بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع
مظفر نگر میں انتہا پسند ہندﺅں کی جانب سے مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ
جاری ہے۔ فوج اور پولیس کی موجودگی میںبے لگام ہندو مسلمانوں پر لگاتار
حملے کررہے ہیں۔ تین روز کے حملوں میں پینتیس سے زائد مسلمان شہید کیے
جاچکے ہیں۔سو کے لگ بھگ مسلمانوں کو جلانے کی کوشش کی گئی ہے اور متعدد
مساجد و مدارس کو بھی جلادیا گیا ہے۔مسلمانوں کی متعدد دکانوں اور مکانات
کو بھی آگ لگادی گئی ہے۔ پورے ضلع میں حالات خاصے کشیدہ ہیں۔ پورے شہر میں
غیرمعینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کردیاگیاہے اور حفاظتی ذمے داریاں فوج کے
سپرد کردی گئی ہیں۔اطلاعات کے مطابق فوجی دستوں نے شہرمیں مارچ بھی کیا۔اس
کے باوجود بدمست ہندو مسلمانوں کو قتل کرتے رہے۔مظفر نگر کی متعدد مسلم
بستیوں سے کم از کم دس ہزار مسلمان نقل مکانی کرچکے ہیں،جس کے بعد ہندوﺅں
کی جانب سے ان کے خالی مکانات میں لوٹ مار کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوچکا
ہے۔ایک مسلمان نوجوان کا کہنا تھا کہ بے شمار ہندو لاٹھیوں، برچھوں،
بندوقوں ، پستولوں اور ہر قسم کے اسلحہ سے لیس دندناتے پھررہے ہیں، ان کو
روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ ظالموں نے مسلمان بچوں، معمر حضرات اور خواتین تک
کو معاف نہیں کیا، ان پر بھی حملے کیے ہیں۔
حکام کے مطابق ضلع مظفرنگر میں ایک ہوٹل میں جھگڑ ے کے دوران تین نوجوانوں
کے قتل کے بعد ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا
تھا۔جبکہ بعض حکام کے مطابق فسادات کا سبب ایک مبینہ ویڈیو بنی ہے جس میں
علاقے سے تعلق رکھنے والے ان دو ہندو نوجوانوں کو کوڑے مارے جارہے ہیں
جنہیں مبینہ طور پر گزشتہ ماہ قتل کردیا گیا تھا۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ
مذکورہ ویڈیو جعلی ہے۔علاقے کے ایک عہدیدار کوشال راج شرما نے ”نیویارک
ٹائمز“ کو بتایا ہے کہ ویڈیو کے علاقے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جانے کے
بعد ہفتے کو پانچ ہزار سے زائد کسانوں نے احتجاج کیا تھا جو بعد ازاں مشتعل
ہوگئے اور قتل و غارت شروع کردی۔علاقہ حکام کے مطابق مشتعل مظاہرین نے ہفتے
کو مختلف مقامات پر حملے کرکے 13 افراد کوقتل کردیا تھا جس کے بعد چاقووں،
لاٹھیوں اور سلاخوں سے مسلح گروہوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ نزدیکی دیہات
تک پھیل گیا۔فسادات کے دوران میں متاثرہ علاقوں میں کئی گھروں اور دیگر
املاک کو بھی نذرِ آتش کردیا گیا۔ اس حوالے سے ہفتے کے روز پنچایت کا
انعقاد کیا گیا۔ آئی جی وشوکرما کے مطابق جانسٹھ کے علاقے میں منعقدہ
پنچایت کے دوران رہنماؤں نے بے حد غیر ذمہ دارانہ بیانات دیے جس کی وجہ سے
لوگ مشتعل ہوگئے اور تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔ وزیر مملکت برائے ویلفیئر
محمد اعظم کا کہنا ہے کہ پنچایت کے دوران اشتعال انگیز تقاریر کی گئیں جس
میں مسلمانوں کے قتل کرنے پر بھی اکسایا گیا۔ مقامی پولیس نے بھی پنچایت کے
اس موقف کی تائید کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پر تشدد واقعات کاآغاز کاوال
گاؤں سے ہوا جس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے مظفر نگر کے دیگر علاقے بھی اس کی
زد میں آگئے اور مسلمانوں پر حملے اور ان کی املاک کو جلانے کا سلسلہ شروع
ہوگیا۔ رپورٹس کے مطابق پنچایت میں شرکت کے لیے آنے والے ہجوم نے راستے میں
ایک مسلمان کو مار مار کر قتل کردیا تھا اور پنچایت سے واپسی پر منصوبہ
بندی کے تحت مسلمان آبادی والے علاقوں پر حملے شروع کردیے گئے۔ اترپردیش کے
سیکرٹری داخلہ کمل سکسینا نے میڈیا کو بتایا کہ ہفتے کے روز 11 افراد مارے
گئے جبکہ اتوار کو مزید آٹھ لوگوں کو قتل کردیا گیا۔ بھارتی حکومت نے
پنچایت کا انعقاد کرنے والے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی)کے
مقامی رہنماؤں سمیت متعدد افراد کے خلاف ایف آئی درج کرکے وارنٹ گرفتاری
جاری کردیے ہیں جبکہ متعددافراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ مظفر گڑھ کے
ڈسٹرکٹ منیجر نے تین روز تک ضلع بھر میں تعلیمی ادارے بند رکھنے کا اعلان
کیا۔
فسادات سے متاثرہ علاقے کا رخ کرنے والے ایک وفاقی وزیر سمیت حزبِ اقتدار
اور اختلاف سے تعلق رکھنے والے کئی سیاست دانوں کو پولیس نے علاقے کا دورہ
کرنے سے یہ کہہ کر روک دیا کہ ان کے جانے سے تشدد کی آگ مزید بھڑک سکتی
ہے۔ان فسادات پر بھارتی سیاست دانوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف الزامات
کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔وزیرِ داخلہ سشیل کمار شنڈے نے اترپردیش کے
وزیرِ اعلیٰ اکھیلیش یادیو پر وفاق کی جانب سے دی جانے والی وارننگز سے
غفلت برتنے اور فسادات کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات نہ کرنے کا الزام
عائد کیا ہے۔جب کہ مسلمان ووٹوں پر بڑی حد تک انحصار کرنے والے ریاستی
حکمران جماعت ”سماج وادی پارٹی“ کے رہنماﺅں نے فسادات کا ذمہ دار حزبِ
اختلاف کی مرکزی جماعت ”بھارتیہ جنتا پارٹی“ کو ٹھہرایا ہے جو ان کے بقول
ہندو مسلم فسادات کراکے آئندہ عام انتخابات میں فائدہ اٹھاناچاہتی
ہے۔اطلاعات کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعدد ایم پی اے اور ایم ایل اے
نے مل کر یہ سازش بنائی ہے۔کیونکہ آئندہ برس انتخابات ہونے والے ہیں ،
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے سے زیادہ ووٹ ملتے ہیں،اسی لیے یہ
سیاسی شخصیات بھی مسلمانوں کو قتل کرکے آئندہ انتخابات میں کامیاب ہونا
چاہتی ہیں۔ بھارتی وزیر داخلہ ششی کمار شند کا کہنا ہے کہ آئندہ برس
انتخابات کے دوران فسادات میں مزید شدت آسکتی ہے اس لیے تمام 28 ریاستوں کو
الرٹ رہنا ہوگا۔
بھارت میں مسلمانوں کی حالت کافی قابل رحم ہے۔گزشتہ سال امریکی اخبار وال
اسٹریٹ نے اپنی رپورٹ میں اس بات کا اقرار کھلے الفاظ میں کیا تھا۔اخبار
”وال اسٹریٹ جرنل“ میں ماضی کی ایک سرکاری رپورٹ کے حوالے سے کہا تھا کہ
بھارتی مسلمان تعلیم اور سرکاری نوکریوں کے معاملے میں صرف اونچی ذات کے
ہندووں ہی نہیں بلکہ دلِتوں سے بھی پیچھے ہیں جنہیں تاریخی طور پر بھارتی
معاشرے میں سب سے پسماندہ اور نچلی ذات تصور کیا جاتا ہے۔”وال اسٹریٹ جرنل“
کے مطابق بھارت کے کئی شہروں میں ہندو اعلیٰ تعلیمِ یافتہ مسلمانوں تک کو
کرایے پر گھر دیتے ہوئے ہچکچاتے ہیں جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارتی تاریخ
میں جتنے ہندو مسلم فسادات ہوئے ہیں ان میں مسلمانوں کی جان و مال کا نقصان
ہندووں سے کہیں زیادہ ہوا ہے۔بھارت میں ہندو مسلم فساد نئی بات نہیں ہے۔
قیام پاکستان کے بعد بھارت کے اکثر شہروں میں ایسے فسادات ہوئے ہیں جن میں
بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔ اترپردیش ماضی میں بھی مسلم کش فسادات کا
مرکز رہا ہے۔ دسمبر 1992ءمیں ہندو انتہا پسندوں نے ایودھیا میں 16ویں صدی
کی تعمیر کردہ بابری مسجد کو شہید کردیا تھا اور اس کی جگہ مندر تعمیر
کروایا گیا تھا۔ ان فسادات کے دوران سیکڑوں مسلمانوں کو شہید کردیا گیا
تھا۔ حکومت نے متنبہ کیا ہے کہ بھارت میں ہندو مسلم فسادات کے واقعات میں
اضافہ ہورہا ہے اور رواں سال اب تک 451 واقعات رونما ہوچکے ہیں جبکہ گزشتہ
سال ہندو مسلم جھڑپوں کے 410 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ بھارت کی گنجان ترین
لیکن غریب ریاست اتر پردیش کا شمار ملک کی مذہبی طور پر انتہائی حساس
ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں گزشتہ تین برسوں میں مذہبی فسادات کے دوران میں
ملک میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ریکارڈ ہوئی ہیں۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ فسادات میں ہمیشہ مسلمانوں کا زیادہ نقصان ہوتا ہے۔
بھارت کی ریاست گجرات میں بھی گودھرا ٹرین حادثے کے نتیجے میں مسلمانوں کا
حملوں کا آغاز ہوا۔ المیہ یہ تھا کہ اس وقت ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ
نریندر مودی نے فسادیوں کو مکمل سپورٹ فراہم کی۔اس وجہ سے مسلمانوں کا بہت
زیادہ جانی نقصان ہوا۔ بعد میں تحقیقات کے نتیجے میں گودھرا ٹرین حادثے میں
مسلمانوں کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا لیکن اس کے باوجود مسلمانوں
پر حملوں کے ذمے داروں کو سزائیں نہیں دی گئیں۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ
بھارت میں فسادات کے دوران انتظامیہ ہندوؤں کی حمایت کرتی ہے۔ اب مظفر نگر
میں جو واقعہ ہوا ہے، اس سے فسادات مزید پھیلنے کا خطرہ ہے۔ مظفر نگر میں
فسادات کی اصل وجہ کیا ہے اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
میڈیا میں مختلف نوعیت کی اطلاعات موجود ہیں تاہم ایک بات ثابت ہے مظفر نگر
ضلع کے مختلف علاقوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی موجود ہے۔
اب تک متعدد مسلمان مارے جا چکے ہیں۔ اشتعال انگیزی مزید بڑھی تو فسادات
پھیلنے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ اتر پردیش میں مسلمانوں کی بھاری تعداد آباد
ہے۔ بھارتی حکومت کو ضلع مظفر نگر میں کشیدگی ختم کرانے کے لیے فوری
اقدامات کرنے چاہئیں۔ فسادات میں ملوث بلوائیوں کو گرفتار کر کے قانون کے
مطابق سزا دی جائے تاکہ اس شہر میں امن قائم ہو سکے۔ |