کراچی جو کسی زمانے میں روشنیوں کا شہرکہلاتا تھا آج آئے روز دہشتگردی سے
پندرہ بیس انسانوں کو نگل رہا ہے خصوصاََ گزشتہ چارسالوں میں آٹھ ہزارانسان
موت کے منہ میں چلے گئے یہی وجہ ہے کہ نئی حکومت نے آتے ہی کراچی کے ایشو
پر توجہ دیتے ہوئے رینجرز کے ذریعے آپریشن کا فیصلہ کیا ہے جس کو ہرکوئی
سراہ رہا ہے بلکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ فیصلہ بہت پہلے کرلینا چاہئے
تھا بہرحال دیرسے سہی لیکن اب یہ مشکل فیصلہ کرلیا گیا ہے اور ہم یہ سمجھتے
ہیں کہ یہ آپریشن بلاامتیاز اور تمام ترسیاسی مفادات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے
ایک طرف سے شروع کرکے تمام تر دہشتگردگروپوں کے خلاف ہونا چاہئے چاہے ان کا
تعلق کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت سے ہو ۔اس سلسلے میں 458انتہائی مطلوب
اور خطرناک مجرموں کی فہرست بھی مرتب کرلی گئی ہے جنہوں نے کراچی کے امن کو
تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن اس کیساتھ یہ بات بھی انتہائی
اہمیت کی حامل ہے کہ یہ آپریشن کراچی میں امن قائم کرنے کا آخری موقع ہوگا
کیوں کہ اس سے پہلے بھی کئی بار کراچی میں امن کیلئے کی گئی تمام کوششیں
ناکام ہوچکی ہیں اس ناکامی کی اگرچہ کئی وجوہات ہیں لیکن ان میں اہم ترین
یہ ہے کہ کراچی پولیس 92ء کے آپریشن کے بعد انتہائی خوف کا شکار ہے کیوں کہ
92ء کے آپریشن میں حصہ لینے والے تمام پولیس اہلکاروں کو چن چن کر قتل
کردیا گیا اس کے بعد ہی محکمہ پولیس مکمل طور پر politisizeہوگیا اور ہر
جماعت اپنی مرضی کے پولیس اہلکار تعینات کرتی رہی اور اس طرح پولیس عوام کی
خدمت کی بجائے سیاست دانوں کی ذاتی ملازم بن کررہ گئی جس کی وجہ سے پولیس
ان نوگو ایریاز میں جانے کی جرأت ہی نہیں رکھتی جہاں جرائم پیشہ افراد کے
ٹھکانے ہیں کیوں کہ یہ نوگو ایریاز انہی سیاسی جماعتوں میں چھپے جرائم پیشہ
افراد کے قبضہ میں ہیں جنہوں نے اپنی مرضی کے بندے پولیس میں بھرتی کروا
رکھے ہیں یہاں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتوں نے پولیس میں اپنے
من پسند افراد کی بھرتی میں اس قدر جلد بازی دکھائی کہ ایک اخباری اطلاع کے
مطابق کراچی پولیس میں 6000ایسے جوان بھی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جو
خود کسی نہ کسی جرم میں ملوث ہیں اور یہی پولیس کی وہ کالی بھیڑیں ہیں جونہ
صرف خود بھتہ خوری میں ملوث ہیں بلکہ یہ کراچی میں بدامنی کا بڑا سبب بھی
ہیں کیوں کہ یہ کسی بھی آپریشن کی پیشگی اطلاع اپنے ان آقاؤں کو پہنچا دیتے
ہیں اور اسی لئے ہی میاں نوازشریف کو یہ کہنا پڑا کہ عوام کا پولیس پر سے
اعتماد اٹھ چکا ہے اور انہیں کراچی میں رینجرز کے ذریعے آپریشن کا فیصلہ
کرنا پڑااور اگر اب کی بار بھی ایسا ہوا تو عوام کا پولیس کیساتھ ساتھ
رینجرز پر سے بھی اعتماد اٹھ جائے گا اور پھر حالات مزید بدترین شکل
اختیارکرلیں گے لہٰذ اس کی کامیابی کیلئے انتہائی موثر اور ٹھوس منصوبہ
بندی کرنا ہوگی اوررینجرز کے ساتھ پولیس،خفیہ ایجنسیوں ،سیاسی جماعتوں اور
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مل کر اس اہم ترین مشن کو مکمل کرنا ہوگا ۔اور
کراچی جو کہ پاکستان کی چالیس فی صد آمدنی کا ذریعہ ہے کو امن و امان کا
گہوارہ بنایا جائے کیوں کہ اس کے بعد ہی میاں نوازشریف کا معیشت کو پہلی ،دوسری
اور تیسری ترجیح دینے کا عزم بھی پورا ہوسکے گا ۔کراچی پولیس میں سیاسی
مداخلت کے خاتمے کے بعد دوسرے قدم کے طور پر اس شہر کو مکمل طور پر
deweaponiseکرنا چاہئے اور اس سلسلے میں نیٹو کے اسلحے سے بھرے
19000کنٹینرز کے غائب ہونے کی بھی تحقیقات کرکے اس میں ملوث افراد کو کڑی
سزائیں دی جانی چاہیں اور تیسرے اقدام کے طور پر فوری طور غیرقانونی سمیں
بلاک کرکے بھی بہت سی وارداتوں سے بچا جاسکتا ہے ۔کراچی آپریشن میں جو اہم
پیشرفت ہوتے ہوتے رہ گئی وہ ذولفقار چیمہ کی بطور آئی جی پولیس تعیناتی تھی
اگر ان کو اس عہدے پر تعینات کردیا جاتا تو یقیناََ یہ دلیر اور ایماندار
شخصیت نہ صرف کراچی پولیس میں اصلاحات لاتی بلکہ کراچی کے حالات ٹھیک کرنے
میں بھی اہم رول اداکرتی لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا اور ان کو تعیناتی کا
نوٹیفکیشن جاری کرکے واپس لے لیا گیا فرض کریں کہ اگر ان کا تعلق کسی مخصوص
سیاسی جماعت سے تھا بھی تو ان کے ماضی کے شاندارریکارڈ کو دیکھتے ہوئے کسی
سیاسی جماعت کو ان کی تعیناتی کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے تھی کیوں کہ یہ
ملکی سلامتی کا معاملہ ہے اور اس پر سیاست نہیں کرنی چاہئے تھی۔خیر جو ہوا
اس سے قطع نظر پاکستان میں ایماندار افسران کی کوئی کمی نہیں ذولفقار چیمہ
نہ سہی ان کی جگہ کسی اور ایسے دبنگ آفیسر کو کراچی پولیس کی کمانڈ سونپی
جانی چاہئے جو کراچی پولیس کے امیج کو عوام کی نظروں میں بہتر کرے جو کراچی
پولیس کو جرائم پیشہ افراد سے پاک کرکے عوام کا حقیقی معنوں میں محافظ
بنائے یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ کراچی کو مستقل طور پر تو رینجرز کے سپرد
نہیں کیا جا سکتا آخر یہ انتظام پولیس کو ہی سنبھالنا ہے اور رینجرز کے
کراچی میں آپریشن کے بعد(جو انشااﷲ کامیاب ہوگا) اگر کراچی کو پھر اسی
پولیس کے حوالے کردیا گیا جس میں 6000مجرم خود موجود ہوں گے تو خطرہ ہے کہ
مستقبل میں کراچی کے حالات پھر خراب ہوسکتے ہیں۔ |