شام کی صورتحال اور مسلمان ممالک خصوصا سعودی عرب کا کردار

اگر آپ کے اپنے بھائی کیساتھ اختلافات ہوں تو اس کے ہر گز یہ مطلب نہیں ہوگا کہ اپنے بھائی کی عزت و ناموس کو نیلام کرنے کا کسی کو موقع دیا جائے اور اپنے بھائی کو نشانہ بنانے میں کسی بیرونی شخص کی مدد کی جائے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ حضرت محمد صلی اللہ والہ وسلم کے اس فرمان کے کے مطابق مومن نہیں ہوسکتا اس وقت تک جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کیلئے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اسے اپنے لئے پسند ہو - لیکن اگراس کے برخلاف اقدام اٹھاتا ہے تو اسے اپنے اعمال ایمان پر غوکرنا چاہیئے کیونکہ ساری دنیا غلط ہوسکتی ہے لیکن فرمان مصطفی غلط نہیں ہوسکتا -اپنے مسلمان بھائی کو دوسروں کے آگے لانے اور اسے عبرت کا نشانہ بنانے والے کوئی بھی ہوں وہ مومن نہیں ہوسکتے- گذشتہ روز راقم نے اپنے ایک صحافی دوست کو شام کی صورتحال پر بات کی اور سعودی عرب کے کردار کے حوالے سے پوچھا تو اس دوست نے سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک ویڈیو راقم کیساتھ شیئر کی جس میں کیمیائی ہتھیاروں سے متاثر ہونیوالے لوگوں کی ہلاکتیں دکھائی گئیں افسوسناک مناظر تھے بقول اس پڑھے لکھے آدمی کہ شام میں سنی لوگوں پر کیمیکل ہتھیار استعمال ہوئے ہیں اس لئے اس کے خلاف ایسا کرنا ضروری ہے جب راقم نے سوال کیا کہ اگر ایسا ہے بھی تو کیا یہ کارروائی کوئی مسلمان ملک نہیں کرسکتا اور امریکہ اور اس کے اتحادی کو یہ حق کہاں سے پہنچتا ہے تو دوست کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکا- یہ ایک پڑھے لکھے شخص کا موقف ہے راقم کے دوست جیسا موقف بہت سارے لوگ رکھتے ہیں تاریخ اسلام گواہ ہے کہ مسلمانوں کو آپس کی نااتفاقیوں نے جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا نقصان مسلمانوں کو کسی بیرونی دشمن نے نہیں پہنچایا- ایران اور عراق کی آٹھ سالہ جنگ کے دوران اسرائیلی وزیراعظم کا یہ جملہ ہم سب مسلمانوں کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے "کہ ہمیں خوشی ہے کہ ہمارے دو دشمن ملک آپس میں لڑ رہے ہیں" -

ہمیں فرقوں میں تقسیم کرکے خوش ہونیوالے اس خطے کے تیرہ ممالک کو آپس میں لڑاکر کمزور کرنا چاہتے ہیں- کیونکہ شام میں اگر74 فیصد سنی ہے تو 16 فیصد اہل تشیع لبنان میں 23 فیصد سنی اور 38 فیصد اہل تشیع اور اس طرح کی صورتحال ترکی عراق ایران آذربائیجان سعودب عرب کویت بحرین یمن یو اے ای افغانستان اور پاکستان میں ہیں2003 میں عراقی تیل کی خاطر ڈرامہ سٹیج کرنے والے امریکہ اور اس کے اتحادی آج شام کو نشانہ بنا رہا ہے اور ہم مسلمان ممالک خوش ہورہے ہیں اور اپنے دشمنوں کے ہاتھوں اپنے مسلمان بھائی کو تباہ کرنے کے درپے ہیں اس عمل میں بڑا کردار سعودی عرب کا ہے -شام میں جاری جنگ میں سعودی عرب کا کردار پہلے کی نسبت زیادہ کھل کر دنیا کے سامنے آیا ہے بے گناہ معصوم بچوں اور خواتین کی کیمیائی حملے کی سازش میں ملوث ہونے کے بعد یہ بات کھل کے سامنے آگئی ہے کہ سعودی حکمران اپنے اور اپنے آقا اسرائیل کے مفادات کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں -روسی صدر پوٹن نے ایک روسی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ جب انکی سعودی شہزادے بندر سے آخری ملاقات ہوئی تھی تو سعودی عرب نے روس کو یہ دھمکی دی تھی کہ اگر روس شام کے معاملے میں یو این او میں اپنا منہ بند نہیں رکھتا اور شام کی جنگ میں بشار الاسد کی حمایت بند نہیں کرتا تو دو ہزار چودہ میں روسی شہر سوچی میں ہونے والی سرمائی اولمپک میں جہاں دنیا کے کوئی اٹھانوے ممالک کے سیاح اور کھلاڑی آنے کی تیاری کر رہے ہیں ، سعودی عرب چیچن جنگجں اور ازبک اسلامی انتہا پسندوں کی مدد سے دہشت گردانہ حملے کروا کے سارا کھیل مٹی میں ملا دیں گے -بین الاقوامی اطلاعاتی ادارے اے پی کے ایک صحافی DALE GAVLAK ْ نے شام میں کچھ باغیوں کا اانٹرویو کیا ہے جس میں باغیوں نے اعتراف کیا ہے کہ سعودی انٹیلی جینس چیف پرنس بندر بن سلطان نے کیمیائی ہتھیار انہیں فراہم کئے اور انہیں تنخواہیں بھی سعودب عرب سے ملتی ہے بقول ان باغیوں کے ہم کیمیائی ہتھیار کے استعمال کے حوالے سے تربیت یافتہ نہیں تھے اور ایک حادثے میں 12 باغی بھی اسی کیمیکل کا نشانہ بنے-طبی عملے کی بین الاقوامی تنظیم ڈاکٹرز ود آئوٹ بارڈر نے بھی ایک رپورٹ دی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 3600 افراد میں ایسی علامات پائی گئی جیسے ان پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیا گیا ہو --

شام پر کانگریس کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد 11 ستمبر کو امریکہ کی طرف سے باقاعدہ حملوں کا آغاز متوقع ہے کیونکہ پیر یا منگل یعنی 9 یا10 ستمبر کو امریکی کانگریس کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کی اطلاع پر امریکی حکومت کو شام پر حملے کی اجازت دے گی اور پھر وہی کھیل شروع ہو جائیگا جو کہ 5 فروری 2003 میں اقوا م متحدہ کے سلامتی کونسل میں امریکی سٹیٹ سیکرٹری کولن پائول نے یہ بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ صدام حسین دنیا کیلئے خطرہ ہے اور اس کے پاس مہلک کیمیائی ہتھیار ہے بقول ان کے عراق کے پاس 100سے 500 ٹن تک کیمیائی ہتھیار موجود ہے کولن پائو ل کے بقول عراقی انٹیلی جینس نے انہیں یہ رپورٹ دی ہے کہ بائیولوجیکل فیکٹریاں بھی عراق میں موجود ہیں جس کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں پھر عراق پر جنگ مسط کردی گئی اور 30 دسمبر کو عید کے روز عراقی صدر صدام حسین کو کیمیائی ہتھیاروں سے کردوں کو ہلاک کرنے اور اہل تشیع کے قتل کے الزام میں پھانسی دیدی گئی بعد میں امریکی صدر جارج بش نے اعتراف کیا کہ امریکہ کو وسیع پیمانے پرتباہ کن ہتھیار نہیں ملے عراق پر حملے میں بھی غداروں کا ہاتھ تھا جس طرح ہلاکو خان کے دور میں بھی دو وزراء نے غداری کی اسی طرح عراق پر حملوں میں عراقی نیشنل اکارڈ بنانے والے الجبوری نے بھی بڑا کردار ادا کیا جس سے امریکی ادارے سی آئی اے کے ایجنٹوں نے اردن میں ملاقات کی تھی اور22 نومبر 2022 کو 3000 ڈالر کے عوض وہ امریکی ایجنٹ بن گیا اور بعد میں اس کے گروپ کے 13 افراد کو واشنگٹن میں لے جا کر جاسوسی تخریبی مواد بنانے سمیت مختلف تربیت فراہم کردی گئی اسی شخص کی مدد سے امریکہ صدام انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر قابض ہونے میں کامیاب رہا لیکن بعد میں امریکہ اپنے مفادات حاصل کر چکا تو اسی الجبوری کے بقول "جب تک امریکہ کا مفاد ہے وہ آپ سے دل وجان سے پیار کرتا ہے اور جونہی اس کا مطلب نکلتا ہے تو وہ آپ کو دیکھتا بھی نہیں "-امریکہ اور اس کے چند مخصوص اتحادی موجودہ صورتحال میں امریکی حکومت کی جانب سے شام پر چڑھائی سے جہاں امریکہ اپنے مخالفوں کو یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ اس کے احکامات نہ ماننے والوں کا حشر کیسا ہوتا ہے دوسرے حزب اللہ کو بھی کمزور کرسکے گا جبکہ سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جس ناکامی سے دوچار ہے اس میں ایک مرتبہ پھر تیزی لا سکے گا اور دنیا بھر میں یہ تاثر پھیلایا جائیگا کہ القائدہ کے خلاف مہم کیلئے تمام مغربی ممالک کو ایکساتھ کام کرنا چاہئیے-تیل کی خاطر سٹیج کئے جانیوالے اس ڈرامے میں مسلمان ممالک خصوصا سعودی عرب کا کردار انتہائی افسوسناک ہے-

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422014 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More