ہیپاٹائٹس سی

لفظ ہیپاٹائٹس (Hepatitis) یونانی زبان کے دو الفاظ Hepat اور Itis کا مجموعہ ہے- Hepat سے مراد ہے کوئی بھی چیز جس کا جِگر سے تعلق ہو اور Itis کا مطلب سوزش ہے- لہٰذا Hepatitis کا مطلب ‘جگر کی سوزش‘ ہے- ہیپاٹائٹس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں بہت سے وائرسز، بیشمار کیمیائی مادے اور ادویات، بیکٹیریاز، انسانی دفاعی نظام کی بیماریاں، موروثی عوامل اور جڑی بوٹیاں شامل ہیں- ہیپاٹائٹس کا جب عام طور پر ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے مراد ہیپاٹائٹس ہوتا ہے جو وائرسز کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور اسکو وائرل ہیپاٹائٹس کہتے ہیں جبکہ ہیپاٹائٹس کی غیر وائرل اقسام بھی ہوتی ہیں-

وائرل ہیپاٹائٹس کی بیماری سماجی اور معاشی طور پر نچلے طبقے میں زیادہ پائی جاتی ہے- عام طور پر سات معروف وائرسز ہیں جو بنیادی طور پر جگر کی سوزش کا باعث بنتے ہیں اور ان کے نام اے، بی، سی، ڈی، ای، جی اور ٹی ٹی وی (انتقال خون سے منتقل ہونے والے وائرس) ہیں- لیکن اصل تشویش کا باعث پہلی چار اقسام ہیں- لیکن ان چار میں سے ہیپاٹائٹس سی زیادہ تشویش ناک ہوتی ہے-

اکثر اوقات Acute (مختصر و شدید) انفیکشن کی علامات یا نشانیاں سامنے نہیں آتیں- وہ لوگ جو بیمار ہوتے ہیں ان میں خلیوں کی رنگت پیلی پڑ جاتی ہے جو کہ آنکھوں کے سفید حصے میں اور جلد کی سطح پر زیادہ واضح نظر آتی ہے- یہی وجہ ہے کہ Hepatitis کا ایک عوامی نام ‘پیلیا‘ بھی ہے- کیونکہ Hepatitis بعض اوقات انتہائی تشویش ناک، شدید اور مزمن نتائج کا حامل ہوتا ہے لہٰذا اس کا ذکر عام طور پر موت یا معذوری کا بہت زیادہ لیکن نامعقول خوف پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے- جبکہ حقیقت میں اس سے متاثر ہونے والے اکثر افراد کسی پیچیدگی یا طویل اثرات کے بغیر بڑی اچھی زندگی بسر کر سکتے ہیں- چونکہ ہمارا موضوع ہیپاٹائٹس سی ہے لہٰذا ہم اسی پر گفتگو کریں گے-

ہیپاٹائٹس سی کو محض اس لیے تشویش کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا کہ یہ جگر پر بڑی شدت سے حملہ کرتا ہے بلکہ یہ شاذ ہی خود بخود ختم ہوتا ہے- علاوہ ازیں یہ جگر کے خلیوں کے کینسر کا باعث بھی بنتا ہے- یہاں پر یہ باور رکھنا چاہیے کہ ہیپاٹائٹس سی عوامی صحت کا ایک بڑا مسئلہ ہے اور اسے غیر اہم یا معمولی تصور نہیں کرنا چاہیے- وہ افراد جو اس میں مبتلا ہیں ان کی شناخت ہونی چاہیے اور ان کا علاج ہونا چاہئے- لیکن انفیکشن کے نتائج اتنے خطرناک نہیں ہوتے جتنے میڈیا و ذرائع ابلاغ میں پیش کیے جاتے ہیں، اس میں مبتلا جو لوگ اس بیماری کے ساتھ مرتے ہیں درحقیقت ان کی موت کی وجہ ہیپاٹائٹس سی نہیں ہوتی-

ہیپاٹائٹس سی وائرس ‘ایچ سی وی‘ ایک آر این اے وائرس ہے- یہ وائرس معدے کے تیزابی ماحول میں ہلاک ہو جاتا ہے لہٰذا پاخانے اور منہ کے ذریعے اس کے منتقل ہونے کے امکانات شاذ ہی موجود ہوتے ہیں- دراصل ہیپاٹائٹس سی کا وائرس انتقال خون کے ذریعے منتقل ہوتا ہے- چونکہ رواں زمانہ میں تمام عطیہ شدہ خون کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے لہٰذا اس ذریعے سے اس کا انتقال اب زیادہ عام نہیں رہا- اب ہیپاٹائٹس سی کی شرح انتقال خون کے مریضوں میں ایک لاکھ میں سے ایک رہ گئی ہے-

ہیپاٹائٹس سی وائرس کی منتقلی کا سب سے بڑا ذریعہ نشہ آور ادویات کو استعمال کرتے ہوئے ایک ہی سوئی کا مشترکہ استعمال ہے- تعلیمی کوششوں اور ایڈز کے خطرے نے ایک سوئی کا مشترکہ استعمال تقریباً ختم کر دیا ہے لہٰذا ہیپاٹائٹس سی کے نئے مریضوں کی تعداد میں بھی قابلِ ذکر کمی واقع ہوئی ہے- گردوں کے ڈایالائسس کے ذریعے بھی ہیپاٹائٹس سی کے وائرس منتقل ہو سکتے ہیں جہاں خون کی بہت زیادہ مقدار استعمال ہوتی ہے-

ہیپاٹائٹس کی کوئی بھی قسم ہو یہ دو قسم کا ہوتا ہے- Acute Hepatitis اور Chronic Hepatitis- ہم ‘ہیپاٹائٹس سی‘ کو مدِنظر رکھتے ہوئے ‘اکیوٹ ہیپاٹائٹس سی‘ اور ‘کرانک ہیپاٹائٹس سی‘ پر باری باری بحث کریں گے-

اکیوٹ ہیپاٹائٹس سی اور اسکی علامات و تشخیص:
اکیوٹ ہیپاٹائٹس لفظ ایسی بیماریوں کے استعمال ہوتا ہے جن کا دورانیہ مختصر ہوتا ہے لیکن علامات شدید ہوتی ہیں- اکیوٹ ہیپاٹائٹس سی کی علامات میں سے بھوک کا ختم ہو جانا، ابکائیاں آنا جو بعد میں الٹیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں، ہلکا بخار، جی متلانا، جوڑوں کا درد، پیشاب کا رنگ گہرا براؤن ہو جانا، پاخانے کا رنگ ہلکا ہو جانا، مسلز کا درد اور جلد پر سرخ دھبے ظاہر ہوتے ہیں اور آخر میں یرقان کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں جسے پیلیا بھی کہا جاتا ہے، لیکن یہ علامات عام طور پر نمایاں نہیں ہوتیں البتہ یرقان ایک ٹھوس علامت ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور عام طور پر یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب مریض ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے- بعض مریض وقفے وقفے سے جلد پر پریشان کرنے والی خارش بھی محسوس کرتے ہیں جو کہ وہاں صفرا کے جمع ہو جانے کی وجہ سے ہوتی ہے- تمباکو نوشی کرنے والوں کے لیے سگریٹ کا ذائقہ تبدیل ہو جانا بھی ایک نمایاں علامت ہے اور جو تمباکو نوشی نہیں کرتے وہ اکثر منہ میں گندے ذائقے کی شکایت کرتے ہیں-

کرانک ہیپاٹائٹس سی اور اسکی علامات و تشخیص:
کرانک ہیپاٹائٹس سے مراد جگر کی ایسی سوزش ہے جو چھ ماہ سے زیادہ عرصہ تک قائم رہے- اس کے لاحق ہونے کی وجہ، وائرس سے نجات حاصل کرنے میں جسم کی نااہلی، کسی خطرناک دوا کا استعمال ترک کرنے میں مریض کی ناکامی، خودبخود پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز یا دوسرے ایسے عوامل جو سوجن کا باعث بن سکیں، ہوتی ہے- ہیپاٹائٹس سی کے پچھتر سے اسی فیصد مریضوں میں یہ کرانک صورت اختیار کر سکتا ہے- کرانک ہیپاٹائٹس کی علامات یا تو بالکل ظاہر نہیں ہوتیں یا پھر اتنی کم اور سست رو ہوتی ہیں کہ انہیں آسانی سے نظرانداز کیا جاسکتا ہے، جب تک کہ جگر کا نقصان ناقابلِ واپسی حد تک نہ پہنچ جائے- یہی وجہ ہے کہ بہت سے افراد کو علم نہیں ہوتا کہ ان کو کرانک ہیپاٹائٹس سی ہے اور اس کا اس وقت علم ہوتا ہے جب کسی بھی وجہ سے خون کا ٹیسٹ کروایا جائے اور جگر کے غیر معمولی ٹیسٹ سامنے آئیں- زیادہ تر صورتوں میں طبی معائنہ مکمل طور پر معمول کے مطابق ہوتا ہے لیکن کچھ میں جگر قدرے بڑا اور نرم ہوسکتا ہے- کرانک ہیپاٹائٹس کی ایک منفرد خاصیت یہ ہے کہ جگر کے ٹیسٹوں میں مختلف وقفوں میں (عام طور پر ہفتوں کے دوران) نتائج اور نمایاں طور پر غیر معمولی نتائج کے درمیان بہت زیادہ اتار چڑھاؤ کا رحجان پایا ہے، یعنی کبھی تو نتائج بالکل معمول کے مطابق ہوتے ہیں اور کبھی غیرمعمولی ہوتے ہیں-

ہیپاٹائٹس سی کا علاج و بندوبست:
ہیپاٹائٹس سی کا علاج ‘انٹرفیرن الفا‘ اور ‘ریباوائرن‘ کا بیک وقت استعمال ہے- انٹرفیرن (انجیکشن) کسی بھی وائرس کے خلاف ایک قدرتی دفاعی میکانزم ہے- یہ مرکب براہ راست اینٹی وائرل اثرات کا حامل ہے اور ساتھ ہی ساتھ امیون سسٹم (جسم کا دفاعی نظام جو انفیکشن یا وائرس کے خلاف ردِعمل پیدا کرتا ہے، امیون سسٹم کہلاتا ہے) کو متحرک کرتا ہے- کیونکہ انٹرفیرن ایک پروٹین ہے لہٰذا اس کا انجکشن کے ذریعے استعمال ضروری ہے، اگر منہ کے ذریعے لی جائے تو معدے اور آنتوں سے خارج ہونے والے مادے اسے تباہ کر دیتے ہیں- انٹرفیرن کی تین مختلف اقسام ہیں جنہیں انٹرفیرن الفا، انٹرفیرن بیٹا اور انٹرفیرن گاما کہا جاتا ہے- ہیپاٹائٹس سی وائرس کے لیے انٹرفیرن الفا ہیپاٹائٹس سی وائرس کے خلاف مؤثر ثابت ہوتی ہے اور یہ وائرس پر دو طرح سے اثرانداز ہوتی ہے- ایک تو یہ براہ راست زہریلے اثرات کی حامل ہے دوسرا یہ خلیاتی امیون سسٹم کو متاثرہ خلیوں پر زیادہ شدت سے حملہ کرے کے لیے براہ راست متحرک کرتی ہے- علاج کا مقصد جسم کو وائرس سے نجات دلانا ہوتا ہے جب یہ مقصد حاصل ہو جائے تو اسے علاج کا ‘وائرولاجک ردعمل‘ (Virologic Response) کہا جاتا ہے- ‘ریباوائرن‘ دوا کو اگر اکیلے میں استعمال کیا جائے تو ہیپاٹائٹس سی وائرس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا- یہ ‘انٹرفیرن الفا‘ کے ذیلی اثرات کو تبدیل نہیں کرتی- ریباوائرن عام طور پر زیادہ قابلِ برداشت دوا ہے- اس کو استعمال کرنے والوں کی ایک قلیل تعداد میں کھانسی اور سانس چڑھنے کی شکایت سامنے آسکتی ہے- ریباوائرن معمول کے مطابق خون کے پرانے سرخ خلیوں کو تباہ کرنے کا باعث بنتی ہے- بعض مریضوں میں ‘ریباوائرن‘ کے خلاف الرجی پیدا ہو جاتی ہے جو کہ جلد میں سرخی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے، ایسی صورت میں اس دوا کو فوری بند کردیا جاتا ہے- ہپاٹائٹس سی کے وہ مریض جن میں ‘وائرولاجک ردعمل‘ پایا جاتا ہے، ان میں علاج کے اختتام پر وائرسز سے یقنی نجات کا نوے فیصد امکان پایا جاتا ہے-

ہیپاٹائٹس سی سے بچاؤ، حفاظتی تدابیر:
ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں میں بدستور کمی واقع ہو رہی ہے جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ عطیہ شدہ خون اور خون سے تیار ہونے والی دوسری ادویات جو کہ جسم میں انجکشن کے ذریعے داخل کی جاتی ہیں، کے لیے باقاعدگی سے وائرس کی موجودگی کا پتا لگانے کے لیئے ٹیسٹ کیا جاتا ہے- جسم پر سوئی سے گود کر نام لکھوانا یا نقش و نگار بنوانا ایک ایسا عمل ہے جس میں مختلف وائرسز کی منتقلی کے امکانات موجود ہوتے ہیں لہٰذا اس سے اجتناب برتنا چاہیے، ہر ایک کو اپنا ذاتی بلیڈ، استرا، ٹوتھ برش اور تولیہ استعمال کرنا چاہیئے اور صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہئے-

(نوٹ: راقم نے یہ معلوماتی مضمون اپنی ایک دوست محترمہ سیٹھی صاحبہ جن کے والد صاحب ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا ہیں، کی درخواست پر بطورخاص لکھا ہے - سب معزز قارئین سے خاکسار پرسنلی درخواست کرتا ہے کہ ازرائے مہربانی موصوفہ کے والد صاحب کی جلد صحتیابی کے لیے دعا کی جائے کہ جب ‘دوا‘ اور ‘دعا‘ اکٹھے کام کریں تو انشااللہ بگڑے کام بہت جلد سنور جاتے ہیں- شکریہ)

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Najeeb Ur Rehman
About the Author: Najeeb Ur Rehman Read More Articles by Najeeb Ur Rehman: 28 Articles with 68414 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.