صائمہ شہزادی
پاکستان کواندرونی طورپر در پیش چیلنجز میں اس وقت سب سے بڑا ایشو انتہا
پسندی ، دہشت گردی اورجہالت یعنی تعلیمی پسماندگی کا ہے۔مادروطن کوشاہراہو
ں سے زیاد ہ تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے۔اگربرطانیہ اپنے شہریوں کوکسی
امتیاز کے بغیرتعلیم اورصحت کی سہولیات مفت فراہم کررہا ہے توپاکستان میں
ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔برطانیہ اسلامی ریاست نہیں مگرحقیقی معنوں میں ایک
جمہوری اور فلاحی ریاست ہے جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کوکسی فوجی یاسول
ڈکٹیٹر کی طرف سے اسلامی اورفلاحی ریاست بنانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی
گئی،پاکستان کے لوگ آج بھی جمہوریت کے ثمرات اورآزادی اظہار کے حق سے محروم
ہیں۔بیسیوں سیاسی ومذہبی پارٹیوں کے الگ الگ نظریات نے پاکستانیوں
کومتحداورمنظم کرنے کی بجائے مزید منتشر کردیا ہے ۔ ورنہ مٹھی بھر
انتہاپسند اوردہشت گرد بندوق کی نوک پر اٹھارہ کروڑاعتدال پسندانسانوں
کویرغمال بنانے میں ہرگزکامیاب نہ ہوتے۔ان بدبخت دہشت گردوں کاایجنڈا امن
اورانسانیت کے گلے کاپھندابن گیا ہے۔دہشت گردی کے نتیجہ میں کوئی ایک
فردیاچندافرادنہیں مرتے بلکہ کئی کئی خاندان بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔جہاں
دہشت گردی کے نتیجہ اپنے خاندان کاواحدکفیل ایک باپ مرتاہے وہاں اس کے بیوی
بچے بھی زندہ درگورہوجاتے ہیں۔درندہ صفت دہشت گردوں کے ہاتھوں کسی کی ماں
موت کے آغوش چلی جاتی ہے اوراس کے معصوم بچے ممتاسے محروم ہوجاتے ہیں ۔خود
کش یابم دھماکے سے مرنیوالے افراد کے ساتھ کئی انسانوں کامستقبل وابستہ
ہوتا ہے ۔جوبیچارے جسمانی یادماغی طورپراپاہج ہوجاتے ہیں وہ انہیں ہردن کئی
بارمرناپڑتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں انہیں قبول نہیں کیا جاتا ۔شدت پسنداپنے
آپ کومرداورکسی کمزورکی زندگی سے کھیلنے کی مشق کومردانگی سمجھتے ہیں
مگرمیرے نزدیک انتہاپسندی مردانگی نہیں بلکہ دیوانگی اوردرندگی ہے کیونکہ
کوئی ہوشمند انسان کسی دوسرے انسان کوموت کے گھاٹ نہیں اتارسکتا۔
بلوچستان سمیت پاکستان کے چاروں صوبوں میں ایک طرف خودکش اوربم دھماکے
زوروں پر ہیں جبکہ دوسری طرف شہرکراچی بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے ۔ ان
اندوہناک واقعات نے پاکستان کے تشخص کو بہت بری طرح تباہ کردیا ہے ۔مسلمان
تودرکنارگمراہ اورانسانیت سے بیزار انتہا پسندوں کے اس گروہ نے غیر مسلموں
کو بھی اسلام سے متنفر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ یہ لوگ اسلام اور
مسلمانوں کوتشدد پسند،متعصب،بنیاد پرست اور جدید تقاضوں سے نا بلد ڈکلیئر
کرنے کے درپے ہیں۔ ان بھٹکے ہوئے اوردماغی طورپرغلام انتہاپسندوں کی
گھناؤنی اورمجرمانہ کاروائیوں سے اسلام کے تصورحیات،انسانی حقوق بارے اسلام
کی تعلیمات، مسلمانوں کے اجتماعی وقار کو ٹھیس پہنچی ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب
دنیا کی مختلف اقوام بھی مسلمانوں پر اعتماداوران سے محبت کرتی تھیں ۔مسلمانوں
کو امن پسند،انصاف پسند،صادق وامین، ایماندار اور وعدوں کی پاسداری کرنے
والا سمجھا جاتا تھا۔ کسی بھی قوم کے افرادکو مسلمانوں کے ساتھ تجارت کرنے
اورانہیں ویزہ دینے میں کوئی اعتراض نہیں تھا۔ آج کسی بھی مغربی ملک کے
ایئر پورٹ پر مسلم قومیت کے حامل افراد کو سب سے زیادہ مشکوک سمجھا جاتا ہے۔
مغربی اقوام کو ہر مسلمان میں دہشت گردی کے جراثیم دکھائی دیتے ہیں جودرست
نہیں۔اسلام ایک دین فطرت اور امن و آتشی کا علمبردار ایسا مذہب ہے جس کے
معنی ہی سلامتی کے ہیں ہر دور میں کوئی نہ کوئی گروہ اسلامی تعلیمات کا غلط
مطلب نکال کر گمراہی کے راستے پر گامزن رہا ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے قرآن
مجید میں واضح ارشاد فرمایا ہے کہ اسے بہت سے لوگ پڑھ کر گمراہ ہو جائیں گے
اور بہت سے لوگ ہدایت پا جائیں گے لیکن گمراہ صرف فاسق ہوں گے ۔ اسلام کے
دامن میں صلہ رحمی، مہربانی، ایثار،مساوات اور وسعت ہی وسعت ہے۔ جو صرف ان
لوگوں میں دکھائی دے گی جو اسلام کی روح کو سمجھتے اوراس کی پاسداری کرتے
ہیں۔ ہدایت اور گمراہی میں معمولی سا فرق ہی ہوتا ہے جو آسمان سے زمین پر
گرا دیتا ہے یا زمین سے اٹھا کر آسمان پر بٹھا دیتا ہے۔
میں دعا لکھتا رہا اور وہ دغا پڑھتے رہے
ایک نکتے نے ہمیں محرم سے مجرم کردیا
بم دھماکوں سے نہتے بے گناہ شہریوں کو خون میں نہلا دینا گھر سے اپنے بچوں
کیلئے رزق کی تلاش میں نکلنے والوں کو چیتھڑوں میں تبدیل کر دینا ۔ اﷲ
تعالیٰ کے نام پر اﷲ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ بربریت کی اسلام کسی صورت
اجازت نہیں دیتا۔ اسلام نے توکافروں کے ساتھ بھی رحم دلی کا برتاؤ کرنے کی
تلقین کی ہے۔ شریعت کو یہ بھی گوارا نہیں کہ کسی بے زبان جانور پر اس کی
بساط سے زیادہ بوجھ لادا جائے۔ ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کرنے
سے منع کیا گیا ہے۔ اسلام کے جنگ کے اصول بھی رحم دلی اور اخلاقیات کی
اعلیٰ روایات سے عبارت ہیں تو بھلا ایسا خوبصورت اورکامل مذہب بے گناہ
لوگوں کے قتل کی ترغیب کس طرح دے سکتا ہے۔
وزیرستان میں دریافت ہونے والی طالبان کی فرضی جنت نے حسن بن صباح کی یاد
تازہ کر دی جس نے قلعہ الموت میں ایک فرضی جنت بنا رکھی تھی۔ خود کش حملے
بھی کوئی نئی چیز نہیں ہیں ان کا استعمال حسن بن صباح نے سب سے پہلے اپنے
سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے مذہب کے نام پر کیاتھا۔وہ اپنے پیرو کاروں کو
حشیش پلا کر اس کی سیر کروایا کرتا تھا پھر وہ نشہ اترنے پر اسی جنت کا
لالچ دے کر اپنے پیروکاروں سے خود کش حملے کروایا کرتا تھا بہت سے سربراہان
مملکت اور نامی گرامی وزراء اس کے فدائی حملوں کی زد میں آکر اپنی جان گنوا
بیٹھے ۔ بغداد میں مدرسی نظامیہ جیسی عظیم درس گاہ کی بنیاد رکھنے والے
وزیر نظام الملک کو بھی ایسے ہی خود کش حملہ آور نے شہید کر دیا تھا اس وقت
یہ حال تھا کہ بڑی بڑی حکومتیں ان فدائی حملوں کے نام سے لرزتی تھیں ۔ وہ
بھی اسلامی احکامات کی غلط تشریح کرتے ہوئی اپنی مرضی کی تاویلیں پیش کرتا
تھا۔ یہاں طالبان ہو بہو اس کی تقلید کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے مقاصد بھی
سیاسی اورمادی ہیں۔
اسلام کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے کہ بندہ سر سے پاؤں تک اس طرح اسلام کی روح
پر عمل پیرا ہو کہ اس سے متاثر ہو کر کافربھی اسلام کی تقلید اورتوصیف
کریں۔ یہی سرور کونین حضرت محمدﷺ ، صحابہ ؓ اور اولیا اﷲؒ کا طریقہ ہے۔
اسلامی تعلیمات کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان پر عمل کرنے والوں کی شخصیت
میں ایک ایسی خوبی پیدا ہو جاتی کہ انسان تو ایک طرف جانور تک ایسے انسان
سے محبت کرتے ہیں۔ یہی اسلامی تاریخ ،حکایات اور تجربے کا نچوڑ ہے۔ جہاد
فرض ہے مسلمان کو جہاد کرنا چاہئے لیکن ایسا مخصوص حالات میں ہوتا ہے جب
کسی مسلمان حکومت کی غیر مسلموں کے ساتھ جنگ ہو جائے اس وقت جہاد ہر عاقل ،
بالغ اور توفیق رکھنے والے پر فرض ہو جاتا ہے وہ بھی اس صورت میں کہ جب
سرکاری فوج میں افرادی قوت کی کمی ہو جائے اور حکومت عام مسلمانوں سے مدد
طلب کرے اور ہمارے ہاں دندناتے انتہا پسندوں یعنی درندوں کا یہ حال ہے کہ
انہوں نے جہاد کے فتوے بھی خود ہی جاری کئے ہیں دشمن بھی خود ہی وضع کئے
ہیں لڑنے کا طریقہ بھی ان کاا پنا ہے جس کے مطابق کبھی یہ چھپ کروارکرتے
ہیں اوراپنے مذموم مقاصد کیلئے کبھی عورتوں اوربچوں کواستعمال کرتے ہیں۔ ان
کے مقاصدقطعاً غیر واضح اور مبہم ہیں۔ راقم سمیت کئی مسلمان ہیں جوان انتہا
پسندوں کے ساتھ مناظرہ کرنے کو تیارہیں کہ وہ اپنے جہاد اور خود کش حملوں
کو قرآن اور حدیث سے ثابت کر یں اور یہ بھی ثابت کریں کہ وہ جو بے گناہ اور
نہتے مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں وہ قرآن کریم کی کس آیت یا تاجدارانبیاء
حضرت محمد ﷺ کی کونسی حدیث سے ثابت ہو رہا ہے۔ اصل میں خوئے بد را بہانہ
بسیار والی بات ہے۔ کوئی بھی شر کرنے والا خود کو سچا ثابت کرنے کیلئے ہزار
دلیلیں تراش کے پھر رہا ہوتا ہے ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں
ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اﷲ پاک کی زمین میں فساد
برپا نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ،خبردار یہی لوگ
فسادی ہیں۔ بم دھماکوں کے نتیجے میں دیواروں پر چپکے ہوئے خون کے لوتھڑے،
یتیم ہو جانے والے بچوں کی آہ و زاری بیوہ اوربے سہارا ہونے والی خواتین کے
بین ، راہ تکنے والی بوڑھی آنکھوں میں پھیلی یاس اور کرب کی گہری پرچھائیاں
ان انتہا پسندوں کے اﷲ تعالیٰ کی زمین میں فساد پھیلانے والے پکے فسادی
ہونے کازندہ ثبوت ہیں۔ |