اگر یہ سوال کیا جائے کہ
ہندوستان میں مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن کون ہے؟ اس سوال کا (90) فیصد
افراد کے پاس جواب ہوگا ’’سنگھ پریوار‘‘ گوکہ یہ جواب صحیح ہے لیکن اگر
کوئی سوال کر بیٹھے کہ سنگھ پریوار مسلم دشمنی کس طرح کرتا ہے تو اس کا
آسان اور صحیح جواب ہے (1) ’’نرم ہندو توا کے محکموں اور اداروں میں ہر سطح
پر کارگزار ہیں (2)ہمارے ذرائع ابلاغ (میڈیا) اور اس میں ہمارے قومی و
مقامی ٹی وی چینلز (ملک کی تمام زبانوں کے) سرکاری و نیم سرکاری اداروں کا
ذکر بلکہ میڈیا کا ذکر نہ صرف ہم نے بلکہ کئی کالم نویسوں اور تجزیہ نگاروں
نے بارہا کیا ہے بلکہ پریس کونسل کے صدر جسٹس مارکنڈے کاٹجو صاحب نے بھی
شدید اعتراض کیا ہے لیکن اس قسم کی باتیں صدر بہ صحرا ثابت ہوتی ہیں لیکن
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم مایوس، مرعوب اور دل شکستہ ہوکر خاموش رہیں۔
ان کے رپورٹرس ، قلم کار، منظر نامے، تبصرے و تجزئیے لکھنے والے (سب نہ سہی
لیکن 80تا90فیصد) فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی کار شکار ہیں۔ تفصیلات سے قبل
ہم اتنا بتادیں کبھی بھی کسی مسلمان ملزم کا ذکر کرتے ہوئے اس کے لئے مشتبہ
یا مبینہ کا لفظ استعمال ہوتے ہوئے شائد ہی آپ نے سنا ہو بلکہ اس پر کسی
الزام کے ثابت ہونے سے قبل بلکہ اس کا مقدمہ شروع ہونے سے قبل ہی اس کو
’’مجرم، گناہ گار، آر وپی، دھماکوں کی سازش کا سرغنہ (ماسٹر مائنڈ) وغیرہ
بلا جھجھک قرار دیا جاتا ہے۔ بعد میں جب یہی معصوم و مظلوم بندے بے قصور
ثابت ہوتے ہیں تو ان پر کی گئی الزام تراشیوں اور بہتان طرازی کیلئے معذرت
تو دور کی بات ہے اس بات کا بطور خبر بھی ذکر تک کرنا پسند نہیں کیا جاتا
ہے۔ اس حرکت کے لئے اگر کوئی ان پر ازالہ حیثیت کا دعویٰ کردے تو قانون اس
کا بھر پور ساتھ دے گااگر کچھ ٹی وی چینلز، اخبارات اور خاص طور پر چند
لکھنے والوں (از قسم پروین سوامی) کے عدالت میں کھینچا جائے تو الفاظ
چباچباکر لہجہ میں زہر بھرکر دہشت گردی کے مفروضہ الزامات کے بہانے
مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والوں اور من گھڑت کہانیاں رقم کرنے والوں
بلکہ انگریزی کا ترجمہ شائع کرنے والے اردو اخبارات پر قانون کا شکنجہ کسنا
خاصہ آسان ہے تاہم مشکل یہ ہے کہ متاثرہ افراد اپنے مقدمات سے ہی اس قدر
ٹوثت جاتے ہیں کہ اب وہ مزید مقدمہ بازی کی سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔ یہ کام
سیاسی قائدین کے لئے بھی شائد ہی ممکن لیکن اس قسم کی مقدمہ بازیاں (جبکہ
وہ ملت کے مفاد میں ہوں) بہت زیادہ دشوار یا ناممکن بھی نہیں ہیں بس سوال
یہی ہے کہ کرے تو کون کرے؟
اسی طرح اس الزامات میں ماخوذ کئے جانے سے قبل معاشرہ کے معزز افراد کے
ساتھ جس قسم کی زبان استعمال کی جاتی ہے وہ بدراخلاقی کے مترادف ہے (خاص
طور پر ہندی چینلز پر) مولانا اور مولوی قسم کے افراد کے لئے بھی دبوچ لیا
گیا، مارا گیا، بھاک گیا، چھپا ہوا تھا آخر پکڑا گیا جیسے الفاظ کا استعمال
ناشائستگی بلکہ بے ھودگی ہے جبکہ اکثر مولوی صاحبان رہا ہوجاتے ہیں بلکہ
باعزت بری ہوجاتے ہیں۔
ٹی وی چینلز کے میزبانوں کے لئے سب سے ضروری صلاحیت ان کی شائستگی ، خوش
کلامی، خوش گفتاری کے ساتھ ساتھ دیدہ زیبی بھی ہے لیکن ہمارے ٹی وی چینلز
کے میزبان ان تمام خوبیوں اور خصوصیات سے عاری نظر آتے ہیں۔ جب بات مبینہ
مسلمان دہشت گردوں، مفروضہ تنظیموں کے من گھڑت جرائم یا پاکستان اور چین کی
ہوتی ہے ان کی زبان غیر شائستہ، لہجہ نفرت سے بھر پور، آواز اونچی ہونے کے
ساتھ ساتھ انتہائی ناخوش گوار ہوجاتی ہے۔ مجموعی تاثر انتہائی جارحانہ ہوتا
ہے۔ مذاکرات ، مباحثوں یا گفتگو کے لئے آنے والے حضرات کا حال ان سے بھی
بدتر ہوتا ہے۔ منہ توڑ جواب دینے والے مسلمانوں (مثلاً محمد ادیب رکن
پارلیمان اور بیرسٹر اسد الدین اویسی یا اعتدال پسندسیکولر سیاستدانوں اور
صحافیوں (مثلاً منی شنکر ایر، ونود شرما، ونود مہتا وغیرہ) کو زیادہ موقع
نہیں دیا جاتا ہے۔ عام طور پر مسلمان کم ہی بلائے جاتے ہیں جو بلائے جاتے
ہیں وہ وہی بات کرتے ہیں جو میزبان ان سے سننا پسند کرتے ہیں۔ مثلاً (ٹائمس
ناؤ Times Nowکے میزبان ارنب گو سوامی کسی معروف رضا کو پسند کرتے ہیں۔
تیستا سیتلواڈ کی جگہ بی جے پی کی جارحانہ مزاج، نفرت کے زہر و آگ سے اگلنی
والی خواتین تمام چینلز کی پسندیدہ ہیں۔ مختصر یہ کہ داخلی معاملات اور
خارجی امور میں نفرت کے پجاریوں یعنی چینلز پر گرفت کرنے کے لئے قوانین اور
ضابطہ اخلاق کی تدوین کی جہاں شدید ضرورت ہے وہاں اس سے زیادہ ان پر عوام،
سماج اور صحافت (جس کے ایک قابل لحاظ حصے نے برائیوں سے خود کو محفوظ رکھا
ہے) کے زبردست اخلاقی دباؤ کی ضرورت ہے۔
ہر جمہوری ملک میں ذرائع ابلاغ جمہوری ایوان کا اہم ستون ہوتے ہیں اور
رجحان ساز ہوتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں ہمارا میڈیا بھی رجحان سازضرور ہے
لیکن اس کی رجحان سازی کی بنیادیں منفی عوامل پر قائم ہیں حکومت چین اور
پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کی اگر کوئی مساعی کرتی ہے تو میڈیا کا بڑا
حصہ ان مساعی کو ناکام بنانے میں سرگرداں ہوجاتا ہے ۔ ٹی وی سے عوام بہت
زیادہ متاثر ہوتے ہیں ان کو گمراہ کرنے ان کا ذہن متاثر کرنے کا کام بڑی
خوبی سے کرتے ہیں چنانچہ کئی ٹی وی چینلز ان کے میزبان اور ٹی وی ٹاک میں
آنے والے ملک کی خارجہ پالیسی کے برخلاف پڑوسی ملکوں (خاص طور پر چین و
پاکستان) کے خلاف نفرت پیدا کرنے کا ہنر خوب جانتے ہیں اس سلسلے میں
انگریزی و ہندی کے تمام اہم چینلز (بہ شمول اردو کا واحد بڑا اہم ای ٹی وی
چینل) ایک سے بڑھ کر ایک ہیں ان میں آنے والے مہمان مثلاً پار تھاسارٹھی،
جنرل بخشی، معروف رضا، ورما اور کئی دوسرے (بی جے پی اور سنگھ پریوار کے
مختلف پروگراموں میں آنے والے مختلف نمائندے قابل ذکر ہیں جن کے ساتھ خود
ٹی وی کے میزبان (اینکرس) نفرت کی آگ کو ہوا دینے کا کام بڑی مہارت سے
انجام دیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ میڈیا دن بہ دن قابو سے باہر ہوجارہا ہے اور
سنگھ پریوار ان سے خوب کام لے رہا ہے داخلی مسائل ہو ں یا خارجی مسائل
دونوں ہی میں اس کا کردار منفی ہوتا جارہا ہے۔
حال ہی میں سماج وادی پارٹی کے کمال فاروقی نے یٰسین بھٹکل کی گرفتاری پر
صرف اتنا کہا تھا ’’اگر بھٹکل کو صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے سزا دی جارہی
تو یہ غلط ہے‘‘ اس پر جو ہنگامہ اٹھا کہ فاروقی نے ’’آتنگ وادی‘‘ کی تائید
کی ہے۔ وہ ےٰسین بھٹکل جیسے دہشت گر کو بچانا چاہتے ہیں کیونکہ وہ مسلمان
ہے۔
سادھوی پرگیہ سنگھ جیسی دہشت گرد کی گرفتاری و بیماری اﷲ جانے بیماری اصلی
تھی یا نقلی؟ اڈوانی تڑپ اٹھے تھے بیانات دئیے تب کسی نے نہ کہا کہ اڈوانی
آتنگ وادی سے ہمدردی کیوں کررہے ہیں؟ اسی طرح بدنام زمانہ ہندتوا دی دہشت
گر کرنل پروہت کو کئی سال سے جیل میں پوری تنخواہ اور دیگر فوائد دئیے
جارہے ہیں تو کسی ٹی وی چینل نے سوال نہیں کیا کہ آتنگ وادی کو یہ مراعات
کیوں دی جارہی ہیں؟ جبکہ شہید افضل گرو کو ان کے خاندان والوں سے ملنے کا
موقع دئیے بغیر پھانسی دینے اور ان کو اپنے وطن میں دفن کئے جانے سے محروم
کرنے پر کسی نے اعتراض کیا تو کئی ٹی وی کے اینکر س (میزبانوں کے انتہائی
جارحانہ لہجہ میں جواباً سوال کیا تھا کہ کیا کسی آتنگ وادی کو ان باتوں کا
حق ہوتا ہے؟ مہاتما گاندھی کے قتل کا ماسٹر مائنڈ ساورکر (جو عدالت سے محض
تکنیکی بنیادوں پر رہا ہوئے تھے) کی تصویر پارلیمان میں بی جے پی سے نے
لگوائی تھی کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا؟ بابری مسجد کی شہادت از خود زبردست
دہشت گردی تھی اس کے سارے مجرم آزاد ہیں تو کوئی بات نہیں۔
میڈیا دہشت گردی اور دہشت گردوں کے بارے میں پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیوں
کی خفیہ رپورٹس دکھانے کا دعویٰ کرتا ہے (جو سراسر غلط ہوتا ہے) لیکن پولیس
خاموش رہتی ہے کیا پولیس کے نام سے غلط بیانی گمراہ کن اطلاعات دینا قانون
کی رو سے جرم نہیں ہے اور اگر یہ رپورٹس صحیح بھی ہیں تو راز کی رپورٹس کا
افشاء کرنا بھی قانون کے لحاظ سے جرم ہے یہ دھاندلیاں میڈیا کی پولیس سے
ساز باز کا نتیجہ ہے۔ پولیس پر میڈیا سے گرفت کرنی چاہئے۔ میڈیا کی رپورٹس
ذرائع (شوتروں) کے حوالے سے بھی ہوتی ہے۔ یہ شوتر کون ہیں؟ جو نفرت پھیلاتے
ہیں۔ عزت اچھالتے ہیں قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑتا ہے۔ ثابت ہوا کہ سرکارکی
مشینری میں ہر سطح پر مسلم دشمن ہند توادی موجود ہیں جن کا میڈیا سے زبردست
ساز باز ہے۔
|