پاک، افغان ملاقات کے اہم نقطات و تحفظات

افغان صدر حامد کرزئی ، پاکستان کے اہم دورے پر تشریف لائے اور ان کی صدر پاکستان آصف علی زرداری سے الودعی اور وزیر اعظم پاکستان سے ابتدائی ملاقات ہوئی۔صدر افغان ، پاکستان کے بارے رجحان سے تمام دنیا بہ بخوبی واقف ہے کہ وہ پاکستان کیلئے کس قسم کے" جذبات" رکھتے ہیں۔یقینی طور پر ان کے دل میں پاکستان کیلئے نرم گوشے کا فقدان ہے ، متعدد بار ان کی جانب سے پاکستان پرالزامات اور افغانستان کی جانب سے پاکستانی حدود کی مسلسل خلاف ورزی معمول اورتواتر جاری رہتے ہیں۔بظاہر یہ ظاہر کیا گیا کہ افغان صدر کرزئی نے پاکستان سے متعدد ترقیاتی منصوبوں ، طورخم اور جلال آباد سے ریلوے لائن ملانے اور شاہراؤں کی تعمیر سمیت دہشت گردی سے نمٹنے سمیت تمام امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔پاک، افغان کی جانب سے کچھ معائدوں پر دستخط بھی کئے گئے۔تاہم پاک، افغان مذاکرات کا اہم قابل توجہ نقطہ ، افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا ء کے بعد اور پہلے پیدا شدہ صورتحال پر تبادلہ خیال اور لائحہ عمل پر غور و فکر تھا۔دورے کی اہمیت دوچند اس صورت بھی ہوچکی تھی کیونکہ انخلا ء کے بعد افغانستان میں تشکیل حکومت کے لئے صدارتی انتخابات اور طالبان کے حوالے سے پاکستان کا تعاون افغانستان کیلئے ناگزیر تھا۔پاکستان ، امریکہ اور طالبان کے حوالے سے مذاکرات کیلئے اپنے مثبت کردار ادا کرچکا ہے اور پاکستان نے واضح بھی کیا ہے کہ مثبت اقدامات کیلئے پاکستان اپنا کردار خطے میں امن کیلئے ادا کرتا رہے گا۔پاکستان پہلے ہی قطر میں طالبا ن کو امن کیلئے مذاکرات کی میز تک لانے کیلئے اپنا بھرپور مثبت کردار کرچکا ہے اور اپنی سرزمین میں گرفتار متعدد طالبان رہنماؤں کو خطے میں امن کے خاطر خیر سگالی کے جذبے کے تحت رہا بھی کر چکا ہے۔پاکستان کے اس اقدام کو پوری دنیا میں سراہا بھی گیا۔لیکن بد قسمتی سے افغانستان کے صدر کرزئی کی جانب سے قطر دفتر کے نام اور جھنڈے کو بہانہ بنا کر مذاکرات کو معطل کرکے تمام امن کوششوں پر پانی پھیر دیا گیا ور پاکستان کی جانب سے تمام امن اقدامات کو آناًفاناً تعطل کا شکار کردیا۔افغان صدر کے علاوہ افغانستان کے مسلح فوج کے سربراہ کی جانب سے بھی پاکستان پر عسکریت پسندوں کے ساتھ تعاون اور پے در پے الزامات، افغان فوج کی جانب سے گولہ باریاں ، در اندازیاں اور غیر ملکیوں کو پاکستان میں دہشت گردی کیلئے با آسانی رسائی نے ہمیشہ امن مذاکرات کو متاثر کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ صبر وتحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان سے ہر امور پر تعاون کو یقینی بنایا ہے۔ پاکستان کے ترجمان دفتر خارجہ نے بھی افغانستان سے کہا کہ وہ اپنی سرزمیں کو دہشت گردوں کے لئے استعمال سے روکے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ روس زار اور افغان جنگ کے بعد مجاہدین اور اب بھی موجودہ طالبان کے کچھ گروپس پر پاکستان کا اثر و نفوذ موجود ہے۔اس لئے نوز شریف حکومت سے حامد کرزئی کی جانب سے تعاون کی اپیل اور مذاکرات کیلئے افغان صدر کا لب و لہجہ تبدیل محسوس ہوا۔افغانستان اگر پاکستان کو اپنا ہمسایہ اور بھرپور معاون ملک سمجھے تو اس کے لئے افغانستان کو بھی کچھ عوامل پر سنجیدگی سے عمل کرنا ہوگا۔چونکہ دونوں ممالک کے ثقافتی اقدار ایک دوسرے جڑے ہوئے ہیں اس لئے دو نوں ممالک میں باہمی ہم آہنگی، اور خطے میں عوام کے بہتر مستقبل کیلئے افغانستان کو بھی ایک قدم بڑھانا ہوگا۔چونکہ حامد کرزئی حکومت نے دورے سے قبل پاکستان پر طالبان کے حوالے سے قول وفعل کے تضاد اور مزید طالبان رہنماؤں کی رہائی کے مطالبات کیلئے دباؤ بڑھایا تھا تاہم اس سلسلے میں افغانستان کی صدر کو اپنے روئیے میں بھی لچک پیدا کرنا ہوگی اور پاکستانی اُن افراد کو پاکستان کے حوالے کرنا ہوگا جو پاکستان میں دہشت گردی کا سبب بن رہے ہیں اور براہ راست بلوچستان ، سمیت پورے ملک کے امن و معیشت پر اثر انداز ہورہے ہیں۔افغانستان کی جانب سے پر امن عملی اقدامات کی روایات پاکستان کیلئے کافی کم رہی ہیں اس لئے افغان صدر کی حکومت کو پاکستان سے گلے شکوے کرنے کے بجائے اپنے ماضی کے رویوں کو درست کرنا ہوگا۔پاکستان افغانستان میں پہلے روس اور پھر امریکہ کی جنگ کی وجہ سے براہ راست متاثر ہونے والا واحد ملک ہے جس نے بڑی قربانیاں دیں ہیں۔افغانستان کی کرزئی حکومت کے بعد سے پاکستان میں امن کے قیام کیلئے کبھی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے جس کی وجہ سے غیر ملکی شدت پسندوں نے پاکستان میں جہاں اپنے محفوظ ٹھکانے بنائے تو دوسری جانب پاکستان کی معصوم عوام اور عسکری اداروں کو بھی شدید مالی و جانی نقصان پہنچایا۔دونوں ممالک کو باہمی اعتماد کو پروان چڑھانا ہوگا۔اپنے خطے کو بین الاقوامی قوتوں کے جنگ اکھاڑہ بنانے کے بجائے اپنی ملکی ترجیحات کو فوقیت دینا ہوگی۔حکومت کابل نے امریکہ اور نیٹو ممالک سے کھربوں ڈالر بٹورے ہیں ، لیکن اس کے مثبت ثمرات دینے کے بجائے شدت پسندی میں اضافہ ، در اندزوں کی مسلسل دخل اندازی ، بھارت کی طرح سرحدی علاقوں پر خلاف ورزی ، تجارتی راستوں پر افغان فوجیوں کے منفی روئیے اور اسمگلنگ سمیت منشیات کی فروغ جیسے اقدامات سے افغانی صدر کو آنے والے انتخابات اور امریکہ و نیٹو افواج کے انخلا ء کے بعد پاکستان کی اہمیت کا اندازہ ہوچکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے دورے کو بڑی اہمیت دی گئی۔قابل ذکر ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ افغان کرزئی حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان ، کسی بھی اسلامی ملک یا اسلام آباد میں علما ء اور مسلمان ممالک کامشترکہ اجلاس طلب کرکے عسکریت پسندوں کے خلاف عالمی رائے عامہ ہموار کرے۔تاہم اس سلسلے میں بین الاقوامی حالات کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے تو ایک جانب مشرق وسطی میں تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال ، مسلم ممالک میں شورشیں ،اور فرقہ وارنہ خانہ جنگیوں کے سبب خود مسلم ممالک کا فرقہ وارنہ بلاک میں بٹ جانا ، باہمی اتفاق رائے کیلئے سب سے بڑی رکاؤٹ ہے۔ایران کے ساتھ پاکستان کے تجارتی معائدوں،مصر میں مصری افواج کی سعودی حکومت کی حمایت ، شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد امریکہ کا نیا کردار ، عراق میں امریکہ انخلا ء کے بعد بد ترین ریاستی فرقہ وارانہ تشدد آمیز واقعات سمیت بھارتی جارحیت کے مذموم عزائم افغان کرزئی حکومت کے خوائش کو پورے کرنے میں حائل نظر آتی ہے۔ ویسے بھی پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گذر رہا ہے جہاں ایک طرف امن و امان اور دوسری جانب معیشت اور اہم سبب سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے و ہم آہنگی کے فقدان نے کافی مسائل پیدا کئے ہوئے ہیں۔پاکستان کی اولین خوائش یہ بھی ہے جلد از جلد لاکھوں افغان مہاجرین اپنے وطن با عزت طریقے سے واپس چلے جائیں ، لیکن کرزئی حکومت کی جانب سے اس معاملے میں سست روی کے سبب پاکستان بار بار اقوام متحدہ کی جانب سے مہاجرین کی بحالی کیلئے کی جانے والی اپیل پر تاریخ بڑھانے پر مجبور ہے۔افغان اور پاکستان کی عوام پہل طور امریکہ اور نیٹو افواج کا انخلا ء چاہتے ہیں لیکن امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرنے کی عادت نے عدم اعتماد کی فضا میں اضافہ کیا ہوا ہے اس لئے افغان صدر کو اپنے آقاؤں کی طرح نہیں بلکہ خطے میں عوامی امنگوں کے مطابق یہ فیصلہ افغان عوام پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ کس قسم کے نظام حکومت کے خواہاں ہیں۔یقینی طور پر اس بار طالبان کے تمام گروپس نے ماضی میں روس کے جانے کے بعد کی جانے والی غلطیوں سے سبق حاصل کیا ہے ، لیکن حامد کرزئی کے حوالے سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کو زک پہنچانے کیلئے افغان صدر کچھ بھی کر سکتا ہے۔پاکستان کی عوام اور غیور افغان حامد کرزئی کو قابل اعتماد نہیں سمجھتے ، خاص طور پر بھارت کی جانب جھکاؤ اور پاک ، افغان سرحد پر چھیڑ چھاڑ کے عمل نے حامد کرزئی کی ساکھ کو اور گدیلا کردیا ہے۔پاکستان ، اپنے مسلم ہمسایہ ملک کی عوام کے لئے ماضی کی طرح بڑھ چڑھ کر تعاون کرتا رہے گا کیونکہ پختون بیلٹ صدیوں سے آپس میں جڑے ہوئے ہیں، انھیں لیکروں پر پابند کی گئیں سرحدوں کی کبھی ضرورت نہیں رہی اس لئے اہم نقطہ امن افغانستان کو اپنے روئیے کی درستگی میں ہے۔افغانستان کو سنجیدگی سے پاکستان کے تحفظات کو بھی دور کرنا ہوگا جو خطے کیلئے اہم ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 652762 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.