دہشت گردی کی دوسری قسم!

ملک میں جب بھی ہم کالم نگاران دہشت گردی کی بات کرتے ہیں توفوری طورپرہمارے ذہن میں بم دھماکوں کے ذریعہ معصوم افرادکی ہلاکتیں آتی ہیں لیکن آج ہم آپ سب کودہشت گردی کی ایک اورقسم سے متعارف کروانے جارہے ہیں اوروہ ہے انتظامیہ کی دہشت گردی۔ذمہ داریوں سے فرار‘ لاپرواہی اوربدعنوانیوں‘ کرپشن‘ مہنگائی‘بے روزگاری سے نابلد ارباب‘ اوراس جیسے کتنے ہی مہلک ہتھیاروں سے لیس دہشت گردی کی یہ الگ قسم ہے جوکتنے ہی زندگیوں کونگل رہی ہے۔بڑھتی ہوئی آبادی اور تیز رفتارزندگی نے نہ صرف شہروں بلکہ نواحی علاقوں میں بھی مٹی کے سڑکوں سے سیمنٹ اور کنکریٹ کے سڑکیں اور موٹر وے میں تبدیل کردیاہے مگرملک کے غریبوں کی حالتِ زار نہ بدلی ہے اورگمان یہی ہے کہ نہ ہی بدلے گی۔کیونکہ بقول طاہر القادری صاحب کے اس وقت سب کے سب اپنی اپنی سیاست بچارہے ہیں ریاست بچانے کے لئے کوئی آگے نہیں بڑھ رہاہے۔اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ ملک میں شہریوں کو بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی ہے،ان کی جان و مال کی حفاظت نہیں ہے ۔اگر انتظامیہ اپنی ان تما م ذمہ داریوں کو پوری دیانتداری وایمانداری سے نبھانے لگیں توپھرشہریوں کوکوئی پریشانی لاحق نہیں ہوگی،لیکن افسوس اسی بات کا ہے کہ دیانت،فرض شناسی وایمانداری جیسے الفاظ آج عملی زندگی سے مفقود ہوچکے ہیں۔صرف بیان بازی کے لئے‘ تقاریر کے لئے اور کتابوں میں پند و نصائح کے لئے ان کا استعمال باقی رہ گیاہے۔جبکہ عملی طورپرفرائض سے پہلو تہی‘ غفلت‘ لاپرواہی‘ کرپشن جیسے سماج دشمن عناصرہماری زندگیوں میں جگہ پاچکے ہیں جس کا خمیازہ اس ملک کے عوام کوبھگتناپڑرہاہے۔اس بات سے بھی کسی کوانکارنہیں کہ میونسپل وبلدیاتی نظام ملک بھرمیں کہیں موجودنہیں ہے کیونکہ تاحال اس کے الیکشن نہیں ہوئے اورجونظام چل رہاہے اسے عوامی تائید حاصل نہیں۔اس لئے عوام کوچاہیئے کہ انتظامیہ کی اس دہشت گردی کے خلاف کمر بستہ ہو ں اورعوام سمیت انتظامیہ کے سبھی لوگ اسے جڑ سے ختم کرنے کاعزمِ مصمم کر یں تاکہ ملک کی تقدیر سنور جائے۔میر تقی میرؔ نے کہا تھا:
میر صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھامیئے دستار

میں نہیں جانتا کہ میرؔ صاحب کے زمانے میں زمانہ کتنانازک تھاکیونکہ آج ہم جس دورسے گزر رہے ہیں زمانہ بدستور نازک ہے۔میرؔکے زمانے میں شاہی کاخاتمہ تقریباً ہوچکاتھالیکن شاہانہ طرزِ زندگی کے اثرات باقی تھے اس لئے لوگ دستارپہنتے ہوں گے۔ اب دستار کی جگہ ’’عوام کو بیوقوف بنانے والوں ‘‘ لے لی ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ عوام ہوشیاررہیں۔ویسے بھی جمہوریت میں انسانی حقوق کوزیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے اورملک کاجمہوری نظام بھی ایساہوناچاہیئے کہ جس میں انسانی حقوق کاتحفظ لازمی ہو۔اورجمہوریت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ملک کے عوام اورسیاسی لیڈبھی اپنی بد عملیوں سے جمہوریت کی روح کومسخ نہ کریں۔جمہوریت میں آزادی کا ایسا فائدہ نہ اٹھایا جائے جس سے یہ محسوس ہوکہ جمہوری آزادی ملک اور عوام کے لئے نقصان دہ ہے۔کہنے کامطلب یہ ہے کہ جمہوری آزادی کسی بھی ملک میں ہواس کامطلب ہرگزیہ نہیں ہے کہ اس آزادی سے غلط فائدہ اٹھاکر حکمرانوں کو بدنام کریں یا عوام کو بیوقوف بنائیں۔سب کوبد عملیوں کوچھوڑ کرملک اوراس میں بسنے والوں کے لئے بہتر سے بہتر سہولتیں فراہم کیا جائے۔

کہتے ہیں کہ خوشحال حکمرانوں کو تنگ کرنے کے لئے ایک عالمی ادارہ قائم ہے جسے لوگ ٹراسپیرنسی انٹر نیشنل یعنی کرپشن کو آرپار دیکھنے والا ادارہ کہتے ہیں۔اب یہ اور بات ہے کہ اس ادارے کا اپنا آرپار ٹرانسپیرنٹ نہیں ہے پھربھی اس کی رپورٹ کو تحریرکیئے دیتاہوں جو اس ادارے نے کرپشن سے متعلق ظاہر کی ہیں۔رانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن سے متعلق جو رپورٹ کچھ عرصے پہلے جاری کی تھی اس کے مطابق پاکستان میں کرپشن کی صورتحال انتہائی ابترہے۔رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ بد عنوان ملکوں میں ہمارے ملک کانمبر بیالیسواں تھا اور اب ہمارا نمبرکرپٹ ترین ممالک میں تیتیسواں ہوچکاہے۔ہمارے یہاں عربوں روپئے کی بدعنوانیاں ہو رہی ہیں،یہ رپورٹ ہمارے لئے انتہائی مایوس کن صورتحال ظاہر کر رہی ہے ،خداخیرکرے اورہمیں اس کرپشن کے لفظ سے محفوظ فرما دے اورکرپشن کرنے والوں کو بھی ہدایت نصیب فرمائے تاکہ ملکی ترقی میں کوئی رکاوٹ نہ رہے۔

ایک اخبار کے مطابق پچھلے ساڑھے پانچ سالوں میں جن میں نئی حکومت کے بھی دو ماہ شامل ہیں ملک توانائی کے بحران میں پھنسا ہوا ہے جس کاکوئی سد باب ابھی تک نہیں کیاجاسکا۔اسی بحران کی وجہ سے ملکی معیشت بھی گرداب میں پھنس چکی ہے۔تودوسری طرف ان سالوں میں آپ موازنہ کریں کہ دودھ پچیس روپئے سے اسّی روپے ،آٹاتیرہ روپے سے تیتیس روپے اورچاول بیالیس روپے سے سو روپے کلوتک جاپہنچاہے۔مختلف رپورٹس میں آیاہے کہ پرانی اور نئی حکومت کے ان ماہ وسال کے دوران مہنگائی میں دو سوبیس فیصد تک اضافہ ہوچکاہے جبکہ نئے نوٹ کے چھاپے جانے کی وجہ سے بیروزگاری میں بھی انتہائی اضافہ ہوچکاہے۔چینی ستر روپے،کوکنگ آئل کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ کردیاگیاہے۔ڈالر کبھی ساٹھ روپے کاتھااورآج اس نے سینکڑے کاہندسہ عبورکرلیاہے۔موبائل صارفین پرٹیکس بڑھا یاجاچکاہے،بجلی آتی کم ہے اور غائب زیادہ رہتی ہے مگر اس کے یونٹس کے ریٹس میں کئی گنااضافہ کردیاگیاہے اسی طرح گیس کاحال بھی ہے۔کن کن مسائل کوعوام روئیں گے،کن کن مسائل پرگریہ کریں یہ عوام۔حکومتوں کے ہرہراقدام سے مہنگائی اور بیروزگاری میں خطرناک اضافہ ہورہاہے۔عام آدمی کے لئے ایسے نامساعد حالات میں دو وقت کی روٹی کا حصول اوراپنے گھریلو اخراجات کوپوراکرناناممکن ہوچکاہے۔مگرحکومتیں تاحال اپنی پالیسیوں کودرست سمت میں لانے پرتیارنظر نہیں آتی جس کابیّن ثبوت بجلی اورگیس کی بد ترین لوڈ شیڈنگ سے لگایاجاسکتاہے۔ملک میں معاشی حالات ایسے سست ہوچکے ہیں کہ جس کے باعث ملازمتوں کی عدم فراہمی سے غریب اورامیرمیں خلیج مستقبل بڑھ رہاہے۔اس پربھی کان دھرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس انتہائی خطرناک ناسور’’بے روزگاری ‘‘پرقابوپایاجاسکے۔پچیس سے تیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والاایک عام فردکس کسمپرسی کی زندگی گزاررہاہے یہ امیرلوگ جانناہی نہیں چاہتے تبھی تویہاں کے لوگوں میں امیرطبقہ امیرتراورغریب طبقہ غریب ترہوتاچلاجارہاہے۔آپ سوچیئے!بجلی کابل ڈھائی ہزار روپے ماہانہ،پھرگیس،پانی،اورپراپرٹی ٹیکس کے بلوں کی ادائیگی،بچوں کی کفالت بشمول میڈیکل کے اخراجات،ماہانہ فیول کے اخراجات ،بچوں کی پڑھائی،اوریوں یہ تمام رقم مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتاہے اورکسمپرسی جیسے حالات شروع ہوجاتے ہیں۔ غرض کے اب صرف زبانی نعروں سے کام نہیں بننے والابلکہ نئی حکومت کوعوام کی بہتری کے لئے کام کرناپڑے گاتاکہ ان خطرناک اور مہلک ناسورجوعوام کوجینے کے حق سے محروم کررہے ہیں اس کاخاتمہ ممکن ہو سکے ۔

Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 338991 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.