کراچی پاکستان کا اہم ترین شہر ہے لیکن بڑے ہی افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ اس
شہر کے مسائل دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔موجودہ حکومت کی طرف سے شہر میں نقص
امن کو کنٹرول کرنے کے لئے موجودہ پیش رفت قابل ستائش ہے لیکن اس نازک صورت
حال میں ایم کیو ایم،پیپلز پارٹی ،تحریک انصاف اور اے این پی سمیت تمام
جماعتوں کے لئے ضروری ہے کہ کم از کم کراچی کے مسئلہ پرخدارا! ہر گز ہرگز
سیاست نہ چمکائیں۔آج کی پریس کانفرنس میں جناب چوہدری نثار صاحب نے کہا ہے
کہ ہشتگردی کے خلاف کْل جماعتی کانفرنس پیش رفت کا ذریعہ بنے گی۔ اْمید ہے
مشترکہ قرارداد منظور ہوگی۔ جرائم پیشہ افراد کا ملک سے فرار روکنے کیلئے
سسٹم لا رہے ہیں۔ کراچی میں آپریشن کے بعد جرائم پیشہ افراد کی کمر ٹوٹ
جائے گی۔اﷲ چوہدری صاحب کی زبان مبارک کرے۔آمین۔کراچی کے مسائل میں ہمیشہ
ایم کیوایم کا نام بولتا ہے ،ٹھیک ہے ایم کیو ایم ایک سیاسی جماعت بھی ہے ،ہم
مانتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی قیادت اور کارکن براہ ِ راست شر پسندوں کی
نمائندگی نہیں کرتے لیکن اس بات سے بھی ایم کیو ایم کنارہ کش نہیں ہو سکتی
کہ اسے شر پسندلوگوں کی معلومات نہ ہوں۔سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو
ایم کی مشترکہ حکومت رہی ہے اور فی الحال بھی ان دو جماعتوں کا راج ہے اس
لئے کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کی زیادہ ذمہ داری ان دو جماعتوں پر ہی جاتی
ہے۔جناب عشر العبادصاحب عرصہ دراز سے بطور گورنر سندھ اپنے عہدے پر فائز
ہیں اور وزیر اعظم صاحب سے حالیہ ملاقات میں تقریباً تاجروں کی نوے فی صد
نمائندگی نے عشر العباد اور ایم کیوایم کی جماعت کو حالات کی خرابی میں
ملوث ہونے کی نشاندہی بھی کی۔اس بات کی صداقت آج کی نیوز سے ہو سکتی ہے جس
کے مطابق ’’کراچی میں بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور گاڑیوں میں لوٹ مار
کے واقعات کے خلاف گڈز ٹرانسپورٹرز کی جانب سے 9 ستمبر کو احتجاجی ریلی کا
اعلان کیا گیا۔ گورنر سندھ نے گڈز ٹرانسپورٹرز کے احتجاج کا نوٹس لیتے ہوئے
انہیں ملاقات کے لیے گورنر ہاؤس طلب کر لیا ہے۔ یونائٹیڈ گڈز ٹرانسپورٹرز
الائنس کے جوائنٹ سیکریٹری امداد نقوی کا کہنا ہے ملاقات میں گورنر سندھ کو
ٹرانسپورٹرز کے مسائل اور حکومتی وعدے پورے نہ کرنے سے متعلق آگاہ کیا جائے
گا۔‘‘
کراچی کو فتح کرنے کے لئے کوئی بھی سیاسی جماعت اگر ہتھیاروں کا سہارہ لینے
کا کی سوچ رکھتی ہو تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔عوام کے دلوں میں جگہ بنانے کے
لئے پرامن اور فلاح و بہبود والا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔کراچی میں
لوٹ مار،قتل عام،اغواء برائے تاوان ،گاڑیوں کی لوٹ مار سمیت کئی اور بڑے
مسائل ہیں جو کہ حل طلب ہیں۔کراچی کے مسائل کو حل کرنے میں جہاں پچھلے
سالوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت ناکام رہی ہے وہیں ایم کیوایم
بھی اپنا تعاون دکھانے میں ناکام رہی ہے۔کراچی میں سب سے زیادہ ہولڈ ایم
کیو ایم کا رہا ہے لیکن بد قسمتی سے ایم کیو ایم نے ہی کراچی کی بد حالیوں
میں زیادہ حصہ ڈالا ہے۔اس کئی لاجیکل مثالیں ہمارے سامنے ہیں مثلاً ایک
دفعہ جب چیف جسٹس آف پاکستان نے کراچی میں لینڈ کرنا تھا تو کراچی میں قتل
عام اور ہنگامے کرائے گئے،ایک دفعہ عمران خان کے کراچی اور سندھ میں داخلے
پر ایم کیو ایم کی طرف سے پابندی لگائی گئی۔ن لیگ کے اہم ترین ارکان کو قتل
کیا گیا۔
ماسوائے دو تین ناخوشگوار واقعات کے ملک بھر میں رینجرز کی طرف سے کوئی بڑی
زیادتی دیکھنے میں نہیں آئی جو ان سے دانستہ یا نادانستہ طور پر سر زد
ہوئیں۔حالیہ مہینے میں رینجرز کی کراچی میں تعیناتی کے ثمرات سب کے سامنے
ہیں شہر بھر میں نہ صرف آہستہ آہستہ امن ہو رہا ہے بلکہ شہر کے کئی علاقوں
میں اسلحہ سمیت دہشت گرد افراد پکڑے گئے ہیں۔جب یہ کالم لکھا جا رہا تھا تو
دوسری طرف جناب صدر زرداری صاحب تقریباً ایوان صدر سے رخصت ہو چکے ہیں اور
صدر زرداری کے جانے کے ثمرات بھی رفتہ رفتہ انشاء اﷲ پوری قوم کے سامنے
ہونگے۔اسے قوم کی خوش قسمتی سمجھیں یا بدقسمتی کہ صدر زرداری کی طرف ایران
سے گیس کے معاہدے اور بلوچستا ن میں چائنہ سے سمندری معاہدے کے پانچ سالوں
میں کوئی ’’نمایاں‘‘ اور نیک کام نہیں ہو سکا۔کراچی کے حالات کنٹرول کرنے
میں تاخیر اور ذولفقار مرزا کے حلفیہ بیان دینے کے باوجود اسے ملک سے باہر
بھجوانے جیسے فضول فیصلے جناب زرداری صاحب کے دور میں ہوئے۔پنجاب حکومت پر
گورنر راج کا نفاذ ،ڈاکٹروں کی پنجاب میں ہڑتال کروانے اور وکلاء میں
انتشار جیسے کام بھی اسی دور میں ہوئے۔زرداری کی ناکامیوں میں سے اس با ت
کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ اسی دور میں مشرف دور کی طرح روایتاً ڈالر کی
قیمت آسمان تک گئی،مہنگائی بڑھتی گئی،رشوت ،سفارش، کرپشن پنپتی گئی،گیس اور
پٹرول کے ریٹ ڈبل ہوتے گئے۔پھر بھی زرداری صاحب کے بقول ’’ ہم جمہوریت کو
آگے بڑھا کر آئے ہیں۔ آج جمہوریت کی فتح ہو گئی۔ ملک و قوم کی خاطر جمہوریت
کے سفر کو جاری رکھنا ہے۔‘‘
موجودہ حکومت کے سو دن پورے ہونے جا رہے ہیں۔موجودہ حکومت سے میرے سمیت ہر
آدمی کو یہی توقع ہے کہ یہ حکومت اپنی قابلیت کا ثبوت دیتے ہوئے میرٹ پرنہ
صرف کراچی کے حالات سیٹ کرے گی بلکہ عوام کی تمام تر بدحالیوں کی تلافی
،مہنگائی پر کنٹرول،رشوت کے خاتمے اور بے روزگاری ختم کرنے میں اپنا آپ
ثابت کرے گی۔دوسری طرف بین الاقوامی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں ہماری حکومت
کو اس میں بھی اپنی بالغ نظری دکھانی ہو گی۔اوبامہ حکومت روایتی طور پر شام
کے خلاف جارحانہ اقدامات کی سوچ رکھتی ہے۔دیکھا جائے تو امریکہ ہمیشہ
مسلمان ملکوں کے خلاف محاذ آرائی کرتا ہے جو کہ ان کی منفی سوچ کا واضح
ثبوت ہے۔حالیہ رپورٹس کے مطابق صدر اوباما نے ہفتہ کے روز کہا ہے کہ امریکہ
کیلئے شام میں ہولناک کیمیائی حملے کے بعد کارروائی سے گریز کا کوئی جواز
نہیں ہے حملہ ہر صورت ہو گا ،یہ بات انہوں نے اراکین پارلیمنٹ سے فوجی حملے
کی منظوری لیتے ہوئے کہی۔اوباما نے ریڈیو پر اپنے ہفتہ وار خطاب میں کہا کہ
ہم ان تصاویر پر آنکھیں بند نہیں کرسکتے جو ہم نے شام میں دیکھی ہیں،اوباما
نے کہا ہے کہ ان کا شام میں طویل جنگی مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں وہ صرف
اسے مستقبل میں اپنے عوام پر حملوں سے روکنے کیلئے محدود پیمانے پر
اورمحدود مدت کیلئے فوجی حملے کرنا چاہتے ہیں۔ باراک اوباما نے کہا کہ شام،
عراق یا افغانستان نہیں، یہاں ہمارا ہر عمل محدود وقت کیلئے اور مخصوص
علاقے کیلئے ہوگا۔ حملے کا مقصد یہ ہے کہ شام کو مستقبل میں عوام کے خلاف
کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے روکا جائے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی عوام
ایک عشرہ طویل لڑائی سے تنگ آچکے ہیں۔ ادھر اوباما انتظامیہ کو پارلیمان سے
شام پر حملے کی قرارداد منظور کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک ہفتہ
طویل منت سماجت کے باوجود اراکین پارلیمنٹ کی حمایت حاصل نہیں ہوسکی۔
امریکی ایوان نمائندگان میں ری پبلکن رہنما نے توقع ظاہر کی ہے کہ شام میں
فوجی کارروائی کے آغاز کی اجازت کیلئے ایوان میں ووٹنگ آئندہ دو ہفتوں میں
ہو گی۔ امریکی خبر رساں ادارے اے بی سی نے قومی سلامتی کے ایک عہدیدار کے
حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے شام کیخلاف جنگ میں فضائی
کارروائی کیلئے بی 52 اور بی 2 بمبار لانگ رینج طیاروں کے استعمال کیلئے
تیاری شروع کردی ہے۔ہماری حکومت اگر تمام مسلمان ممالک کی حمایت لیکر شام
کی عوام کو امریکن جنگ سے بچا لے تو یہ بھی ہماری موجودہ حکومت کی ایک بہت
بڑی کامیابی ہوگی۔اپنا ملک ہو،کراچی جیسا کوئی بھی شہر ہو یا شام جیسا
مسلمان ملک ہر جگہ قیام امن میں حکومت کا کردار اپنی عوام سمیت دنیا بھر
میں سراہا جائے گا اس سے نہ صرف عوام کو تسکین ملے گی بلکہ دنیا میں
پاکستان کا امیج بلند ہوگا۔ملکی اور بین الاقوامی مسائل پر کنٹرول کرنا ہی
ہر حکومت کی دانش مندی اوردور اندیشی ہوتی ہے۔ |