ایک قاری کا کہنا ہے کہ نہایت سنجیدہ موضوعات کے علاوہ آزاد کشمیر کے سیاسی
واقعات و امور کے بارے میں بھی لکھا جائے۔میں نے اپنے حالیہ ایک کالم ’’
مشن آزاد کشمیر‘‘ کا حوالہ بھی دیا لیکن قاری کا اطمینان نہ ہوا۔میں سوچنے
لگا کہ آزاد کشمیر کے انتشار،بد انتظامی کی اس صورتحال کے بارے میں
کیالکھوں کہ جب حکومت کا وجود،اس کے طور طریقے ہی ایک مزاق بن چکے ہوں۔چند
ہی روز قبل وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے
کی پاداش میں کابینہ سے نکا لے گئے سردار اختر حسین ربانی،چوہدری محمد
رشید،علی شان سونی،اظہرگیلانی،عبدالماجد خان اور محمد افسر شاہد دوبارہ
کابینہ میں شامل ہوئے ،صدر آزادکشمیر نے حلف لیا۔ اس کے بعد محمد حسین
سرگالہ کے بیٹے اکمل سرگالہ نے بھی وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید سے دوبارہ
مشیر بننے کا حلف لے لیا۔ یہی وہ افراد تھے جنہوں نے چوہدری عبدالمجید
حکومت کو بدعنوان،رشوت خور،اقرباء پروری،میرٹ کی پامالی،تحریک آزادی کشمیر
کو نظر انداز کرنے اور ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف عدم اعتماد
کی تحریک اسمبلی میں جمع کراتے ہوئے مجید حکومت کے خاتمے کے لئے سرگرم
کردار ادا کیا تھا۔
وزیر اعظم نواز شریف نے آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کو عدم اعتماد کی
تحریک سے الگ رہنے کا پابند کیا بنایا کہ چوہدری عبدالمجید حکومت صرف سولہ
ارکان کی ساتھ بھی قائم رہی اور یہ صورتحال کئی دنوں جاری رہی۔اس عالم بے
چارگی میں عددی تعداد پوری کرنے کے لئے چوہدری عبدالمجید حکومت نے ’’ معافی‘‘
کے نام پر ان ارکان کو واپس لینے کا اعلان کیا اور ان کے لئے پہلی والی ہی
وزارتوں کی یقین دہانی بھی کرائی گئی۔لوگ حیران ہیں کہ کیا آزاد کشمیر کی
پیپلز پارٹی حکومت کے باغی وزراء،مشیر کے چوہدری عبدالمجید حکومت پر لگائے
گئے ان کے سنگین الزمات غلط تھے یا اب ان باغی وزراء و مشیر کے علم میں
اضافہ ہوا ہے کہ چوہدری عبدالمجید حکومت کے خلا ف انہوں نے جو کہا جھوٹ کہا
،جو کیا ،غلط کیا، اب وہ نئی معلومات کی روشنی میں حکومت کے خلاف اپنے
خیالات ،اظہار اور عمل سے تائب اور نالاں ہیں۔ کشمیری حیران و پریشان ہیں
کہ آخر وزارت میں ایسی کیا دلنشینی،جنت کے سے مزے ہیں کہ محبوب کے’’ دوبارہ
وصل‘‘ کی سی بے تابی سے وزارت دوبارہ یوں حاصل کر لی جاتی ہے کہ جیسے ’’
جنت کو ایک بار دیکھا ہے ،دوبارہ دیکھنے کی حسرت ہے‘‘۔
آزاد کشمیر میں ایک ہی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزراء کی اس بغاوت اور پھر
واپس دو بارہ وزیر بننے پر مجھے یاد آیا کہ 2001ء کے الیکشن میں کامیابی کے
بعد مسلم کانفرنس کی پارلیمانی پارٹی میں سردا ر سکندر حیات خان کے مقابلے
میں سردارعتیق احمد خان اپنے حمایتی ارکان کے ساتھ وزیر اعظم بننے کے
دعویدار بن گئے ۔تاہم مسلم کانفرنس کے سینئر افراد کی طرف سے سردار محمد
عبدالقیوم خان پر زور دینے کی وجہ سے سردار محمد عبدالقیوم خان نے سردار
عتیق کو وزیر اعظم بننے کی کوشش سے روک دیا۔وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان
کی کابینہ بننے کے بعد سردار عتیق احمد خان نے اپنے حمایتی مسلم کانفرنسی
وزراء جن میں چوہدری طارق فاروق ،شاہ غلام قادر،مسعود خالد اور شوکت علی
شاہ شامل تھے،سے استعفے لکھوا کر اپنے پاس رکھ لئے۔بعد میں سردار عتیق نے
یہ استعفے پیش کر دیئے اور مسلم کانفرنس کی پارلیمانی پارٹی میں ’’ ہم خیال
گروپ ‘‘ سامنے آ گیا۔اس گروپ کا مطالبہ تھا کہ وزیر اعظم سردار سکندر حیات
کو ہٹا یا جائے۔آٹھ ،نو ماہ یہ سلسلہ چلتا رہا۔’’ ہم خیال گروپ‘‘ کی
سربراہی شاہ غلام قادر کر رہے تھے۔واضح رہے کہ یہ سابق آمر حکمران جنرل
مشرف کا وہ دور حکومت تھا جب آزاد کشمیر حکومت کے تمام تر امور پر فوج کا
مکمل ’چیک‘ اور کنٹرول تھا اور اسی زمانے میں سردار سکندر حیات خان کا کہا
گیا وہ جملہ مشہور ہوا کہ ’’ اب میں مری کی سیڑھیاں چڑھ چڑھ کر تھک گیا
ہوں‘‘۔پھر ’’ ہم خیال ‘‘ گروپ آمادہ صلح ہوا۔مقتدر قوتوں نے بٹھا کر
معاملات طے کرائے۔طے پایا کہ بڑی وزارتوں میں سے دونوں گروپوں کو تین ،تین
وزارتیں دی جائیں گی۔طے شدہ فارمولے کے مطابق دونوں گروپوں میں وزارتیں
تقسیم ہو گئیں ،مستعفی ہونے والے وزراء واپس اپنی وزارتوں پہ آ گئے لیکن
وزیر خزانہ کے عہدے سے استعفی دینے والے شاہ غلام قادر نے یہ کہتے ہوئے
دوبارہ وزیر بننے سے انکار کر دیا کہ ’’ مجھے زیب نہیں دیتا کہ میں دوبارہ
اس حکومت میں وزیر بن جاؤں جس کے خلاف بغاوت کی میں نے سربراہی کی
تھی‘‘۔وزیر اعظم سردار سکندر حیات اور مقتدر قوتوں کے اصرار کے باوجود شاہ
غلام قادر نے دوبارہ وزیر بننا قبول نہیں کیا۔وزارتوں کی تقسیم کے بعد وزیر
اعظم سردار سکندر حیات نے شاہ غلام قادر سے پوچھا کہ وہ وزیر بننے پر کیوں
آمادہ نہیں ہوئے؟ شاہ غلام قادر نے کہا کہ اگر آپ میری جگہ ہوتے تو آپ کیا
کرتے؟ اس پر سردار سکندر حیات نے کہا کہ میں بھی وہی فیصلہ کرتا جو تم نے
کیا ہے ۔
وزیر اعظم نواز شریف کی ’’ مہربانی ‘‘ سے حکومت کے خاتمے سے بچ جانے اور
عددی تعداد پوری ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کی چوہدری عبدالمجید حکومت کے
سر سے خطرہ ٹلا نہیں ہے۔کئی سنگین امورکے علاوہ آزاد کشمیر کے سرکاری
محکموں و اداروں کو بھی چوہدری عبدالمجید حکومت نے اپنی ’بیڈ گورننس‘ سے
بری طرح متاثر کیا ہے۔میرے خیال میں یہ آزاد کشمیر کی اپوزیشن کی ’’ کسر
نفسی‘‘ ہے ورنہ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی حکومت نے اپنے آئینی و قانونی
خاتمے کے تمام لوازمات پورے کر دیئے ہیں۔ |