بلاد ِشام کا سورج اس وقت طلوع ہوا جب حضرت خالد بن ولیدؓ
نے ۶۳۴ میں دمشق فتح کرلیا اور اس کی شب تاریک کا آغاز اس وقت ہوا جب
۱۹۱۸میں ملکِ شام خلافت عثمانیہ سے ٹوٹ کر الگ ہوگیا۔ اس المناک داستان کی
ابتداء اس طرح سے ہوئی کہ غیروں کی شہ پر مسلمان آپس میں دست و گریباں
ہوگئے۔ امیر فیصل نے برطانوی فوجوں کی مدد سے دمشق پر قبضہ کیا اور خلافت
عثمانیہ سے رشتہ توڑ لیا۔مارچ ۱۹۲۰ میں قومی کانگریس نے امیر فیصل کو ترکی
کے طارس پہاڑیوں سے لے کرمصر کےصحرائے سینائی تک پھیلی ہوئی مملکت کابادشاہ
بنادیا لیکن شاخِ نازک پر بنا یہ آشیانہ پائیدارنہ ہوسکاصرف تین ماہ کے
اندر فرانسییوں نے بلادِ شام کوتین حصوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے شام
اور لبنان پر اپنا تسلط قائم کیا اورفلسطین برطانیہ کے حوالے کردیا۔امیر
فیصل کو ملک بدر ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔
بانٹو اور کاٹو کی حکمتِ عملی پر عمل کرتے ہوئے فرانس نے ۱۹۲۲شام کے مزید
حصے بخرے کئے ۔ جنوب کا علاقہ دروز فرقے کواور ساحلی علاقہ علویوں کو سونپ
دیا ۔ ۱۹۲۵میں آزادی کے متوالوں پر فرانسیسی سامراج نے بمباری کی ۔ یہ
حسنِ اتفاق ہے کہ آج جب کیمیاوی اسلحہ کے استعمال کا بہانہ بنا کر امریکہ
دمشق پر حملہ کرنا چاہتا ہے اوروہ اپنے سب سے بڑے حلیف برطانیہ کی حمایت و
سلامتی کونسل کی تائید سے محروم ہے فرانس اس کےشانہ بشانہ کھڑا ہے۔ ۱۹۲۸
میں منتخب شدہ دستور ساز اسمبلی کے آئین کو فرانسیسیوں نے مسترد کردیا تھا
اور اس کے خلاف آٹھ سالوں تک جدوجہد ہوئی بالآخر فوج او رمعاشی برتری کے
استثناء پر شام کو آزادی کا پروانہ ۱۹۳۶میں ملا۔فرانس کی موجودگی کے خلاف
مزاحمت دس سال چلی اور اس طرح ۱۹۴۶ میں فرانس کا آخری فوجی کو بے آبرو
ہو کر شام سے نکلنا پڑا۔
فرانس سے آزادی کے بعدمائیکل افلاک اور صلاح الدین جدید نے مل کرالحاد
پرست عرب سوشلسٹ بعث پارٹی کی داغ بیل ڈالی ۔ اسی کے ساتھ احسان فراموشی و
ابن الوقتی کا ایک لامتناہی سلسلہ اور شروع ہوگیا ۔ ۱۹۴۹میں فوجی افسرادیب
الشکشاکلی نے فوجی بغاوت کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کیااور۱۹۵۲ میں ساری
سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی۔۱۹۵۵ میں ایک اور فوجی بغاوت کے نتیجے میں
الشکشاکلی کی جگہ شکری اقواتلی صدر منتخب ہوگئے۔ انہوں نے مصر کے ساتھ
اتحاد قائم کیا اور۱۹۵۸ میں جمال عبدالناصر شام و مصر کی متحدہ عرب ریاست
کے سربراہ ہوگئے۔ ناصر نے اتحاد کی حامی بعث پارٹی پر پابندی لگا دی اس
فیصلےکے خلاف بغاوت کے نتیجے میں ۱۹۶۱ کےاندر یہ اتحاد پارہ پارہ ہوگیا۔
۱۹۶۳ میں بعث پارٹی نے حکومت پر قبضہ کرلیاامین الحافظ صدر مملکت بن
گئے۔۱۹۶۶ میں صلاح جدید نےبغاوت کرکے مائیکل افلاک اور امین الحافظ کو
گرفتار کرلیانیزحافظ الاسد کووزیر دفاع بنایا جس نے۱۹۷۰ میں صلاح جدید کو
جیل میں ڈال کر اقتدار پر قبضہ کرلیا ۔اس طرح گویا شام اسد خاندان کے
ملحدانہ خونی شکنجے میں چلا گیا اور ظلم و جبر کاجو آغاز نصف صدی قبل ہوا
تھاسو ہنوز جاری ہے۔
شام کی خون آشام تاریخ میں پانچ مرتبہ اسے اسرائیل کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانی
پڑی ۔اپنے ازلی دشمن کا تو وہ بال بیکا نہیں کرپایا لیکن دوستوں اور مسلم
پڑوسیوں کی پیٹھ میں برابر چھرا گھونپتا رہا۔اسلامی انقلاب کے بعد اول تو
ایران سے دشمنی لیکن ایران عراق جنگ کے موقع پر اپنے نظریاتی حلیف صدام
حسین سے غداری اور ایران کی حمایت کی گئی۔ایران اور روس سے دوستی کے باوجود
کویت پر حملے کے وقت امریکا کی ہمنوائی بھی اسد حکومت نے کی لیکن اسی کے
ساتھ وقتاً فوقتاًاپنے ہی عوام پر ظلم و سفاکی کا بدترین مظاہرہ جاری رہا ۔
۱۹۸۰ میں اخوان پر حافظ الاسد کے قتل کا الزام لگایا گیا اور پھر ۱۹۸۲
میں فوج کشی کے ذریعہ ہماکے علاقے میں ہزاروں اخوانیوں کو شہید کردیا
گیا۔۲۰۰۰ میں حافظ الاسد کی موت کے بعد بشارالاسد نے اقتدار سنبھالا اور
امریکہ سے تعلقات سدھارنے کی کوشش لیکن ان میں کوئی استحکام نہیں آیا یہ
رشتے بدستور بنتے بگڑتے رہے۔
عرب بہار نے شامی عوام کے حوصلوں اور امنگوں کو بلند کیا جس کے نتیجے میں
مارچ ۲۰۱۱ کے اندر مزاحمت کی ابتدا ہوئی۔ بشار نے شروعات میں نرمی دکھلائی
اورنام نہاد اصلاحات کا اعلان کیا لیکن جولائی میں فوجی کارروائی کا آغاز
ہوگیا ۔بشار کے خلاف اکتوبر میں شامی قومی کونسل قائم ہوئی۔ اس کے تحت شامی
حریت پسند فوج نے نومبر میں دمشق کے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ اس وقت
اگر عالمی تعاون ملتا تو بشار کا تختہ الٹ سکتا تھا لیکن چین و روس شام کے
خلاف سلامتی کونسل کی تجویز کو مسترد کردیا اور اس کے بعد وہ دو اور مرتبہ
ایسا کرچکے ہیں ۔ عرب لیگ کے ذریعہ قیام امن کی کوششیں بھی بارآور نہ ہو
سکیں ۔ مجاہدین آزادی کیلئے ۲۰۱۲کئی کامیابیوں کو لے کرآیا شمال میں
الیپو ان کے قبضے میں آگئے۔اگست میں وزیراعظم ریاض حجاب نے بغاوت کردی اور
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بشارلاسد سے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا۔ ستمبر
میں جب دمشق کے فوجی صدر دفتر پر حملہ ہوا تو ایسا لگنے لگا گویا بشار کے
دن لد گئے ہیں ۔دسمبر کے اندر امریکہ برطانیہ فرانس ترکی اور خلیجی ممالک
نے حزب اختلاف کے قومی محاذ کو شامی عوام کا نمائندہ تسلیم کرلیا اور غصان
ہتوّ کو کارگذار وزیر اعظم منتخب ہو گئے ۔ بین الاقومی سطح پر ڈیڑھ بلین
ڈالر اعانت کی یقین دہانی بھی ہوگئی۔
اپریل ۲۰۱۳حزب اختلاف کے قومی سربراہ معاذ الخطیب نے یہ الزام لگا کر
استعفیٰ دے دیا کہ بیرونی حامی آپس میں ساز باز کررہے ہیں۔ ان کی جگہ ایک
مشہور سوشلسٹ رہنما جارج صابرہ کو قائد بنایا گیا ۔ جولائی میں سعودی عرب
کی حمایت سے احمد جربا نے جارج صابرہ کی جگہ لی ۔ اس بیچ کارگذار وزیراعظم
غصان ہتوّ نے آزاد شدہ علاقوں میں اپنی حکومت قائم کرنے میں نا کا می کا
عذر پیش کرکے استعفی دے دیا۔گزشتہ سال نومبر سے لے کر اس سال اگست تک مزاحم
گروہوں کے درمیان جو اختلافات رو نما ہوااس کا بھرپور فائدہ بشار نے اٹھایا
اور بازی الٹ دی۔ مئی جون کے دوران اس نے لبنا ن اور حمص کے درمیان اہم
مقام قصیر پر دوبارہ قابضہ جما لیا۔ مزاحمت کاروں کے مطابق ان کی پسپائی کی
وجہ اسلام پسندوں کی موجودگی کے سبب بین الاقوامی حامیوں کی جانب سےاسلحہ
کی فراہمی میں کمی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ شام کے مجاہدین آزادی میں اسلام
پسندوں کے ساتھ اچھی خاصی تعداد اشتراکیوں کی بھی ہے ۔مغربی سرمایہ دار ان
سے تو خوش ہیں لیکن اسلام پسندوں کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔
اس سیاسی پس منظر میں امریکہ و یوروپ نے کیمیاویاسلحہ کے استعمال کا ہنگامہ
کھڑا کردیا اور تفتیش کی غرض سےاقوام متحدہ کاوفد دمشق پہنچ گیا۔ تفتیش کا
دائرۂ کار یہ معلوم کرنا ہے کہ آیا کیمیاوی اسلحہ استعمال ہوا یا نہیں؟
لیکن یہ سرے سےکوئی تحقیق طلب موضوع ہی نہیں ہے اس لئے تمام فریق اس کے
استعمال پر اتفاق کرتے ہیں ۔ نزاع اس بات پر ہے کہ اس کا استعمال کس نے کیا
؟دونوں متحارب گروہ ایک دوسرے پر اس کے استعمال کا الزام عائد کررہے ہیں
۔اقوام متحدہ کی تفتیشی ٹیم کی نہ تو یہ ذمہ داری ہے کہ وہ استعمال کرنے
والے کا پتہ لگائے اور نہ یہ اس کیلئے ممکن ہے ۔ یہ توحملے کا جواز تلاش
کرنے کی محض ایک شعبدہ بازی ہے جس سے فائق جیسا شاعر پناہ مانگتا ہے ؎
فقط اک نام لکھ کر قرعہ اندازی نہیں کرتے
جو مخلص ہیں وہ ایسی شعبدہ بازی نہیں کرتے
امریکہ اور اس کے حواری چونکہ اخلاص سے عاری ہیں اس لئےان لوگوں نے ٹیم کی
رپورٹ سے قبل ہی اعلان کردیا ہے کہ بشار کے اہلکاروں نے کیمیاوی اسلحہ
استعمال کیا لیکن امریکہ کے اس دعویٰ کی کوئی اہمیت اس لئے نہیں ہے کہ دس
سال قبل بھی عراق میں عمومی تباہی کے اسلحہ کے بارے میں اس طرح کا دعویٰ
کیا گیاتھالیکن بھیانک تباہی و بربادی کے بعد اسے اپنے خفیہ اداروں کی غلطی
کا بہانہ بنا کر امریکی انتظامیہ اس سے مکر گیا۔جارج بش نے ۲۰۰۳ میں جو
حماقت کی تھی اس کی ہمت اوبامہ فی الحال نہیں جٹا پارہا ہے ۔ ویسے اوبامہ
کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہے اس لئے کہ جارج بش کو ۲۰۰۴ میں دوبارہ انتخاب
جیتنا تھا اور اس کیلئے صدام حسین کو بلی کا بکرہ بنایا گیا ۔ اسامہ کا
ڈرامہ کرکے اوبامہ دوسرا انتخاب جیت چکا ہے اور اب تیسرے کا کوئی موقع نہیں
ہے ۔
امریکہ جانتا ہے کہ شام میں فوج اتارناافغانستان اور عراق کے بعد ایک اور
ہزیمت اٹھانے کے مترادف ہے ۔شام کے اندر امریکی فوجوں کی موجودگی بشار کو
کمزور نہیں بلکہ مضبوط کرے گی۔ ویسے بھی محدود پیمانے پر حملے کا شور کرکے
امریکا بشار کا اچھا خاصہ بھلا کرچکا ہے۔ اس موقع پر امریکی رائے عامہ کا
اگر ۲۰۰۳سےموازنہ کیا جائے تو صورتحال میں بہت بڑا فرق نظر آتاہے ۔صدام
حسین کے وقت ۶۵ فیصد امریکی عراق پر حملے کے حق میں تھے جبکہ ۳۰ فیصد خلاف
تھے اس کے برعکس اس بار۵۰ فیصد خلاف ہیں اور صرف ۴۲ فیصد چاہتے ہیں حملہ
کیا جائے۔ایک اور جائزے کے مطابق مخالفین کا تناسب ۶۰ اور حامی صرف ۹ فیصد
ہیں۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا بشار کو ہٹانا امریکہ کی ترجیحات میں شامل ہے
صرف ۱۶ فیصد کا جواب اثبات میں تھا۔ جہاں تک ممبران پارلیمان یعنی کانگریس
کا سوال ہے ۵۳ ڈیموکریٹ اور ۱۴۰ ریپبلکن نے حملے پر تشویش ظاہر کی ہے۔ اسی
لئے اوبامہ کابیان کہ ہم عراق (کی حماقت)کو دوہرا کر کسی طویل تنازعہ میں
پھنسنا نہیں چاہتے۔ مجھے پتہ ہے کہ اس بابت بہت سے لوگ فکر مند ہیں ۔ اس
بات کا غماز ہے کہ ماضی کے زخم ابھی بھرے نہیں ہیں۔ امریکی سفارتکاری کو
ایک بڑا جھٹکا اس وقت لگا جبکہ اس کے سب سے بڑے حلیف برطانیہ کی پارلیمان
نے ۷۲ گھنٹوں کی طویل کے بعد ۲۷۲کے مقابلے ۲۸۵ ووٹوں سے حملے میں شمولیت کی
تجویز کو مسترد کردیا۔ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون سے قبل اس طرح کی شکست کے بعد
وزیراعظم کو استعفیٰ دینا پڑا تھا لیکن اس کے پیچھے بھی رائے عامہ کا دخل
ہے ۔ برطانیہ کی ۵۰ فیصد عوام حملے کے خلاف ہیں حامیوں کی تعداد ۲۵ فیصد ہے
اور باقی لوگوں کی کوئی رائے نہیں ہے۔
خطرناک اسلحہ کا استعمال عام طور پر مزاحمت کار نہیں بلکہ اقتدار کرتا ہے
اس لئے شک کی سوئی بشار کی جانب ضرور جاتی ہے لیکن ایسے میں جب کہ اس کی
حالت بہتر ہو رہی ہووہ اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کی کوشش کیوں کرےگا؟ یہ
سوال اہم ہے ۔اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے بشار اور اس کے اہلکاروں نے
ممکن ہےمصر کے فوجی سربراہ عبدالفتاح السیسی سے ترغیب حاصل کرکے یہ غیر
دانشمندانہ اقدام کیا ہو ۔ مصر میں مجاہدین اسلام کا بے دریغ خون بہا یا
جارہا ہے اور بین الاقوامی قوتیں محض زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں جارہی ہیں
بلکہ اب تو وہ منافقانہ اداکاری بھی بند ہو چکی ہے۔ایسے میں شک کی سوئی
تیسری جانب گھوم جاتی ہے حالانکہ اپنے گوں ناگوں مفاد کے پیش نظر کوئی بھی
اس کا ذکر نہیں کررہا ہے۔
مصر میں فوجی بغاوت کے بعد امریکہ اور یوروپ ایک آزمائش میں گرفتار ہوگئے
۔ ایک طرف وہ جمہوری اصول و نظریات ہیں جن کے قیام کی خاطر وہ دیگر ممالک
میں فوج کشی تک کو جائز قرار دیتے ہیں اور دوسری جانب اسلام ہے جسے وہ اپنا
حریفِ اول تسلیم کرتے ہیں ۔ مصر میں کسی ایک کی مخالفت سے دوسرے کی حمایت
ہوجاتی ہے ۔ جمہوریت کی حمایت اسلام کے حق میں چلی جاتی ہےنیز فوج کی حمایت
اسرائیل کے تحفظ کی خاطر ضروری ہے۔ یوروپ اور امریکہ کو توقع تھی کہ مصر
میں فوج کے آتے ہی سارا معاملہ رفع دفع ہو جائیگااور لوگ بہت جلد سب کچھ
بھول بھال جائیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔ مجاہدین اسلام اپنےسروں پر کفن
باندھ کر میدان میں اترآئے اور فوجی حکمرانوں نے انہیں کچلنا شروع کردیا
لیکن اس کے باوجودمظاہروں کا تلاطم تھم نہیں پایا۔ ہزاروں لوگ شہید ہوئے ان
کے کیمپ اور اسپتال تک کو آگ لگا دی گئی لیکن مظاہرے شہروں سے نکل کر
گاؤں گاؤں قریہ قریہ پھیل گئے۔ ۱۶ اگست کو یوم غضب کے بعد ۲۳ اگست اور ۳۰
اگست کو ملک گیر پیمانے پر احتجاج ہوا۔ان دونوں مواقع پر فوجی بربریت کا
مظاہرہ بھی ہوا لیکن اس سے مظاہرین کا حوصلہ چنداں پست نہ ہوا اس لئے کہ
بقول فائق؎
میں کربلا میں خوں سے اگاتا ہوں فصل نو
ملتی ہے جب فرات سے تشنہ لبی مجھے
امریکہ اور یوروپ نے ان مظالم کے خلاف لب کشائی کرنے کے بجائے درپردہ مصر
کے ظالم حکمرانوں سے مفاہمت کرلی ہے۔یوروپی یونین کا مصر کے ساتھ تعلقات پر
نظر ثانی کا اعلان اور امریکہ کی جانب سے فوجی امداد کے بند کرنے کا امکان
ٹھنڈے بستے میں چلا گیا ہے ۔ اس لئے قوی امکان ہے کہ اپنے اس جرم کی جانب
سے توجہ ہٹانے کی خاطر خود مغرب کے ایجنٹ اسرائیل کا اس کیمیاوی حملے میں
ہاتھ ہو۔ سچ تو یہ ہے جب سے یہ ہنگامہ کھڑا ہوا ہے مصر کی خبریں اپنے آپ
پسِ پردہ چلی گئی ہیں۔ اس امکان کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ شام میں کیمیاوی
استعمال کا پہلا الزام ا س سال ماہِ اپریل میں سامنے آیا لیکن ا س وقت اس
کو اس قدر اچھال کر فوجی کارروائی کی بات نہیں کی گئی ۔نیز ظلم تو ظلم ہے
اس کے طریقۂ کار سے کیا فرق پڑتا ہے؟اگر کوئی حکومت اپنے عوام کو گولیوں
سے بھون دے تو اس کی جانب سے صرفِ نظر اور دوسری کیمیاوی اسلحہ استعمال کرے
تو وہ قابلِ گردن زدنی یہ کہاں کا انصاف ہے؟ مصر کے اندر ماہِ اگست کے اندر
شہید ہونے والوں کی تعداد شام کے مقابلے بہت زیادہ ہے لیکن السیسی کے خلاف
کوئی اف نہیں کرتا جبکہ بشار کے پیچھے ہر کوئی پڑا ہوا ہے ۔ اس کے معنیٰ
بشار کی جان بخشی کے نہیں بلکہ اس سے سخت تر سزا السیسی کیلئے تجویز کرنےکے
ہیں ۔ اس لئے کہ فی الحال مصر کی حالتِ زار پر ابرار فائق کا یہ شعر صادق
آتا ہے؎
مری بستی میں ہر پتھر کے نیچے
لہو آمیز منظر سو رہا ہے
شام فی الحال علاقائی اور بین الاقومی طاقتوں کی زور آزمائی کا اکھاڑہ بن
چکا ہے ۔ جس میں ایک جانب امریکہ اور یوروپ ہے تو دوسری جانب چین اور روس
ہے۔ امریکہ اور روس دونوں کے بحری بیڑے شام کے سمندروں میں پہنچ چکے ہیں
اور روس پھر ایک بار امریکہ پر اپنی برتری ثابت کرنے کا موقع تلاش کررہا
ہے۔ اسی کے ساتھ ایران اور سعودی عرب بھی آمنے سامنے ہیں۔ سعودی عرب
ایکطرف تو عبدالفتاح السیسی کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور دوسری طرف اس کے
ہم پلہ بشار الاسد کی مخالفت کرتا ہے ۔اسی طرح ایران السیسی کی مذمت کرتا
ہے مگر اس کے ہمزاد بشار کوبھرپورتحفظ فراہم کرتا ہے۔ سعودی عرب بحرین کے
مظاہرین کی آواز دبانے کیلئے اپنی فوج روانہ کرتا ہے تو ایرانی اسلحہ شامی
مظاہرین کے خلاف استعمال ہوتا ہے ۔ اس باہمی رنجش کا سب سے بڑا فائدہ
اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو ہورہا ہے ۔ یہ نہایت دلچسپ صورتحال ہے ایران
و سعودی عرب دونوں کے حلیف امریکہ و روس مشترکہ طور پر اسرائیل کے محافظ
ہیں۔
ان حالات میں ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوان کا موقف متوازن نظر آتاہے۔
۱۷ اگست کو یوم غضب پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا الفتح مسجد محاصرے
میں ہے۔ معصوم عبادتگزاروں پر ظلم توڑے جارہے ہیں۔مصر و شام کی عبادتگاہوں
کو نذرِ آتش کیا جارہا ہے۔بشار یا السیسی میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ظلم کے
ساتھ کسی قسم کی مصالحت ممکن نہیں ہے۔ اخوانیوں نے بھی شام سے متعلق اسی
طرح کا بیان دیا ہے۔ مصر کامحاذ آزادی جس میں اخوان بھی شامل ہے نے اپنے
حالیہ بیان میں کہا وہ شام کے عوام اور ان کے انقلاب پر اقتدار کی جانب سے
کئے جانے والے جرائم اور مظالم کی مذمت کرتا ہے ۔ اسی کے ساتھ محاذِا ٓزادی
شام کے معاملات میں غیر ملکی مداخلت کی بھی مذمت کرتا ہے ۔اس لئے کہ یہ
مداخلت علاقہ میں انتشار پیدا کرے گی اس سے دشمن قوموں کا فائدہ ہوگا اور
اس سے مصر کی قومی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہو جائیگا۔ اسے کہتے ہیں مبنی
برانصاف حق گوئی اورمومنا نہ بصیرت جس پر شدید ترین حالات بھی اثر انداز
نہیں ہوتے۔ |