہر لحاظ بہتر سے بہتر ہوتا چلا جا رہا ہوں ۔

تکلیف کچھ بھی، ذہنی ہو یا جسمانی، معاملہ کچھ بھی ہو ہے یہ تلقینی الفاظ آپ کو ہستی کے نئے میدان میں لے آئیں گے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نتائج آپ کے سامنے ہونگے۔ اس عمل کے شفا بخش اثرات اور تفاصیل احاطہ تحاریر میں ممکن نہیں ، البتہ آزمائش شرط ہے ۔ 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Muhammad Altaf Gohar
About the Author: Muhammad Altaf Gohar Read More Articles by Muhammad Altaf Gohar: 95 Articles with 163824 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.