تین فدائیوں نے نیٹو فوج کے چھکے چھڑا دیے

 260 ٹینک اور گاڑیاں افغان طالبان کے ایک ہی حملے میں تباہ

یوں تو افغانستان میں امریکی جارحیت کے بعد سے ہی طالبان نے قابض افواج کی ناک میں دم کیا ہوا ہے لیکن جوں جوں امریکا اپنے اتحادیوں کو لے کر افغانستان سے بھاگنے کی کوشش کررہا ہے، توں توں طالبان کے حملوں میں بھی تیزی آرہی ہے۔آئے دن طالبان قابض افواج پر اس قدر خوفناک حملے کررہے ہیں کہ جن کی تاب لانا بھی امریکی حکومت کے لیے مشکل ہے۔ان حملوں میں جارح افواج کے ہونے والے نقصان کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔پیر کے روز طالبان نے کچھ اسی طرح کا خوفناک و خطرناک حملہ کرکے نیٹو افواج کے چھکے چھڑا دیے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ کے جہادی آپریشن کے سلسلے میں پیرکے روز 2013-09-02 کی علی الصبح پاکستانی سرحد کے ساتھ واقع افغان صوبہ ننگرہار کے سرحدی شہر طورخم میں واقع امریکی فوجوں کے مرکز اور گاڑیوں کے پارکنگ ایریا میں طالبان نے حملہ کیا، جہاں امریکی فوجوں کی فرار کے اموال کو رکھا جاتا ہے، طالبان کی جانب سے کیا جانے والا آپریشن 5 گھنٹے تک جاری رہا۔ طالبان کے اس حملے میں 3 جانثار نوجوانوں شہید محمد یاسین صوبہ ننگرہار، شہید عبدالرحمن صوبہ کنڑ اور شہید فاروق جان صوبہ قندھار کے باشندوں نے حصہ لیا تھا، جنہوں نے خاص حکمت عملی کے تحت پارکنگ ایریا میں متعدد دھماکے کرانے کے بعد حملہ شروع کیا، دونوں مقامات پر 154 امریکی ٹینک، 12 بارودی سرنگوں کی نشاندہی کرنے والی گاڑیاں، سامان سے لدے ہوئے 85 ٹریلر اور 9 اہم فوجی ساز و سامان سے بھرے ہوئے 9 کنٹینر مکمل طور پر جل کر خاکستر ہوئے، جن کی مکمل تعداد 260 بنتی ہے۔ مجاہدین کامیاب حکمت عملی اور 3 فدائین کی قربانی دینے سے اس پر قادر ہوئے کہ مذکورہ اشیاءکو پارکنگ سمیت تباہ کردےا۔ اس دوران فدائیوں نے جارح وکٹھ پتلی فوجوں کی قیام گاہوں پرتابڑتوڑحملوں کاسلسلہ شروع کیا، دستی بموںاورراکٹوں سے حملے کیے اورفائرنگ کی جس کے نتیجے میں 13 امریکی اور افغان فوجی ہلاک ہوئے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ نے کہا ہے کہ حملے میں بہت سے امریکی مارے گئے ہیں۔ حملہ آور مجاہدین نے منصوبے کے تحت پہلے اڈے میں کھڑی بعض گاڑیوں میں مقناطیسی بم نصب کیے تھے اوراس سے دھماکے کروائے جس سے آگ بھڑک اٹھی، جو مرکز کے دیگر مقامات تک تیزی سے پھیل گئی، اس کے بعد مجاہدین نے مرکزمیں تعینات فوجیوں کو نشانہ بنایا۔آپریشن دن ساڑھے 10 بجے آخری فدائی کی شہادت کے بعداختتام کوپہنچا۔ جبکہ اسی دن ملک کے دیگر علاقوں میں مجاہدین کے حملوں میں مزید 25 امریکی و افغان اہلکار ہلاک، درجنوں زخمی اور ایک ٹینک اور 2 فوجی گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ 6 نیٹو ٹینکروں کو آگ لگ گئی۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پیر کی علی الصبح بیس پر وقفے وقفے سے دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ افغان گورنر کے ترجمان احمد ضیاءعبدالزئی کا کہنا تھا کہ طالبان خودکش حملہ آوروں نے پولیس کی وردیاں پہنی ہوئی تھیں۔ یہ بیس فوجی ساز و سامان کی منتقلی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

طالبان ترجمان نے بتایا کہ مذکورہ اڈے پر افغانستان سے انخلا کے حوالے سے بڑی تعداد میں فوجی ساز و سامان رکھا گیا تھا اور مجاہدین نے خاص حکمت عملی کے تحت اس فوجی مرکز کو نشانہ بنایا۔ صوبائی حکومت کے ترجمان احمد ضیاءعبدالغیاظ نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ایک خودکش حملہ آور گروپ نے امریکی فوجی اڈے پر اچانک حملہ کیا اور فائرنگ شروع کردی جبکہ حملہ آوروں نے بڑی تعداد میں دھماکے بھی کیے جس کے نتیجے میں فوجی اڈے پر کھڑے درجنوں کنٹینروں اور ٹرالروںکو آگ لگ گئی اور وہ جل کر راکھ ہوگئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اتحادی فورسز اور حملہ آوروں کے درمیان مقابلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔ ہلاکتوں کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق اس حملے میں نیٹو کا سامان لے جانے والے ٹرالروں کو نشانہ بنایا گیا ہے جن پر زیادہ تر فوجی گاڑیاں لدی ہوئی تھیں۔ اس فوجی اڈے پر دیگر غیر ملکی فوجیوں کے علاوہ 66 ہزار امریکی فوجی موجود ہوتے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ننگرہار صوبے کے گورنر کے ترجمان احمد ضیا عبدالزئی نے بتایا کہ حملے کے فوری بعد نیٹو کی رسد کا ایک اہم راستہ طورخم جلال آباد روڈ کو بند کردیا گیا تھا۔ ایساف فورسز کے ترجمان کے مطابق فوجی اڈے پر سلسلہ وار دھماکے ہوئے۔ عالمی میڈیا کے مطابق طالبان فدائی حملہ آوروں کے ننگر ہار میں امریکی فوجی مرکزپر حملے کے بعد وقفے وقفے سے دھماکوں کی آوازیں سنائی دی گئیں اور فائرنگ کا تبادلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔ جدید ہتھیاروں سے لیس حملہ آوروں نے بیس پر موجود نیٹو کنٹینروں اورامریکی گاڑیوں کو بھی تباہ کردیا۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ علاقے کی مرکزی شاہراہ نیٹو سپلائی کرنے والے ٹرکوں کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ نیٹو کے ہیلی کاپٹر بھی فوجی اڈے کے اوپر پروازیں کرتے رہے۔
طالبان ترجمان کے مطابق حملہ آور مجاہدین اپنے ساتھ وائرلیس سیٹ اور موبائل بھی لے گئے تھے تاکہ اندر ہونے والی کارروائی سے مکمل اور تفصیلی طور پر مرکز کو مطلع رکھا جاسکے۔اور یہ پہلا موقع تھا کہ حملہ آور اس طرح رابطے کے آلات اپنے ساتھ لے کر گئے ۔طالبان نے رابطے کے آلات سے اپنے کامیاب حملوں کی اطلاع دی اور ان کا کہنا تھا کہ ہم کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ہمارے حوصلے بلند ہیں۔دشمن ناکام ہوچکا ہے، اس کے بعد حملہ آور طالبان کا رابطہ منقطع ہوگیا۔طالبان کے مطابق مجاہدین نے پہلے سے ہی حملہ کی پلاننگ شروع کردی تھی۔جب حملے کے لیے تیاری مکمل ہوگئی تو اس زور سے حملہ کیا کہ دشمن کے حوصلے پست ہوگئے، ان کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں، اسی بھگدڑ میں ان کا کافی سارا نقصان ہوا۔ عینی شاہدین کے مطابق انہوں نے طالبان کے حملے کے بعد آگ کے بڑے بڑے شعلے بھی دیکھے۔ جب کہ اسی دن صوبہ ننگرہار کے ضلع چپر ہار میں ضلعی مرکزکے قریب گشت پر مامور امریکی ٹینک کے بارودی سرنگ دھماکے میں تباہ ہونے سے اس میں سوار 5فوجی ہلاک ہوگئے۔ضلع مہمند درہ میں افغان فوجی قافلے پر مجاہدین کے گھات حملے میں3اہلکار ہلاک اور 7زخمی جبکہ ایک ٹینک اور 2گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔صوبہ ہلمند کے ضلع سنگین میں سارروان قلعہ کے مقام پر مجاہدین کے ساتھ جھڑپ میں 2افغان اہلکار مارے گئے۔صوبہ زابل کے ضلع شاہ جوئی میں زاڑہ نورک کے علاقے میں پیدل گشت پر مامور پولیس اہلکاروں پر ریموٹ کنٹرول بم حملے میں 3اہلکار ہلاک اور ایک زخمی ہوگیا۔صوبہ میدان وردک کے صدر مقام میدان شہر میں مجاہدین کے گھات حملے میں2افغان اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔قندھار کے ضلع ارغسان میں امریکی فوجی مرکز پر میزائل حملے میں2فوجی مارے گئے۔ضلع خاکریز میں سڑک کنارے نصب بم کے دھماکے میں 2افغان فوجی ہلاک ہوئے۔ضلع میوند میں بھی اسی نوعیت کے واقعے میں مزید 2پولیس اہلکار مارے گئے۔صوبہ پکتیا کے صدر مقام گردیز شہر میں پے درپے 2دھماکوں میں 4پولیس اہلکار ہلاک اور 2زخمی ہوگئے۔

مغربی میڈیا کے مطابق اب تک طالبان کے حملوں میں ہزاروں غیر ملکی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔نیٹو فورسز کے افغانستان سے انخلاءکا وقت قریب آنے کے ساتھ ساتھ طالبان کے حملوں میں تیزی آ رہی ہے اور سال 2011ءسے اب تک طالبان حملوں میں پولیس اور فوجی ہلاکتوں میں 15 سے 20 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب افغان حکومت اور امریکا کو طالبان کا خوف کھائے جارہا ہے۔موجودہ افغان صدر حامد کرزئی گزشتہ دنوں پاکستان بھی یہ استدعا لے کر آئے تھے کہ پاکستانی حکومت کسی طرح طالبان رہنماﺅں کو رہا کردے تاکہ طالبان ان کے ساتھ مذاکرات کرلےںاور ان پر حملے نہ کریں۔کچھ یہی حال امریکا کا بھی ہے۔ امریکا طالبان سے انتہائی زیادہ خوفزدہ ہے۔ان کا خیال ہے کہ ہم اگرچہ افغانستان سے نکل جائیں گے لیکن مجاہدین اس کے بعد بھی ہمیں نہیں چھوڑیں گے۔اسی حوالے سے ایک امریکی افسر نے انکشاف کیا ہے کہ القاعدہ اور دیگر عسکریت پسند گروپ امریکی حساس اداروں کے اندر تک گھس گئے ہیں۔ اس امر کا انکشاف امریکی حساس اداروں میں ملازمت کے لیے کوشاں افراد کے ڈیٹا اور حساس اداروں میں موجود اہلکاروں کے کمپیوٹر استعمال سے متعلق ریکارڈ کے حوالے مرتب کردہ دستاویز کی بنیاد پر امریکی بھگوڑے جاسوس ایڈورڈ سنوڈن نے کیا ہے۔ اس انکشاف کے مطابق سی آئی اے نے پتہ چلایا ہے کہ کچھ عرصے سے امریکی حساس اداروں میں ملازمت کے لیے کوشش کرنے والوں میں سے ہر پانچویں فرد کے رابطے، رجحانات یا پس منظر مشکوک تھا۔ ان میں سے زیادہ تر کا جھکاﺅ مجاہدین کے حوالے سے رہا ہے۔امریکا کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی نے ان امکانی مشکوک افراد کا پتہ ان کے کمپیوٹر کے استعمال میں رجحانات سے چلایا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں حساس اداروں کے اہلکاروں کے کمپیوٹرز کے کی بورڈز پر لگنے والے اسٹروکس نے بھی مدد کی ہے، یہ عناصر کس قسم کے رجحانات رکھتے تھے اور کن موضوعات اور شخصیات کے ساتھ ان کی دلچسپی اور لگاﺅ ہوتا تھا۔ لیکن تاخیر اور امتیازی عمل درآمد نے لاکھوں ڈالر کی کوششوں کے باوجود امریکی حساس ادارے ایڈورڈ سنوڈن کا پتا نہ چلا سکے جو حساس ترین اور انتہائی خفیہ دستاویز کے ریکارڈ کی کاپی کرتا رہا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 744716 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.