یہ سچی کہانی میرے ایک دوست کی بہن کی ہے جسکی شادی دو
سال قبل ہوئی تھی اس کہانی کا کردار ایک ایسے مکّار، دغاباز، جھوٹے فریبی
مرد کی ہے جو بظاہر شریف، مّعزّز، ملنسار، ہمدرد، صوم و صلات کا پابند تھا۔
اپنی اس ظاہری شکل و صورت سے بہت جلد لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کا
ماہرتھا۔ اسی مہارت کو کام میں لاتے ہوئے میرے دوست کے خاندان والوں سے راہ
و رسم بڑھادی میرے دوست کے خاندان والے مالدار مگر انتہائی شریف لوگ تھے
انکی ایک بہن کی شادی کی عمر نکلی جارہی تھی اور وہ اس کے رشتے کے سلسلے
میں کافی فکرمند تھے-
شادی سے دو سال قبل بھی اس شخص نے ان سے رشتہ مانگا تھا مگر خاندان والوں
نے انکار کر دیا تھا مگرجب انکی بہن کا کہیں کوئی مناسب رشتہ نہیں آیا اور
دو سال بعد پھر اسی شخص نے دوبارہ رشتہ مانگا تو خاندان والے سرسری
انکوائری کرنے کے بعد اس رشتہ پر راضی ہوگیا۔ اور شادی بڑے دھوم دھام سے
ہوگئی۔ کافی جہیز اور ایک کلو وزنی سونے کے زیورات کے ساتھ دلہن کی رخصتی
ہوئی۔ اس نے خود کو بہت بڑا بزنس مین شوکیا تھا ایک مہینہ خوب کھایا پیا
اور خوب خوب دعوتیں اُڑائیں اس دوران اس شخص نے پورے خاندان کا مالی ایکسرے
کیا کہ کس کس سے کتنا مال سمیٹ سکتا ہے۔
شادی کے ایک سال کے دوران اس شخص نے خاندان کے لوگوں سے بہانے بہانے سے
لاکھوں روپے اسطرح بٹور لئے کہ خاندان والے آپس میں ایک دوسرے سے اس معاملے
کو چھپاتے رہے۔ اپنے کاروباری مصروفیات کا اپنی بیوی تک کو ہوا نہ لگنے دی
اور اپنی زوجہ سے رویہ کچھ ایسا رکھا کہ اُسے اسکی کسی بات پر شک نہ ہو۔ اس
دوران گھر کا کرایہ اور تمام اخراجات وہ باقاعدگی سے ادا کرتا رہا۔ سال بعد
اللہ نے انہیں ایک بیٹی دی لیکن نہایت کمزور ہونے کی وجہ سے بچی کی حالت
بگڑگئی جب حالت زیادہ بگڑگئی تو بیوی اور بچی کو کراچی بڑی بہن کے پاس بھیج
دیا بڑی بہن جو اب ماں کی جگہ تھی چونکہ لڑکی کےوالدین فوت ہوچکے تھے اور
اس کی شادی کی تمام ذمہ داریاں بڑی بہن اور بہنوئی نے انجام دئے تھے۔ اب
بچی کو فوراً آغاخان ہسپتال ایڈمٹ کیا گیا اور کافی علاج و معالجہ کے بعد
بچی سنبھل گئی اور جلد تندرست ہونے لگی۔ مہینہ دو مہینہ گزارنے کے بعد
انھیں دوبارہ اسلام آباد بھیج دیا گیا۔ اور زندگی پہلے کی طرح گزر بسر ہونے
لگی۔
مشکل سے دو مہینے ہی گزرے تھے کہ بہن کے گھر ایک دن اچانک فون کی گھنٹی
بجی۔ بہنوئی نے فون کا ریسور کان سے لگایا دوسری طرف سے جو آواز تھی وہ
انتہائی حیران کن جان لیوا آواز تھی “ میں تمھارا ساڑھو بھائی بول رہا ہوں
مجھے کچھ لوگوں نے دفتر سے گھر آتے ہوئے اغوا کیا ہے اور وہ دو کروڑ روپے
تاوان طلب کر رہا ہے اپنی بہن اور بچی کو جلد کراچی لے جاؤ“ اور فون بند
ہوگیا۔ کچھ دیرتک وہ ہکا بکا ہوکر بے سُدھ ہوگیا اور جب ہوش آیا تو اسلام
آباد اپنے کسی جاننے والے کو فون کرکے بہن اور بچی جلد کراچی روانہ کرنے کی
تاکید کی۔ بہن اور بچی مغرب تک کراچی پہنچ گئے۔ اور انھوں نے سکون کا سانس
لیا۔ اور اس معاملہ کی چھان بین شروع کیں۔ جیسے جیسے چھان بین کا سلسلہ آگے
بڑھتا جارہا تھا ویسے ویسے حقیقت کا انکشاف حیرت ناک اور جان لیوا ثابت
ہورہا تھا۔ اس شخص کے بارے میں حقیقت کا انکشاف ایک بڑی بہن جس نے ماں بن
کر اسے رخصت کیا کیلئے ایک خطرناک دھماکہ سے کم نہ تھا۔ اس انکشاف حقیقت نے
بڑی بہن کا سب کچھ چھین لیا۔ آرام و سکون، صبروقرار، اعتبار و بھروسہ غرض
ایک نیم پاگل کیفیت ان پر طاری ہے۔ ابھی تک چھان بین سے یہی پتہ لگ سکا کہ
یہ شخص پیشہ ور فراڈی ہے اور ان کا پورا گینک اس طرح کے کاروبار میں پورے
ملک میں سرگرم ہے -اور ان کے ہاتھ بڑے لمبے ہیں۔
میرے لئے یہ لمحات اور حالات انتہائی افسردہ کن اورتکلیف دہ ہے کیونکہ یہ
میرے ارد گرد کے لوگ ہیں گو کہ میرے رشتہ دار نہیں لیکن میرے لئے یہ لوگ
کسی رشتہ دار سے کم بھی نہیں اور سب سے بڑھ کرانسانیت،مسلمانیت اور
پاکستانیت کا رشتہ ہے۔ مجھ سے انکا دکھ دیکھا نہیں جاتا۔
اللہ انکی مشکلات آسان کردے۔ میرے ملک کے تمام لوگوں کو اس طرح کے بُرے
انسانوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ انھیں صبرو استقامت دے۔ آپ سب سے بھی التماس
دعا ہے۔ |