9/11 دنیا کے امن کیخلاف اسلحہ کی صنعت سے وابستہ سرمایہ داروں کی سازش

امن کے نام پر دنیا کو بدامنی اور معاشی خانہ جنگی سے دوچار کرنے والے امریکہ کی معیشت خود غرقاب ہورہی ہے
فرانس امریکی تقلید میں شام پر حملہ کرکے اپنی تباہی کے اسباب پیداکرنے سے گریز کرے

9ستمبر2001ءمیںنیو یارک اور واشنگٹن پر ہونے والے وحشیانہ حملوں اور ورلڈٹریڈ ٹاورز(ٹوئن ٹاور)کی تباہی کے بعد کے تیرہ ہنگامہ خیز برسوں میں دنیا جنگوں، دہشت گردی، خونریزی، معاشی اور سماجی بربادی کے ہاتھوں بہت تاراج ہوئی ہے۔ یہ خوفناک واقعہ تاریخ کا ایک اہم موڑ تھاجس کا نقش اجتماعی نفسیات پر ثبت ہو چکا ہے۔لگ بھگ تین ہزار امریکی محنت کش اس تباہی میں ہلاک ہوئے۔ مرنے والوں میں سے کسی کا تعلق بھی امریکی اشرافیہ سے نہیں تھا۔ اس مجرمانہ اور پاگل پن کی کاروائی کو کرنے والے ہر طرح سے قابل مذمت ہیں لیکن ان منافقانہ وجوہات کی بنا پر نہیں جو اس وقت بش اور بلےئر بیان کر رہے تھے۔
9/11 سے متعلق لا تعداد من گھڑت تھیوریاں پیش کی جا چکی ہیں۔ ہر تھیوری کے پیچھے اپنے مفادات ہیں لیکن یہ بات انتہائی حیرت انگیز و فکر انگیز ہے کہ دنیا کی سب سے قوی عسکری اور معاشی طاقت کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اتنی ناکارہ تھیں کہ انہیں اتنے بڑے حملے کے منصوبے کا علم ہی نہیں تھا ۔
کو ٹیڈ گرانٹ اور ایلن وڈز نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ”یہ کیسے ممکن ہے کہ سی آئی اے اتنی بے خبر اور نا اہل تھی کہ اس نے امریکہ کے قلب پر اتنے تباہ کن حملے ہونے دئیے؟

9/11دہشتگردی کا ایک امکان جسے مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے یہ ہے کہ یہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی اپنی ترغیب تھی جو قابو سے باہر ہو گئی۔ سازشوں، اشتعال انگیزیوں اورجوابی اشتعال انگیزیوں سے بھری خفیہ ایجنسیوں کی اندھیری دنیا میں یہ خارج از امکان نہیں ہے کہ امریکی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ایک دھڑے نے بڑے پیمانے پر جنگجو پالیسی اور جنگی سازو سامان کے حصول کے لئے حمایت حاصل کرنے کی غرض سے خود امریکہ کے اندر 9/11 کا دہشتگردانہ حملہ کرایا اور دنیا کا سب بڑا ڈرامہ تخلیق کرڈالا لیکن ان حملوں کی تباہ کاری سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اشتعال انگیزی پر مبنی یہ پلاننگ قابو سے باہر ہو گئی“جبکہ 9/11کے بعد امریکی اسلحہ ساز و عسکری صنعت (ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس) کے دنیا کے سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار بن جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ 9/11 کا واقعہ حقیقت میں وہ نہیں جس کا اظہار کرکے دنیا کو جنگ کی بھٹی میں جھونکا جارہا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ 11 ستمبر 2001 ءکے بعد تیرہ سال گزر جانے کے باوجود اس دہشت گردی کے واقعے کا حقیقی سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کے مفکروں اور تجریہ کاروں نے سیاق وسباق سے عاری سازشوں اور قیاس آرائیوں پر مبنی لا محدود من گھڑت تھیوریا ں پیش کیں۔امریکی سامراجی آقاو ¿ں نے فٹا فٹ ایک مکمل تجزیہ اور منصوبہ پیش کر دیا جیسے کے پہلے سے تیا ر انکے درازوں میں پڑا ہوا تھا۔امن پر مبنی” سامراجی جارحیت“ کی انتقامی پالیسی کو فوری طور پر لاگو کر دیا اور پہلے افغانستان اور پھر عراق پر فوج کشی کا جواز بنا لیا۔ یہ واقعہ جس میں تین ہزار سے زائد امریکی محنت کش مارے گئے تھے جتنا المناک تھا اسکوامریکی سامراج نے اتنی ہی بے دردی اور سفاکی سے استعمال کیا ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 1990 ءکی دہائی میں رجعت پر ست سامراجی نظریہ دان سیمویل ہنگٹن نے ”تہذیبوں کے تصادم“ کاجو نظریہ پیش کیا تھا اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے9/11 جیسا دیو ہیکل واقعہ تخلیق کیا گیا۔جس کے بعد دہشتگردی کے خاتمے اور دنیا کو دہشتگردی سے بچاکر مستقبل محفوظ بنانے کے نام پردنیا کو جنگ کی بھٹی میں جھونک کر امریکی اسلحہ ساز و عسکری صنعت (ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس) کے دنیا کے سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار بن جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ 9/11 کا واقعہ حقیقت میں وہ نہیں جس کا اظہار کرکے امن کے نام پر دنیا کو معاشی خانہ جنگی سے دوچار کرنے کی سازش کی جارہی ہے جبکہ لاک ہیڈ مارٹن، جنرل ڈائینا مکس، ہیلی برٹن، جنرل الیکٹریک اور دیگرامریکی واسرائیلی کمپنیاں اس خود ساختہ ”نفاذامن “ کا سہارا لیکربے پناہ دولت کی مالک بن چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 9/11 کے فوری بعدامریکی جنگی مشینری ایسے حرکت میں آئی جیسے افغانستان اور عراق پر حملے کا تفصیلی منصوبہ پہلے سے ہی ان کے پاس موجود ہو۔ ان جنگوں پر آنے والی مجموعی لاگت 5ہزار ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے اوراس رقم کا بڑا حصہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بنانے والوں کی جیبوں میں جا رہا ہے۔انتہائی محتاط اندازوں کے مطابق عراق اور افغانستان میں قریباًدولاکھ بے گناہ شہری قتل اور ایک کروڑ سے ائد ہجرت پر مجبور ہوئے ۔ یہ سب کالے دھن کے پجاری و درندہ صفت بنیاد پرست دہشت گردوں ‘منڈیوں اور اقتدار کے بھوکے سامراج کی وحشت ناک بربریت ہے۔ امریکی محنت کش اور نوجوان بھی اس معاشی و سماجی یلغار کا شکار ہوئے ہیں جواس جنگ کے اخراجات پورے کرنے اور جوئے پر مبنی مالیاتی اداروں اور بینکوں کو بچانے کی خاطر ان پر مسلط کی گئی ہے۔محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں امریکی نوجوان، سامراج کے دیوانہ وار ننگے ناچ کا شکار بن چکے ہیں جن کے پاس تیزی سے بڑھتی ہوئی بیروزگاری میں مسلح افواج میں بھرتی ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھاجبکہ جنگ کا دائرہ کار ابھی مسلسل فروغ پارہا ہے ایک جانب امریکہ افغانستان و پاکستان میںبدستور ڈرون حملے کررہا ہے تو دوسری جانب مصر اور شام کو بھی جنگ کی بھٹی میں جھونک کر سرمایہ دارانہ نظام کے متوالوں کی تجوریاں بھرنے کی سازش وسعت پارہی ہے اور اب تو فرانس نے بھی امریکی وطیرہ اپناتے ہوئے شامی عوام کے تحفظ کے نام پر شام پر حملے کا عندیہ دے دیا ہے مگرفرانس کو یامریکی تقلید سے قبل اس حقیقت کا ادراک کرلینا چاہئے کہ امریکی حکمران طبقہ بین الاقوامی معاملات میں اکثر حماقت کی حد تک کم نظری اور محدود سوچ کاحامل ہے۔ یہ امریکی سائنس اور ٹیکنالوجی کے حاصلات اور یہاں کی سیاسی اشرافیہ کے عامیانہ پن اور پسماندگی کے مابین ایک تضاد ہے۔ امریکی سامراج کی بے پناہ قوت، اس کی بے شمار دولت اور سویت یونین کے انہدام کے بعد ساری دنیا پر غلبے کی وجہ سے اس میں ہتک آمیز تکبر پیدا ہوا لیکن داخلی اور خارجہ پالیسی میں مسلسل ناکامیاں اس سلطنت کے آخری زوال کو عیاں کر رہی ہیں۔ ایک طرف دور دراز کے ممالک کو تباہ کرنے کے باوجود امریکی سامراج کو ایک کے بعد دوسری شکست کا سامنا ہے اور دوسری جانب تیزی سے پھیلتا ہوا بحران امریکی معیشت کو کھائے جا رہا ہے اور سماج میں بے اطمینانی نی سرایت کر چکی ہے جبکہ اس رپورٹ کے منظر عام پر آجانے کے بعد کہ افعانستان و پاکستان میں جو ڈرون حملے جاری ہیںان کے متعلق یہ خدشات ہیں کہ عام طور پر سی آئی اے کو معلوم نہیں کہ جن افراد کو ان حملوں سے مارا جاتا ہے وہ کون ہیں اور ان کو کیوں مارا جارہا ہے۔ امریکی فوج کے مطالبات کے آگے اوباما حکومت کی پسپائی اور ڈرون حملے جاری رکھنے کی حکمت عملی اس بات کا ثبوت ہے کہ فرانس نے اگر امریکی تقلید کی کوشش کی تو اس کی معیشت تو زبوں حالی سے دوچار ہوگی ہی اس کا سیاسی نظام بھی فوج کا تابعدار ہوجائے گا اور فرانس کا رول ماڈل سیاسی نظام بدترین ہیئت سے دوچار ہوجائے گا کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کے فوجی کوئی دفاعی جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ یہ ایک سامراجی نظام کو دنیا پر مسلط کرنے کی جنگ ہے اور فرانس شام پر حملے کے نام پر خود کو اس جنگ کاایندھن بنانے جارہا ہے اس سے قبل بھی امریکی مداخلت سے پہلے ویت نام میں فرانسیسی سامراجیوں کی نو آبادکاری کی کوشش نے 1950 ءکی دہائی میں کو ڈین بین پھو (Dien Bien Phu) کے مقام پرفرانس کو شکستِ فاش سے دوچار کیا تھا اور اس جنگ میں جب فرانسیسی سامراج کی شکست پر امریکی وزیرِ خارجہ جان فاسٹرڈلس نے فرانسیسی جرنیلوں کو دوایٹم بم ویت نام کے عوام پر پھینکنے کی پیشکش کی تھی۔ لیکن فرانس کے حکمرانوں ہوشمندی کا مظاہرہ کیا اورفرانسیسی محنت کشوں کے ردِعمل سے خوفزدہ ہوکر امریکی پیشکش سے استفادہ نہ کرکے اپنے معاشی نظام کو تباہی سے بچالیا تھا جس کے بعد امریکی سامراج نے ویت نام پر جو جارحیت کی اس میں جہاں امریکہ کے 58000 فوجی مارے گئے تھے وہاں 20 لاکھ ویت نامیوں کا خون کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود 1975 ءمیں امریکی سامراج کو شکست و ریخت کی ذلت کا سامنا کرنا پڑااور ایسا ہی کچھ ایک بار پھر امریکہ کے ساتھ ہونے جارہا ہے اور اگر اس بار بھی فرانس نے ہوش مندی سے کام نہیں لیا تو شاید اس کا انجام بھی امریکہ سے مختلف نہ ہو کیونکہ 2008-09ء کے بحران کے بعد سے امریکی صدمے والی کیفیت میں ہیں۔ ان کی خوش فہمی تھی کہ یہ محظ ایک غیر معمولی عمل ہے اور چیزیں جلد ہی معمول پر آ جائیں گی۔لیکن اب ایک نیاتکلیف دہ ’ ’معمول“ ان کا مقدر بن چکا ہے۔ سرمایہ داری کا بحران اجرتوں، حالاتِ زندگی اور مراعات میں گراوٹ لا رہا ہے۔ محنت کشوں کے پاس اس کے خلاف لڑنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔گزشتہ 30برس میں دولت غیر معمو لی طور پر اوپر کی جانب منتقل ہوئی ہے اور محنت کشوں کی پیدا کردہ دولت کا بڑا حصہ پہلے سے ہی بے حد امیر افراد کی جیبوں میں جاتا رہا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں امریکہ کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں تین گنا اضافہ ہوا ہے لیکن اجرتوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور اگر افراط زر کو شمار کریں تو ان میں کمی واقع ہوئی ہے۔ امارت اور غربت کی یہ خلیج اب بے پناہ وسیع ہو چکی ہے۔ڈیموکریٹ اور ری بپلکن امریکی پرولتاریہ کے خلاف سرمایہ داروں کے احکامات پر عملدرآمد کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ 1930ءکی دہائی میں امریکہ دنیا کا سب سے بڑاقرض خواہ ملک تھا اور آج دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک بن چکا ہے۔ مئی2012ء میں امریکہ کا مجموعی سرکاری قرضہ 15.7ٹریلین ڈالر تھا جو مجموئی قومی پیداوار کا 102فیصد ہے۔

امریکہ میں خوشحال زندگی کے خواب کی مادی بنیادیں ٹوٹ کر بکھر گئی ہیں۔ 1930 ءکی دہائی کے بعد سے پہلی مرتبہ امریکیوں کی اکثریت آمدن اور دولت کی از سر نو تقسیم کے حق میں ہے۔ پیو (Pew) ریسرچ کے مطابق18سے 29برس کی عمر کے 49فیصد امریکی سوشلزم کے حق میں ہیں جبکہ 43 فیصد سرمایہ داری کے۔وال سٹریٹ پر قبضے کی تحریک سے امریکہ اور ساری دنیا ششدر رہ گئے۔ تیونس، مصر، سپین،یونان اور وسکانسن کے واقعات سے متاثر ہو کرشروع ہونے والی چھوٹی سی تحریک امریکہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور ساری دنیا میں اس کے اثرات مرتب ہوئے۔ مظاہرین کے مقاصد مختلف تھے لیکن وہ موجودو صورتحال کے خلاف تبدیلی کے لیے متحد تھے۔ امریکی محنت کشوں اور نوجوانوں پر لگایا جانے والا ”بے حسی “ کا الزام خاک میں مل گیا۔ اب تک سامراجی آقا 9/11کے آسیب سے ڈرا کر ساری دنیا میں محکوم طبقات کو مجبور کرنے کی جس سازش کے ذریعے دنیا کو اپنی تباہ ہوتی معیشت کے تحفظ کیلئے محافظ و ڈھال بناتا چلا آیا ہے اس پر سے نقاب اتر رہا ہے اور دنیا دہشتگردی کے خوف کے ساتھ امریکی سحر سے بھی آزاد ہورہی ہے اور امریکہ میں طبقاتی جدوجہد کے ایک نئے عہد کا آغاز ہوچکا ہے جس کے بارے میں ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ یہ ”وہ فولاد کی بھٹی ہے جس میں دنیا کا مستقبل پک کر تیار ہو گا“اور فرانس کو چاہئے کہ وہ شام پر حملے کے ذریعے خود کو دنیا کا مستقبل پکانے والی اس بھٹی میں خاکستر ہونے سے بچانے کیلئے امریکی سحر تقلید سے آزاد کرکے اپنے وسائل کو اپنی عوام کی فلاح و بہبود اور معاشی وسماکی ترقی کیلئے وقف کرے کیونکہ 9/11 کا اونٹ امریکی معاشی تباہی کی جانب بیٹھنے کیلئے کروٹ بدل چکا ہے اور جس دن یہ اونٹ بیٹھا امریکی معیشت اس کے نیچے پس کر ریزہ ریزہ اور اس کے غرور کا بت چور چور ہوجائے گا ۔
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 194 Articles with 146488 views The Visiograph Design Studio Provide the Service of Printing, Publishing, Advertising, Designing, Visualizing, Editing, Script Writing, Video Recordin.. View More