دروغ بَر گردنِ راوی

 آج جنابِ آصف زرداری اپنے عرصۂ صدارت کی تکمیل کے بعد ایوانِ صدر کو داغِ مفارقت دے رہے ہیں۔ کوچ کی تیاریاں مکمل ہیں اور جنابِ زرداری اور حواری سامان سمیٹنے میں مصروف ۔اِس سامان میں جنابِ زرداری کو بیرونی ممالک سے ملنے والے تحائف بھی شامل ہیں ۔عموماََیہ تحائف قومی خزانے میں جمع کروا دیئے جاتے ہیں لیکن اگر کوئی سربراہ چاہے تو اِن کی مالیت کا دس فیصد ادا کرکے یہ تحائف وصول کر سکتا ہے ۔دروغ بَر گردنِ رؤف کلاسرا، جنابِ زرداری کو لگ بھگ 176 تحائف موصول ہوئے جِن کی’’محبانِ زرداری ‘‘ نے 19کروڑ روپے قیمت مقرر کی اور زرداری صاحب نے لگ بھگ دو کروڑ ادا کرکے یہ تحائف وصول کر کے یہ ثابت کر دیا کہ’’ہاتھی مرا سوا لاکھ کا‘‘۔اِن تحائف کی اصل قیمت توہمیشہ صیغۂ راز میں رہے گی لیکن کچھ نہ کچھ اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ سابقہ وزیرِ اعظم شوکت عزیز کی اہلیہ کو کسی ملک کی خاتونِ اوّل نے ایک پرس تحفے میں دیا جس کی قیمت 300 روپے لگائی گئی اور ہماری خاتونِ اوّل نے 30 روپے نقد سکّہ رائج الوقت ادا کرکے وہ پرس وصول کر لیا۔اسی طرح اُنہیں25 روپے مالیت کا ایک’’ سکارف‘‘ کا تحفہ مِلا ۔اب پتہ نہیں ہماری خاتونِ اوّل نے اڑھائی روپے ادا کیے یاتین لیکن سکارف اُن کا ہو گیا ۔بیگم شوکت عزیز کو چاہیے تھا کہ یہ تحائف قبول کرنے کی بجائے پُرانی انارکلی کی کسی ریڑھی سے یہ چیزیں خرید کر اپنا شوق پورا کر لیتیں۔۔۔ جنابِ زرداری کے تحائف میں تین BMW گاڑیاں بھی شامل ہیں جنکی ’’مارکیٹ ویلیو‘‘لگ بھگ 15 کروڑ روپے ہے ۔ باقی 173 تحائف جِن میں سونے کی گھڑیاں ، سونے کے سِکّے ، سونے کے پِن اور اسی جیسی دیگر قیمتی اشیاء شامل ہیں، اُن کی مالیت کا اندازہ خود لگا لیجئے ۔ حیرت تو اِس بات پر ہوتی ہے کہ بیرونی ممالک کے سَر براہان کو دیئے جانے والے تحائف تو ہمارے ٹیکسوں سے نچوڑے جاتے ہیں لیکن ہمارے سَربراہان کو مِلنے والے تحائف میں قوم کا حصّہ بقدرِ اشکِ بُلبُل بھی نہیں ہوتا ۔

جو لکھاری، تجزیہ نگاریا اینکر جناب آصف زرداری کے پانچ سالہ عہدِ صدارت پر اُنہیں خراجِ تحسین پیش نہیں کرتا وہ انتہائی احسان نا سپاس ہے ۔زرداری صاحب نے اپنے دَورِ حکومت میں مسائل کا انبار لگایا اور لکھاریوں کے سامنے موضوعات کی سبیل لگ گئی جِس پر اُنہیں زرداری صاحب کا ممنونِ احسان ہونا چاہیے لیکن کئی احسان نا سپاس کالم نویسوں نے ابتدا ء ہی سے زرداری صاحب کے جانے کی تاریخیں باندھنا شروع کر دیں۔وہ تاریخ پہ تاریخ دیتے چلے گئے اور زرداری صاحب ہونٹوں پہ معنی خیز مسکراہٹ سجائے ایوانِ صدر میں ڈٹے رہے ۔تجزیہ نگار حیران تھے کہ آخر اُن کے تجزیے زرداری صاحب کی ذات پہ آ کے بے بس کیوں ہو جاتے ہیں؟۔کچھ لوگوں نے اسے میاں نواز شریف کی مفاہمتی پالیسی کا کرشمہ قرار دیا اور ’’ایویں خواہ مخواہ‘‘ اُن پر فرینڈلی اپوزیشن کا الزام دھرنے لگے۔کچھ تجزیہ نگاروں نے اپنا سارا غصّہ ق لیگ اور ایم کیو ایم جیسے اتحادیوں پر اتارا لیکن بالآخرپتہ یہ چلاکہ زرداری صاحب کا پِیر بہت ’’تکڑا‘‘ تھا جس نے زرداری صاحب کے ساتھ صدارت کا پانچ سالہ ٹھیکہ کر رکھا تھا ۔پیر صاحب نے اُن کو اگلا پانچ سالہ ’’صدارت پیکج‘‘ دینے کی آفر بھی کی لیکن حیرت انگیز طور پر زرداری صاحب نے منع کر دیا ۔اگر ہمارا رابطہ پیر صاحب سے ہوتایا اُن کا کچھ اتا پتہ معلوم ہوتا تو ہم بھی چھوٹی موٹی وزارت ٹھیکے پر لینے کی کوشش کرتے لیکن ’’اب پچھتائے کیا ہوت ، جب چِڑیاں چُگ گئیں کھیت‘‘ ۔اب تو وزارتوں کی ریوڑیاں بَٹ چکیں اور ’’ہاؤس فُل‘‘کا بورڈ لگ چُکا۔صرف بلوچستان میں چند سیٹیں خالی ہیں لیکن وہاں جا کر ’’بلوچ لبریشن آرمی‘‘ کی نرم غذا بننے کا ہمارا کوئی موڈ نہیں۔اگر BLA سے بچ بھی گئے تو ایجنسیاں ہمیں یوں غائب کر دیں گی جیسے گدھے کے سَر سے سینگ۔ ہمارا شمار ’’مسنگ پرسنز‘‘ میں ہونے پر ہمارے میاں تو بہت خوش ہونگے لیکن اُن کی خوشی ہمیں گوارا نہیں۔

شنید ہے کہ اب زرداری صاحب بحریہ ٹاؤن لاہور میں ملک ریاض کے عطاکردہ محل ’’بلاول ہاؤس‘‘ میں قیام کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ہم نے یہ محل دیکھا تو نہیں البتہ دیکھنے کی تمنّا بہت ہے ۔سُنا ہے کہ اِس محل کی دیواریں تک’’بَم پروف‘‘ ہیں اور اِس محل میں طالبان تو کجا کوئی پرندہ بھی پَر نہیں مار سکتا ۔دروغ بَر گردنِ راوی کچھ خیر خواہانِ زرداری تو یہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کہ زرداری صاحب نے اپنے پِیر صاحب کے وسیلے سے اﷲ میاں کے ہاں یہ عرضداشت بھیجی ہے کہ چونکہ اِس مملکتِ خُدا داد کو ابھی اُن کی اَشد ضرورت ہے اِس لیے ’’نظریۂ ضرورت ‘‘ کے تحت فی الحال اُن کا تبادلہ اِس دُنیا سے اُس دُنیا میں نہ کیا جائے ۔پیر صاحب چونکہ بہت ’’پوہنچی ہوئی‘‘ ہستی ہیں اِس لیے اُمیدِ واثق ہے کہ یہ ’’عرضی‘‘ بارگاہِ ربی میں شرفِ قبولیت سے ہمکنار ہو گی اور قوم اپنے ’’عظیم لیڈر‘‘ کی خُدا داد صلاحیتوں سے عشروں تک مستفید ہوتی رہے گی۔

جِس ذوق و شوق کے ساتھ میاں نواز شریف صاحب نے ایوانِ وزیرِ اعظم میں زرداری صاحب کا استقبال کیا اور اُن کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملائے اُس سے تو یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زرداری صاحب نے میاں صاحب کی شدید خواہش بلکہ ’’محبوبانہ ضد‘‘ کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے لاہور میں قیام کا فیصلہ کیا ہو گا ۔تختِ لاہور والے ہوشیار رہیں کہ اب’’ تختِ پاکستان‘‘ سے مستفید ہونے والے بھی آن پہنچے ہیں ۔خادمِ اعلیٰ کے لیے تو یقیناَ یہ لمحۂ فکریہ ہی تھالیکن بڑے بھائی کا احترام مانع ہوا اور اُنہوں نے ’’زر بابا‘‘ کی گُدڑی جھاڑنے کی بجائے خاموشی کی دبیز چادر اوڑھ لی ۔ خادمِ اعلیٰ تو ’’زر بابا چالیس چوروں‘‘ کے خلاف جوشِ خطابت میں مائیک اُلٹتے رہتے تھے لیکن بڑے بھائی کی ایک ہی ڈانٹ نے اُن کو سیدھا کر دیا ۔ زرداری ، نواز شریف قربتوں کا ثمر آور ہونا اظہر مِن الشمس ہے اورقوم کو کچھ ملے نہ ملے زرداری صاحب کو جاتی عمرا کے ’’کھَد پائے‘‘ اور بڑے میاں صاحب کو زرداری صاحب کے باورچی کی خاص ڈِش ’’مسور کی دال‘‘ کھانے کو ملتی رہے گی۔اپنے میاں صاحب ٹھہرے کھانے کے شوقین ۔وہ تو سیّد ممنون حسین کی ’’رَبڑی‘‘ کھا کر اتنے ممنون ہوئے کہ ایوانِ صدر ہی اُنہیں سونپ ڈالا۔یہ الگ بات ہے کہ ایک سیّد کی احسان سپاسی کرتے کرتے وہ دوسرے سیّد کو ناراض کر بیٹھے۔ اگر سیّد ممنون حسین کو ’’پیوستہ رہ شجر سے ، اُمیدِ بہار رکھ‘‘ کی بنیاد پر ایوانِ صدر سونپا جا سکتا ہے تو سیّد غوث علی شاہ کی قُربانیاں بھی کچھ کم نہیں البتہ رانا ثناء اﷲ کو اِس کا ادراک نہیں ۔ جَلتی پر تیل چھڑکنے کے ماہر رانا صاحب کی جب سے راجہ ریاض سے سنگت چھوٹی ہے ، اُن کی ’’بونگیوں‘‘ میں تیزی آ گئی ہے۔وہ کبھی ایم کیو ایم سے ’’پنگا‘‘ لیتے ہیں تو کبھی پرویز خٹک کو ’’ تِیلی پہلوان‘‘ کہہ کر چھیڑتے ہیں۔ شایدرانا ثناء اﷲ صاحب کے اندر کا ’’جیالا‘‘ ابھی تک زندہ ہے جو اُنہیں ایسی ’’ شُرلیاں‘‘ چھوڑنے پر مجبور کرتا رہتا ہے ۔اُنہوں نے فرمایا ’’غوث علی شاہ صاحب پارٹی چھوڑ کر نواز لیگ کا نہیں بلکہ اپنا ہی نقصان کریں گے‘‘۔اگرشاہ صاحب کی 25 سالہ اٹوٹ رفاقت کا یہی صلہ ہے تو پھر وہ وقت دور نہیں جب ’’گلیاں ہو جان سُنیاں ، وِچ مرزا یار پھرے‘‘ کے مصداق نواز لیگ میں رانا ثناء اﷲ جیسے لوگ ہی باقی رہ جائیں گے۔اﷲ تعالیٰ نواز لیگ کو رانا صاحب کی ’’ شُرلیوں‘‘سے محفوظ رکھے۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 643230 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More