کراچی کو روشنی دے کراندھیروں میں ڈبونے والے ادارے
KESCکے 100 سال...؟
شہرکراچی جو نہ صرف وطنِ عزیز پاکستان میں بلکہ دنیابھر میں بھی کئی حوالوں
سے اپنا ایک منفردمقام اور حیثیت رکھتاہے، یہ شہر کسی زمانے میں عرس البلاد
اور منی پاکستان جیسے القابات سے بھی نوازاگیااور آج بھی اکثریت اِسے اِن
ہی القابات سے پکارنااور یادکرنااپنے لئے باعث اطمینان سمجھتی ہے، مگر اِن
دنوں شاید اِس شہر میں وہ چیزیں اور وہ باتیں باقی نہیں رہی ہیں جن کی
بنیاد پر اِسے اِن خوبصورت القابات سے نوازاگیا، مگرپھربھی اہلیانِ کراچی
اپنے شہرکے حالات سے مایوس نہیں ہوئے ہیں اور آج بھی یہ پُراُمیدہیں کہ
عنقریب اِن کے شہرمیں امن و سلامتی اور سکھ و چین کا بول بالاہوگااور اِن
کا شہرایک مرتبہ پھراپنی تمام تراچھائیوں اور خصوصیات کے ساتھ ایک نئے جوش
اورجذبے کی بیداری کولئے مُلک وقوم اور دنیا اُبھرے گا، اور اپنی تمام
تررعنائیوں کے ساتھ ساری دنیاپر چھاجائے گا، اور اپنے القابات عرس
البلاداور منی پاکستان کی پاسداری اور اِس کے تحفظ کے لئے اُس حد کو چھولے
گا، جس کا کوئی گمان بھی نہیں کرسکتاہے، آئیں ہم سب اپنے شہرکراچی ، جِسے
میں اور آپ ”منی پاکستان“ اور ”عرس البلاد“ جیسے خوبصورت القابات سے
یادکرتے ہیں ، اِسے پھر سے امن وشانتی اور محبت و اُخوت اور اتحاد ویکجہتی
کا گہوارہ بنانے کے لئے اپنااپنامثبت اور تعمیری کرداراداکریں، اور اپنے
اِس شہرِ کراچی کو ہم سب مل کر ایک مرتبہ پھراُس مقام پر پہنچادیں، جس مقام
کو چندہ نادیدہ قوتیںاپنی سازشوں سے اِس سے چھین چکے ہیں۔
بہرحال خبریہ ہے کہ” کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے نام سے ایک چھوٹے سے
ساحلی قصبے میں بجلی کی ضرورت کو پوراکرنے کے لئے 13ستمبر 1913میں ادارہ
کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کاقیام عمل میں لایاگیااور13ستمبر2013کو اِس
ادارے نے اپنے 100سال مکمل کرکے اپنے قیام کی سینچری پوری کرلی ہے، “ یقینا
اِس کی موجودہ نجی انتظامیہ نے اِس پر جشن اورخوشیاں بھی منائی ہوں گیں،اور
اِس موقع پراِس کی انتظامیہ نے اپنے ادارے کے ملازمین کے ساتھ ساتھ صارفین
بجلی یعنی عوام کو بھی سبزباغ اور سُنہرے خواب دیکھانے جیسے طرح طرح کے خوش
اور غمزدہ کردینے والے عزم اور عزائم بھی دھرائے ہوں گے،اور یہ بھی
کہاہوگاکہ ادارہ کراچی کو روشنیوں کا شہربنانے اور عوام کو بلاتعطل بجلی کی
فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے سرگرمِ عمل ہے، جلدہی شہر کو پھرسے روشنیوں
کا شہربنادیاجائےگا، ہرگھرمیں درست بلنگ کا بل بھیج کراِسے روشنیوں سے
منورکردیاجائے گا، مگر یہ سب کچھ فوراََ نہیں ہوسکے گا، اِس کے لئے ملازمین
کو اپنی تنخواہیں بڑھانے اور ملنے والی دیگرمراعات کی کٹوتی پر کسی قسم کا
بے جامطالبہ اور مطالبات نہ کرنے کی قربانی دینے ہوگی، اور عوام کو چوری کی
بجلی سے اجتناب برتنے کے ساتھ ساتھ کئی کئی گھنٹوں کی طویل لوڈشیڈنگ کے
باوجودبھی اضافی بجلی کے بلوں کی ادارئیگیوں کا بوجھ بھی برداشت
ناکرہوگاتاکہ ا اِس عمل سے محکمہ کے ای ایس سی کی انتظامیہ کوہفتہ ، پندرہ
روزہ اور ماہوارملنے والے اربوں کا منافع بڑھے،یوں ملازمین اور صارفین بجلی
کی اِن قربانیوں سے ارادہ اور اِس کی انتظامیہ مضبوط اور مستحکم ہوگی ۔
اَب یہ اور بات ہے کہ اِس کی نجی انتظامیہ نے محکمہ کے ای ایس سی کے سوسال
کا جشن کیوں بنالیا، جبکہ اِس کی نجی انتظامیہ کو تو اِس ادارے کواپنی
تحویل میں لئے صرف آٹھ یا دس سال ہی ہوئے ہیں، اگردیکھاجائے تواِس کی نجی
انتظامیہ نے شہرِ کراچی کو اندھیروں میں ڈبونے کا جو کارنامہ سرانجام دیاہے،
ایساکام کو اِس ادارے نے اُس وقت بھی نہیں کیاتھا، جب یہ ادارہ قومی تحویل
میں تھا، یعنی جب یہ ادارہ قومی تحویل میں تھاتو تب اِس ادارے نے شہرِ
کراچی کو روشنیوں کا شہربنائے رکھاتھا، مگر یہ ادارہ نامعلوم کیوں دورِ
آمر(پرویزمشرف کی حکومت میں) گورکھ دھندکے ذریعے نجی تحویل میںچلاگیا..؟تو
تب ہی سے اِس ادارے نے شہرکراچی کو اندھیرے میں ڈبوکراِس سے اِس کے لقب
”عرس البلاد“ سے محروم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
اگرچہ متذکرہ خبرمیں اہلیانِ کراچی والوں کے لئے خوشی سے زیادہ مایوس کن
عنصرزیادہ غالب رہاکہ محکمہ کے ای ایس سی کی سینچری کے سوسال میں سے اُن
نوے سالوں کو نکال دیاجائے جب یہ ادارہ قومی تحویل میں تھا اوراِس عرصے کے
دوران اِس نے ا پنے نام ”کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی“ کی لاج رکھتے ہوئے
اپنے شہرکراچی کو صحیح معنوں میں روشنیوں کا شہربنائے گا،مگرآج جب کہ یہ
ادارہ نجی تحویل میں چلاگیاہے، اِس ادارے کی انتظامیہ نے شہر کراچی
کوروشنیوں کا شہربنانے کے بجائے اندھیروں اور وحشتوں کاشہربنانے میں زیادہ
مہارت کا مظاہرکیاہے، آٹھ ، دس سالوں میں اِس کی نجی انتظامیہ کے ای ایس سی
کو کوڑیوں کے دام خرید کربھی ایک یونٹ اضافی بجلی بھی خود سے پیدانہیںکرسکی
ہے، اور اِس کے باوجود بھی اِس کی نجی انتظامیہ ہے کہ اِس کا عوام کو زائد
بلنگ دے کربھی پیٹ نہیں بھررہاہے، یعنی یہ وہ ادارہ ہے جس کی نجی تحویل میں
جانے کے بعد کارکردگی صفرہوکررہ گئی ہے، اِس نے اپنے صارف کو مختلف بہانے
بناکرتنگ کرنے اور دوسری جانب حکومت کوبھی بے وقوف بناکر اربوں اور کھربوں
بٹورنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیاہے۔ آج اِ س کی نجی انتظامیہ
دیدہ دانستہ اہلیانِ کراچی کوکہیں بجلی چوری کے نام پرزیادہ بلنگ سے
لوٹارہی ہے ، توکہیں بوگس بلنگ سے اور زیادہ تر تو طویل لوڈشیڈنگ کرکے بھی
زائد بلنگ سے رقم بٹورنے کا نہ روکنے والاسلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
آج جب کہ محکمہ کے ای ایس سی اپنے قیام کے سوسال مکمل کرچکاہے تو اِس کی
موجودہ انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ اپنی موجودہ کارکردگی کامحاسبہ کرے اور
اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو ٹھیک کرکے شہرِ کراچی اور عوام کو ٹھیک طرح
خدمت کرنے اور شہرکوکم سے کم بجلی سے زیادہ سے زیادہ روشن رکھنے اور ہرصارف
کے آنگن کو منورکرنے کے اقدامات کا بھی عہدکرے۔ورنہ حکومت سے عوام کایہ
مطالبہ ہوگاکہ حکومت محکمہ کے ای ایس سی کی نجی انتظامیہ کو لات مارے
اوراِس سے محکمہ کے ای ایس سی کو اپنی تحویل میں لے وہ خود شہرکراچی کو پھر
سے روشنیوں کا شہربنانے کے انتظامات کرے اور اِس شہرکا کھویاہوالقب ”عرس
البلاد“ واپس دلائے۔
اگرچہ ہماری نئی حکومت نے اپنے سودن مکمل کرلئے ہیں مگر پھر بھی میں اپنی
اِس حکومت کو نومولودحکومت ہی کہوں گا، کیوں کہ آج کل ہماری حکومت کئی نئے
تجربات کے مراحل سے گزررہی ہے، اِن میں سرِ فہرست کراچی سمیت مُلک بھر سے
دہشت گردی کوجڑسے اُکھاڑپھینکنے اور مُلک کو درپیش توانائی ، مہنگائی
،کرپشن اور بے روزگاری جیسے مسائل اور اِن کے خاتمے کے لئے کئے جانے والے
تجربات شامل ہیں جبکہ اِن تمام باتوں کے باوجوددوسری طرف اِن دنوں ہماری
نومولودوفاقی حکومت اور ہمارے کاروباری دماغ رکھنے والے وزیراعظم میاں
محمدنواز شریف کی ایک یہی کوشش ہے کہ مُلک میں خسارے میں چلنے والے سرکاری
اداروں اور کارپوریشنوںکی جلدازجلد کارکردگی کو متحرک اور فعال بخش بناناکر
اِنہیں منافع بخش اور سونے کے انڈے دینے والے ادارے بنادیئے جائیں اور اگر
یہ اِس سے بھی حکومت کے متعین کردہ پروفٹس اور گولڈن ایگس( منافع اور سونے
کے انڈے) دینے کے اہداف کو نہ پہنچ سکیں تو پھر اِنہیں بلاکسی دوٹوک اورحیل
وحجت کے نجی اور پرائیویٹ سیکٹرز کے حوالے کردیاجائے،اِس سلسلے میں اِن
دنوں وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت سنجیدگی سے منصوبہ بندی کرتی ہوئی
متحرک دکھائی دے رہی ہے، اگرچہ یہ ہمارے بزنس مائنڈ وزیراعظم کے نزدیک کسی
حد تک مفیدعمل تو ہوسکتاہے ،اوراِس طرح اِن کی نظر میں اِس عمل سے بہتر
نتائج بھی نکلیں گے ، مگرمیں یہ سمجھتاہوں کہ وزیراعظم میاں محمدنوازشریف
کو یہ سب کچھ کرنے سے قبل اُن محکمہ کے ای ایس سی سمیت دیگرنجی اداروں کی
موجودہ کارکردگی کا بھی ضرور جائزہ لے لینااور موازانہ کرلیناچاہئے جو قومی
تحویل سے نجی سیکٹر میں چلے گئے ہیں کہ اِن دنوںاِن اداروں کی کارکردگی اِس
وقت کیا اور کیسی ہے اوراُس وقت کیا اورکیسی تھی..؟جب یہ قومی تحویل میں
تھے، اور اَب جب کہ یہ ادارے نجی تحویل میں ہیں تواِن کی کارکردگی عوام اور
خواص کی نظر میں کیا اور کیسی ہے..؟آج مُلک میں محکمہ کے ای ایس سی جیسے
کچھ ایسے ادارے موجود ہیں ، اگر اِن کی کارکردگی کو دیکھاجائے تواِن کی
کارکردگی نجی اداروں میں چلے جانے کے باوجود بھی غیراطمینان بخش ہے ،یعنی
آج بھی اگراِن اداروں کی کارکردگی کا موازنہ کیاجائے تو اِن کی کارکردگی
(جب یہ ادارے قومی تحویل میں تھے ) اُس وقت سے بھی کئی گنازیادہ غیر
اطمینان بخش ہی کیا بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔لہذاوزیراعظم میاں
محمدنوازشریف کو کسی قومی ادارے کو نجی تحویل میں دینے سے پہلے یہ
ضرورسوچناہوگاکہ اِن کے جلدبازی میں کئے گئے فیصلے سے ادارے کی ساکھ اور
عوام کو کتنانقصان پہنچ سکتاہے،کہ آیایہ ادارہ نجی تحویل میں جانے کے بعد
کیا اُس معیار کی خدما ت دے پائے گا، جس کی اِس سے توقع کرکے اِسے نجی
تحویل میں دیاجارہاہے، یہ صرف منافع کمانے اور سونے کا انڈہ دینے والی مرغی
ہی بنارہے گا..؟جیسے اِن دنوں کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی نجی تحویل میں
جانے کے بعد مالکان کو منافع اور سونے کے انڈے دینے والاادارہ بن گیاہے،
جبکہ حقیقی معنوں میں اِس کی کارکردگی صفر ہے۔ |