انسان مفاد پرست واقع ہوا ہے ۔ذاتی مفاد کا خیال اس کے دل سے نکالا نہیں جا
سکتا ۔وہ مفاد خویش کی پرواہ نہیں کرتا کہ اسے ان اقدار کی نگہبانی میں
اپنا کوئی فائدہ دکھائی نہیں دیتا ۔اگر اسے اس امر کا یقین ہوجائے کہ
انسانی اقدار کا تحفظ ، حیوانی تقاضوں کی تسکین کے مقابلے میں زیادہ منفعت
بخش ہے تو وہ یقیناً ان اقدار کے تحفظ کیلئے وہ سب کچھ کر گذرے گا جو وہ آج
اپنے حیوانی مفاد کے لئے کرتا ہے۔بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اس حقیقت کو اس ایک
مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ "ایک شخص کئی دنوں کا بھوکا ہے، اتنا بھوکا
کہ نقاہت کی وجہ سے اس سے اٹھا تک نہیں جاتا ، اتنے میں ایک آدمی گرم گرم
پلاؤ کا قاب اس کے سامنے لاکر رکھ دیتا ہے ظاہر ہے وہ اس قاب پر جھپٹ پڑے
گا۔وہ جلدی سے لقمہ اٹھاتا ہے اُسے منہ کے قریب لے جاتا ہے کہ دوسرا شخص اس
سے کہتا ہے کہ اس پلاؤ میں اور تو ہر چیز عمدہ اور خالص ہے لیکن غلطی سے اس
میں نمک کی جگہ سنکھیا پڑ گیا ہے۔آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ یہ سننے کے بعد
بھی لقمہ منہ میں ڈال لے گا یا قاب اٹھا کر کر باہر پھینک دیگا ؟۔یقیناً وہ
قاب کو ہاتھ بھی نہیں لگائے گا اور اس پلاؤ کو ہاتھ بھی نہیں لگائے
گا۔کیونکہ اسے اس بات کا یقین ہے کہ اس کے کھانے سے اس کی موت واقع ہوجائے
گی۔وہ بھوک کی تکلیف اور زندگی کے زیاں کا مقابلہ کرے گا اور اپنا فائدہ
اسی میں دیکھے گا کہ بھوک کی تکلیف برداشت کرلے لیکن اپنی جان ضائع نہ
کرے"۔لیکن بد قسمتی سے مسلم حکمرانوں میں اکثریت ناعاقبت اندیش اُس کھانے
کو بھی کھا لیتے ہیں کہ کہنے والا شائد مذاق کر رہا ہے یا پھر جھوٹ کہہ رہا
ہے۔امریکہ" عالمی تھانیدار"بن کر کسی بھی مملکت کے خلاف ایف آئی آر کاٹ کر
اُیسے چھتر لگانے کیلئے بے کل نظر آتا ہے۔عراق میں کیمیائی ہتھیار کے بر
آمدگی کی آڑ میں مسلمانوں کی نسل کشی اور فرقہ واریت کو فروغ کے بعد امریکہ
بہادر سے مسلم عوام کا اعتباراٹھ چکا ہے کہ وہ کسی مسلم ملک کیلئے نیک
خواہشات رکھتا ہوگا۔ نائن الیون میں صلیبی جنگ کے آغاز کا اعلان کرنے والے
امریکی اپنی جنگی جنونیت میں انتہا سے آگے بڑھتے جا رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ
ملک شام میں تمام تر تحفظات کے باوجود امریکہ کو عالمی دنیا میں پزیرائی
نہیں مل رہی حالاں کہ ایران خود تسلیم کرچکا ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیار
استعمال کئے گئے جو قابل مذمت ہے۔روس ایرانی بلاک میں شامل ہوچکا ہے کہ اگر
شام پر حملہ کیا گیا تو ایسے روس پر حملہ تصور کیا جائے گا۔سعودی عرب کی
جانب سے ایک بار پھر کویت جنگ کی تاریخ دوہرائی جا رہی ہے کہ" امریکہ تم
حملہ کرو ، خرچہ ہم دیں گے"۔جس طرح افغانستان میں روس کے خلاف امریکیوں نے
پاکستانیوں کو کہا کہ" لڑو تم خرچہ ہم کریں گے"۔امت مسلمہ سب جانتی ہے کہ
امریکہ دوہرا معیار رکھنے والا مسلم دشمن ملک ہے جیسے اپنی واحد سپر پاور
ہونے کا زعم ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے جب بھی پاکستان کیلئے سیکورٹی کے
نام پر امداد نما سود دیا تو ایسے القاعدہ اور اس کے حامی شدت پسندوں کے
خلاف کارکردگی سے مشروط کیا۔ تین سال قبل امریکی اخبارات میں یہ خبر آئی
تھی کہ امریکہ نے اس سلسلے میں تعاون کا حساب رکھنے اور اپنے مفادات پر
مبنی ایک اسکور کارڈ تشکیل دیا ہے جسے پاکستان میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت
کیلئے کی جانیوالی کاروائی کے بعد نافذ کردیا گیا ہے۔ اس لئے مستقبل میں
اسی اسکور کارڈ کی بنیاد پر پاکستان کو فوجی امداد ملے گی۔اب تین سال بعد
دوبارہ امریکی اخبارات میں اس بات کا چرچا اور یہ راز افشا ہوا کہ امریکہ
نے پوری دنیا کے مقابلے میں پاکستان کیلئے خفیہ رازوں کی چوری و جاسوسی
نظام میں بے تحاشا سرمایہ کاری کی ہے۔گو کہ ایسے اس کے مقاصد و فوائد حاصل
ہورہے ہیں لیکن ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے اسرار تک پہنچنے میں امریکہ ناکام
ہے۔شام کا محاذ امریکی مفادات کیلئے بھی بہت ضروری ہے کیونکہ دہشت گردی کے
خلاف جنگ کے نام پر ہزاروں بے گناہ لوگوں کا خون بہانے اور امریکی خزانے سے
کھربوں ڈالر لٹانے کے باوجود افغانستان سے امریکہ محروم ہاتھوں میں اپنے
ارمانوں کا خوں لئے واپس جا رہا ہے۔اوباما انتظامیہ اس حولے سے شدید تنقید
کا شکار بنتی رہی ہے اور وہ اپنی ناکامیوں کا غصہ پاکستانیوں پر اتارنا
چاہتے ہیں اور اس لئے بھی اہم ہے کہ افغانستان جنگ میں ناکامی پر ایک نئے
عالمی محاذ کی بنا ء پر پردہ بھی پڑ جائے گا اورا مریکی عوام کی توجہ
افغانستان سے ہٹ کر نئی عالمی جنگ جوئی کی جانب متوجہ ہوجائے گی ، چونکہ
امریکہ پر اسرائیل کا اثر و رسوخ زیادہ ہے اس لئے فلسطین ،ایران اور شام کو
سبق سکھانے کیلئے اس سے بہتر موقع امریکہ کیلئے کیا ہوسکتا ہے کہ اس کی
تمام جنگ کے اخراجات عرب برداشت کررہے ہیں۔ سعودی عرب کی جانب سے پُر کشش
پیش کش کے بعد امریکہ کے منہ سے رال ٹپکنا شروع ہوگئی ہے اور اس کیلئے
عالمی برادری کی حمایت بھی ضروری نہیں ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں نے
اپنی ریشہ دوانیوں سے امریکہ کو خود موقع فراہم کیا کہ وہ ان کے گھر میں
داخل ہوکر ان کے گھر میں ہی آگ لگائے۔کویت عراق جنگ کے بعد عراق پر قبضے کے
بعد امریکہ نے تمام جنگی اخراجات کو عراق کے تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی
سے وصول کرنے کا معائدہ کیا اور عراق کے تیل کے ذریعے اپنے جنگی اخراجات
اور تاوان وصول کر رہا ہے۔تو دوسری جانب سعودی عرب کی حفاظت کے نام پر
کھربوں ڈالرز اور تیل میں مراعات اس کے علاوہ حاصل کر رہا ہے۔اس دوران
افغانستان کے محاذ نے امریکہ کو دیوالیہ کردیا اور اس کے بڑے بڑے مالیاتی
ادارے کریش کرگئے۔افغانستان کے زمینی محاذ سے باہر آنے کیلئے اس کی تگ ودو
میں بے چینی پائی جاتی ہے۔جنگ افغان اور امریکہ کے درمیان تھی لیکن اس کا
خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑا اور چالیس ہزار سے زائد شہری اور فوجی جوانوں
کی جانیں اس جنگ کی نذر ہوگئیں۔اتنی بڑی و عملی قربانی کے باوجود امریکی
مطالبات میں ٹھہراؤ آنے کے بجائے ڈو مور کا اضافہ ہوتا چلا گیا اور اب بھی
فوجی اور اقتصادی امداد کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔9ستمبر 2013ء
کو حکومت پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاگ ان کیمرہ کے نتائج سابقہ اے
پی سی کی طرح ہونگے یا کوئی تبدیلی آئے گی یہ وقت ثابت کرے گاْ۔تاہم اس
سلسلے میں کانفرنس سے پہلے تقریباًتمام سیاسی جماعتوں کا واضح موقف آچکا
تھا کہ پاکستانی شدت پسند گروپس سے معاملات مذاکرات کے ذ ریعے حل کئے جائیں
۔ جبکہ فوج کی جانب سے اسٹریجک پالیسی کی تبدیلی میں پہلی بار اندرون ملک
دشمنوں کو سر فہرست رکھاہوا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی انتہا پسند
گروپس کے تعداد اور ان کے درمیان اختلافات بھی مسائل کے حل کیلئے دشوار
گذار عمل ہے۔اس لئے سیاسی جماعتوں کی جانب سے پاک فوج کو یہ مشورہ نہیں دیا
جا سکتا ہے کہ مغربی سرحدوں اور شمالی سرحدوں سے صرف ِ نظر کرکے اپنی پوری
توانائی اندرونی جنگ میں جھونک دے لیکن یہ بھی اہم مسئلہ ہے کہ جب تک ملک
کے اندر امن قائم نہیں ہوتا بیرونی عناصر سے نبر الزما نہیں ہوا
جاسکتا۔ہمیں اب سمجھ لینا چاہیے کہ امریکہ سے مراد ایک گرما گرم پلاؤ ہے
لیکن اس میں سنکھیا موجود ہونے کی وجہ سے تمام تر لوازمات ہونے کے باوجود
مسلم ممالک اور بالخصوص پاکستان کیلئے زہر قاتل ہے۔امریکہ کے کسی منفی
اقدام سے ہمیں خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے ۔ماضی میں متعدد بار پاکستان مشکلات
سے دوچار ہوا ہے لیکن اﷲ تعالی نے ہمیں بار بار مہلت دی ہے کہ ہم اپنے آپ
کو سنبھال سکیں۔افغانستان سے امریکی انخلا ء کے بعد کی صورتحال سے امریکہ
کی پالیسوں سے ہمیں نہیں گھبرانا چاہیے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی
قیادت صبر و تحمل اور سکون سے صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے اپنی مربوط و
مستحکم پالیسی بنا ئے۔پہلے پاکستان میں امن کو ترجیح دے ۔ پڑوسی ممالک کی
اشتعال انگیزیوں اور دباؤ میں آئے بغیر جو بھی فیصلہ کرے اُس کا مقصود
پاکستان کی سلامتی اورخود مختاری ہو۔پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں جمہوری
بلوغت کی کمی ہے اور اس نے ابھی تمام فیصلے اپنے کندھوں پر اٹھانے کی سکت
کم رکھی ہے۔بیرون ممالک پر انحصار کی پالیسی نے پاکستان کو صرف امریکہ کی
ذیلی ریاست بننے تک محدود کردیا ہے ۔ جس کے ایک حکم پر حکمران اپنا سر
تسلیم خم کرلیتے ہیں۔عراق، لبنان، لیبا،شام، ترکی ، مصر ، افغانستان اور
یمن میں امریکی جارحانہ پالیسوں کے بعد کسی بھی عام مسلمان کیلئے یہ جواز
نہیں رہتا کہ عالمی تھانیدار کا مقصد بلا شرکت غیرے پوری دنیا پر حکومت
قائم کرکے مسلمانوں سے اس کا خراج وصول کرنا ہے۔ماضی میں مسلم حکمرانوں کو
دئیے جانے والے خراج کو سود سمیت واپس لیا جا رہا ہے لیکن ہم ایسے جانتے
بوجھتے ہوئے بھی زہر کو قند سمجھ کر کھانے پر مصر نظر آتے ہیں۔ |