کراچی میں اسلحہ سمگلنگ کیس اور فوجی آپریشن کی کی بازگشت

وفاقی حکومت کی بھاگ دوڑ گزشتہ ڈھائی ماہ سے ن لیگ کے ہاتھ میں ہے لیکن کچھ عرصہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے چھٹکارے کے علاوہ کوئی ایسی کامیابی حاصل نہیں کی گئی کے جسے مثالی کہا جائے ۔کشکول اٹھا کر دوسرے ممالک سے مانگ تانگ کر کے ن لیگ ن اپنے منشور کی خلاف ورزی پہلے سے کر دی ہے اب دیکھتے ہیں عدلیہ اور انتظامیہ کے حوالوں سے منشور میں جو کچھ لکھا ہے اس پر عمل کس حد تک کیا جاتا ہے ۔گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے بحری جہازاور لانچ سے اسلحہ سمگلنگ کے معاملے پر سابق ممبر کسٹم رمضان بھٹی کی سربراہی میں کمیشن قائم کر دیا ہے جو 7 دن میں رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گا سات دن بھی مکمل ہونے والے ہیں اب دیکھیں گے کیا رپورٹ سامنے لا کر فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ کراچی بد امنی عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیئے کہ ملک بھر میں ہتھیاروں کی ترسیل اور کنٹرول امن وامان کا اہم مسئلہ ہے، عدالتی فیصلے کو2سال گزرنے کے باوجود کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت کو اسلحہ ڈیلرز کی مشاورت سے اقدامات کرنا ہوں گے، حکومت اسلحہ کی سمگلنگ پرفوکس کرے اور کراچی پورٹ سے نکلنے والے کنٹینرز کی مانیٹرنگ اورچیکنگ سخت کرے۔ سپریم کورٹ نے بحری جہازاور لانچ سے اسلحہ سمگلنگ کے معاملے پرکمیشن قائم کر دیا ہے جس کے سربراہ سابق ممبر کسٹم رمضان بھٹی ہوں گے،یہ کمیشن 7 دن میں رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گا اورہتھیاروں کی خریداری، بحری جہاز اور لانچوں سے اسلحہ سمگلنگ کے خاتمے سے متعلق تجاویز دے گا۔ سپریم کورٹ نے ایف بی آر کو رمضان بھٹی کو مکمل سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کے گزشتہ پانچ سالہ دور میں متعدد بار اہم امور پر کمیشن تشکیل دیئے جنہوں نے رپورٹیں مرتب کیں اور کورٹ میں پیش کیں جن پر سپریم کورٹ نے ایکشن لیتے ہوئے حکومت کو ہدایات جاری کیں کہ فلاں فلاں ملزمان کو گرفتار کیا جائے اور ان سے تفتیش کی جائے لیکن پیپلز پارٹی حکومت کو تو ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرامد کو یقینی بناتی۔دوسری جانب چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چودھری نے کراچی امن و امان کیس میں ڈائریکٹر جنرل رینجرز کی عدالت میں عدم موجودگی کا سخت نوٹس لیتے ہوئے انہیں فوری طور پر عدالت میں طلب کیا اور باور کرایا کہ یہاں تو تحفظ فراہم کرنیوالے خود محفوظ نہیں پولیس بھی آزادانہ گھوم پھر نہیں سکتی چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے اڑھائی سال قبل سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ ختم کرنے کا حکم دیا تھا اب تک اس عدالتی حکم پر کیوں عملدرآمد نہیں ہوا؟ ڈی جی رینجرز میجر جنرل رضوان اختر نے بعدازاں عدالت میں پیش ہو کر بیان قلمبند کرایا کہ کراچی کے حالات خراب کرنے میں سیاسی ونگز ملوث ہیں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی رہائی کے بعد حالات خراب ہوتے ہیں۔ فاضل عدالت نے اس پر انہیں باور کرایا کہ سیاسی ونگ ختم کرنا انکے ادارے کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ بطور ادارہ ذمہ داری ادا نہیں کر سکتے تو اپنی ناکامی قبول کریں۔ فاضل عدالت نے ریمارکس دیئے کہ معلوم نہیں وہ کونسی طاقتیں ہیں جو پولیس اور رینجرز کو قیام امن سے روکتی ہیں۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں عدالت عظمی کے بینچ نے اڑھائی سال قبل کراچی رجسٹری میں بیٹھ کر کراچی امن و امان کیس کی دو ہفتے تک مسلسل سماعت کی اور اپنے فیصلہ میں امن و امان کی بحالی سے متعلق احکام جاری کرتے ہوئے نہ صرف مرض کی تشخیص بتائی بلکہ اس کا اصل علاج بھی تجویز کیا۔آج بھی کراچی کو لاحق مرض کی تشخیص اور اسکے اصل علاج کے بجائے محض زبانی جمع خرچ سے کام لیا جا رہا ہے اور ایک دوسروں پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ کراچی کی بدامنی اس انتہاکو پہنچ چکی ہے کہ وہاں روزانہ ایک آدھ درجن بے گناہ انسانوں کی لاشیں گر رہی ہیں۔ کوئی شخص گلی محلے بازاروں اور کسی پبلک مقام تو کجا اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں لوگوں کا روزگار اور کاروبار تباہ ہو چکا ہے اور مزید تباہی کا اہتمام ہوتا نظر آرہا ہے جبکہ ملک کے اس تجارتی ہب کی تباہی کے منفی اثرات پورے ملک کی معیشت پر مرتب ہو رہے ہیں اور سابقہ دور ہی کی طرح اب بھی گورننس کہیں نام کو بھی نظر نہیں آرہی۔ سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز بھی موجود ہیں اور انکی آڑ میں ٹارگٹ کلرز بھتہ خور لینڈمافیاز اور دیگر بدقماش عناصر بھی کراچی میں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرکے اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے میں مگن ہیں۔ اگر سندھ حکومت کراچی میں امن و امان کی بحالی میں مخلص اور سنجیدہ ہوتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ پولیس اور رینجرز کے ذریعے دہشت گردوں اور بدقماشوں کی سرکوبی نہ ہو پاتی مگر جب حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ہی اپنے اپنے مفادات کے تحت ان بدقماش عناصر کی سرپرستی کی جا رہی ہو تو قانون اور امن نافذ کرنیوالی ایجنسیوں کے اقدامات بھی کب موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔

ایم کیو ایم کراچی میں فوج طلب کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے جس پر وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان نے کہا ہے کہ کراچی میں فوج بلانا درست نہیں۔ انہوں نے اسکے جواز میں یہ دلیل پیش کی کہ وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی میں فوج بلانا صوبائی حکومت کے مینڈیٹ کی خلاف ورزی ہو گی۔ کراچی میں وفاقی حکومت کے پاس گورنر راج کے نفاذ کا آپشن موجود ہے جس کے بعد متعلقہ صوبے کے وفاق کے زیر کنٹرول آنے سے فوج کی معاونت طلب کرنے کا اختیار وفاقی حکومت خود بھی استعمال کر سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم میاں نوازشریف کو اپنے ہی دور حکومت میں 1992میں سندھ میں کئے گئے فوجی اپریشن کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اس اقدام سے ہی بہتری کی راہ نکلی تھی اس لئے اب بھی فوج کے ذریعہ ایسے ہی بے لاگ آپریشن سے حالات پر قابو پایا اور کراچی کا امن و امان بحال کیا جا سکتا ہے جبکہ اب تو کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا تقاضہ خود ایم کیو ایم کی جانب سے کیا گیا ہے۔مضبوط پولیس اور رینجرز کے ذریعے کراچی میں امن و امان کی بحالی ممکن ہو سکتی ہے کیونکہ کراچی کے حالات تو پہلے سے بھی ابتر ہو چکے ہیں اب گرینڈ آپریشن وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے ۔ ان اقدامات کی بنیاد پر حکومت مخالف جماعتوں کو حکومت پر انتقامی کارروائیوں کے الزامات عائد کرنے کا موقع بھی ملنا بھی محال نہیں جیسا کہ فاروق ستار نے کراچی میں رینجرز کے چھاپوں کے دوران ہونیوالی گرفتاریوں پر حکومت کو انتقامی کارروائیوں کا مورد الزام ٹھہرایا۔ یہ صورتحال کسی سدھار کے بجائے مزید بگاڑ کی عکاسی نہیں بنے گی بلکہ کراچی کے حالات کے معاملہ میں وفاقی حکومت کو بے نیازی والا رویہ ترک کرکے امن و امان کی بحالی کے اصل تقاضے پورے کرنے چاہئیں اور افواج پاکستان اور رینجرز کے باہمی تعاون کے ذریعے آپریشن کراکے حالات پر قابو پانا چاہیے ورنہ کراچی کی بدامنی کا تسلسل جاری رہے گا اور وہاں کی عوام خون کی ہولی کے رنگوں میں رنگتی رہے گی ۔
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 59890 views Columnist/Writer.. View More